تعلیمی ادارے کھولنے پر اتفاق، خوش آیند

ایڈیٹوریل  جمعـء 10 جولائی 2020
تعلیم ادارے کی بندش کے باوصف لاکھوں طلباء اس وقت گھروں پر بیٹھے ہیں جس سے تعلیم کا تسلسل رکا ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

تعلیم ادارے کی بندش کے باوصف لاکھوں طلباء اس وقت گھروں پر بیٹھے ہیں جس سے تعلیم کا تسلسل رکا ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت ہونے والی بین الصوبائی وزراء تعلیم کانفرنس میں یہ اتفاق کیا گیا کہ ملک بھرکے تعلیمی ادارے ستمبر کے پہلے ہفتے کھولے جائیں، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی اداروں کو ایس او پیز پر عمل درآمدکا خاص خیال رکھنا ہوگا۔

کورونا وائرس کی وباء نے جہاں تمام معمولات زندگی کو متاثرکیا ہے، وہی شعبہ تعلیم بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ تعلیم ادارے کی بندش کے باوصف لاکھوں طلباء اس وقت گھروں پر بیٹھے ہیں جس سے تعلیم کا تسلسل رکا ہوا ہے، بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس کا یہ فیصلہ قابل تحسین قرار دیا جاسکتا ہے،کیونکہ علم ہی کسی ملک وقوم کوترقی کی شاہراہ پرگامزن رکھنے کا واحد راستہ ہے۔

ادھر وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا گراف مسلسل نیچے آنا تسلی بخش امر ہے، اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے انتظامی اقدامات کومزید موثر بنانا ہوگا۔ وہ کورونا وائرس کی صورت حال کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔

اجلاس میں وزیرِ اعظم کوکورونا کی ملکی وعلاقائی صورت حال، اسمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی کے مثبت نتائج، اسپتالوں میں کوویڈ 19 کے لیے درکار سہولتوں سے آراستہ بیڈز میں اضافے اور خصوصاً عیدالضحیٰ اور محرم میں کورونا کے پھیلاؤکو روکنے کے حوالے سے تشکیل دی جانے والی حکمت عملی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے اور اس کے روک تھام کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی کاوشیں لائق ستائش اور قابل قدر ہیں، اس حوالے سے کیسزکی تعداد کم ہونا بہترحکمت عملی کا نتیجہ قراردیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خدشے کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ عیدالاضحی کے دنوں میں کورونا وائرس کے کیسزمیں بے تحاشااضافہ خارج از امکان نہیں۔

اسی خدشے کے پیش نظر لاہورکی ضلعی انتظامیہ نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے سات نئے علاقوں کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان علاقوں میں کورونا مریضوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں اموات پانچ ہزار ہوچکی ہیں، جب کہ ڈھائی لاکھ سے زائد متاثرہ مریض سامنے آ چکے ہیں۔

عوامی مشکلات کے پیش نظرملک بھر میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ صائب لیکن حقیقتاً گیند عوام کے کورٹ میں ہے، اگر احتیاط کا دامن تھام کر رکھا جائے اور ایس او پیز پر عمل کیا جائے تو بچاؤ ممکن ہے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں جولائی کے پہلے ہفتے سے کورونا وائرس کے کیسز میں کمی ہونا شروع ہوگئی اور سوائے کراچی کے پورے ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کم ہورہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی عوام میں کورونا ٹیسٹ کرانے کے رجحان میں بھی شدیدکمی دیکھنے میں آئی ۔ کورونا وائرس کے حوالے سے میڈیا میں شعوروآگہی کی مہم جاری رہنی چاہیے کیونکہ جہل اورلاعلمی بھی اس مرض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازارگرم ہے،جو افراد اس کام میں ملوث ہیں،ان کی آئی ڈیز بھی بلاک کرنے کا کوئی بندوست نہیں کیا گیا ہے۔ ماسوائے مستند طبی معالجین کی رائے،کسی بھی نیم حکیم کی بات کو شیئرکرنے کے نقصانات بہت زیادہ مرتب ہورہے ہیں، اس صورتحال کا تدارک ضروری ہے۔

کورونا وائرس کے باعث ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے سے اب تک 3ہزار سے لے کر4 ہزارارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ومحصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے بیشتر قرضے ماضی میں لیے گئے قرضوں اور سودکی واپسی اورمالی خسارہ کم کرنے کے لیے، لیے ہیں، دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت و ٹیکسٹائل عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ جغرافیائی تنوع کو بڑھانا اور نئی منڈیوں تک رسائی ہماری اسٹرٹیجک تجارتی پالیسی کا اہم جز ہے۔

آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات سے11 ماہ میں ایک ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ ای کامرس پالیسی سے آئی ٹی صنعت کو مزید فروغ ملے گی۔ ایک جانب تو ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے حکومتی سطح کے اقدامات ہیں لیکن دوسری جانب کچھ منفی رجحانات بھی فروغ پارہے ہیں جیسا کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمائے کو محفوظ بنانے کے لیے سونے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے باعث مقامی صرافہ مارکیٹوں میں سونے کی قیمت تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جب کہ بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 26 ڈالر کے اضافے سے1802ڈالر ہوگئی جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔

کورونالاک ڈاؤن سے شادی بیاہ کی تقریبات معطل ہونے سے سونے کے زیورات کی خریداری میں 4ماہ سے غیر معمولی کمی کے باوجود مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بدھ کو فی تولہ اور فی دس گرام کی قیمتوں کے پرانے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ اس صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستانی مارکیٹوں سے خریدا جانے والا سونا ہمسایہ ممالک اسمگل کیا جا رہا ہے۔

عالمی سطح پر شرح سود میں کمی اورمقامی سطح پر ڈالرکی بڑھتی ہوئی قدرکے باعث سرمایہ کاروں کی جانب سے اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے خالص سونے میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھتاجا رہا ہے جو سونے کی عالمی مقامی قیمتوں کو تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچانے کا سبب بن گیا ہے، اس رحجان کی بیخ کنی بھی ضروری ہے کیونکہ اس طرح عام آدمی کی قوت خرید سے سونا باہر ہوجائے گا۔

ملک میں عید قرباں کی آمد آمد ہے، سبزیوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،کراچی میں ٹماٹرکی قیمت سو روپے فی کلو سے تجاوزکرگئی ہے، جب کہ امکان ہے کہ عید الضحیٰ سے قبل پیاز، لہسن ، ادرک کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔اس ضمن میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مصنوعی مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ آٹا، دال ، چینی، گوشت سمیت دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رحجان دیکھنے میں آرہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے ہیں۔ زبردستی مسافروں سے زائد کرائے وصول کررہے ہیں، جس کا براہ راست بوجھ عوام کی جیبوں پر منتقل ہورہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مہنگائی کو بڑھنے سے روکنا کس کی ذمے داری ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جب کم ہوتی ہیں تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا ؟ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو اشیائے خورونوش سمیت کرایوں میں خود بخود من مانا اضافہ ہوجاتا ہے۔ عوام کس سے فریاد کریں،کس در پرجائیں، کہاں دست سوال دراز کریں،ان کی داد رسی تحریک انصاف کی حکومت نہیں تو پھرکون کرے گا؟

کراچی میں مون سون کی بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ تین دن کے دوران 51 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے، بارش کے دوران شہر بھر میں کرنٹ لگنے کے مختلف واقعات میں بچے سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔کراچی، پاکستان کا معاشی حب ہے لیکن اسے انتظامی سطح پر جس طرح نظر اندازکیا گیا وہ کسی قومی المیے سے کم نہیں ہے، اول تو شہر میں مہینوں بارش ہوتی نہیں،اگر شومئی قسمت سے بادل ذرا سے مہربان ہوکر برس جائیں تو چند منٹوں کی بارش سے شہرکا حلیہ بگڑکر رہ جاتا ہے۔

تمام اداروں کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آجاتی ہے، سیوریج کا نظام شہر میں درہم برہم ہوجاتا ہے۔ نالوں میں ٹنوں کے حساب سے کچرا پڑا ہے، جو پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بنتا ہے، صرف کچراکے نام پر اس شہر میں سیاست ہوتی ہے جب کہ عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس سال مون سون سیزن میں کراچی سمیت اندرون سندھ میں بیس فی صد معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ہے ، نالوں کی بروقت صفائی نہ ہونے کے باعث اندیشہ ہے کہ شہر کی اہم شاہراہیں اور بیشتر علاقے زیرآب آجائیں گے، تین دن ہونے والی بارش کے باعث شہرکی سڑکیں زیرآب ہیں اورکئی علاقوں میں جگہ جگہ پانی کے تالاب بنے ہوئے ہیں۔

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں،کیا یہ صورتحال پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کے شایان شان ہے۔ بارش کے بعد شہرکی شاہراہوں پر منٹوں کا سفرگھنٹوںمیں طے ہوتا ہے، بلکہ کئی دنوں تک شہر میں لائٹ مکمل بحال نہیں ہوپاتی۔ اب تک صورتحال اتنی تشویشناک ہوتی جارہی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ہزاروں مریض جوگھروں میں آئسولیٹ ہیں وہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی عدم فراہمی کے باعث اذیت سے دوچار ہیں۔

دراصل شہر قائد میں بے رحمانہ لوڈشیڈنگ نے شہریوں کے صبرکا پیمانہ لبریزکردیا ہے ، لوگوں کی بڑی تعداد شاہراہوں پر دھرنا دے رہی ہے، جس سے ٹریفک کی روانی معطل ہوجاتی اور عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بجلی کے ستائے ہوئے شہریوں کا موقف ہے کہ ان کے علاقوں میں گزشتہ 16 گھنٹے سے بجلی بند ہے۔ پورا سال مینٹیننس کے نام پر مختلف علاقوں میں گھنٹوں بجلی بندکی جاتی ہے اورآخر میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ دیرکی بارش میں بجلی کی فراہمی کا نظام ہی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے خلاف تحریک انصاف نے پریس کلب کے باہراحتجاجی دھرنا دیا ہوا ہے۔

کراچی جوکبھی عروس البلاد کہلاتا تھا، اب روشنیوں کا نہیں، اندھیروں کا شہر ہے۔آخر ایسی کونسی خطا سرزد ہوئی ہے کہ جس کی سزا کراچی کے عوام کو مل رہی ہے۔اس شہرکا کوئی پرسان حال نہیں۔ شہری ، صوبائی اوروفاقی حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں جب کہ شہریوں کے مسائل کو حل کرنے پرکسی کی توجہ نہیں ہے، اس لیے کراچی، شہرناپرساں بن چکا ہے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی کی پریشان کن صورتحال کا نہ صرف نوٹس لیں، بلکہ ایسے اقدامات جنگی بنیادوں پر اٹھائیں جس سے جمہورکوکچھ ریلیف مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔