میں بڑا اہم تھا ‘یہ میرا وہم تھا

جمیل مرغز  جمعـء 10 جولائی 2020
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

ہمارے وزیر اعظم ہر مسئلہ کرکٹ میچ کی طرح حل کرتے ہیں‘ ہر بال کے بعد فیلڈر کی جگہ تبدیل کرنا اور بائولر کو جلدی جلدی تبدیل کرنا ان کی عادت بن چکی ہے‘ کسی قبر کے کتبے پر لکھا تھا کہ ’’میں بڑا اہم تھا ‘ یہ میرا وہم تھا ‘‘۔

ہر وزیر یہ سوچتا ہوا جب سو کر اٹھتا ہے تو تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا ہے‘ اسی طرح ہمارے عوام اور اسٹیبلشمنٹ بھی ہیں‘ یہاں صرف غیر سول حکمران ہی لمبی حکمرانی کرتے ہیں باقی سویلین تو جلدی جلدی تبدیل ہوتے ہیں۔

امریکا‘ بھارت اور دوسری جمہوریتوں کی طرح یہاں حکومت کی تبدیلی کا وقت معین نہیں ہے‘ بس صاحب کے دل کی مرضی سے حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘ اسی طرح عالمی تاریخ ’’ناگزیر شخصیات‘ سلاطین‘ فاتحین‘ آمروں اور مرد ہائے مومنین کے قصوں سے بھری پڑی ہیں اور قبرستان بھی‘ مملکت خداداد میں تو ایسے ناگزیر حاکموں اور سورمائوں کی کبھی کمی نہیں رہی ‘صرف غیر سول افراد ہی حکومت کر سکے ۔

اس تمہید کا مقصد وزیراعظم کی تقریر کی طرف توجہ دلانا ہے‘ وزیر اعظم نے بجٹ کی منظوری سے قبل اتحادی پارٹیوں اور اپنی پارٹی کے پارلیمنٹ ممبران کو عشائیہ دیا‘اس عشائیے میں مسلم لیگ (ق) اور کچھ دوسری اتحادی پارٹیوں نے شرکت نہیں کی‘ووٹ اگرچہ انھوں نے بجٹ کے حق میں دیے لیکن بہرحال اپنی ناراضی ظاہر کر دی‘ اس عشائیے میں وزیر اعظم صاحب نے دعوے کیا کہ (“We are the only choice”) ’’۔ اس وقت صرف ہم ہی انتخاب ہیں‘‘۔ شاید ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنے ناراض اتحادیوں کو دلاسہ دینا اورجارحانہ موڈ والی حزب اختلاف کو ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے۔

یہ عجیب امر ہے کہ موجودہ بجٹ اجلاس میں خاموش حزب اختلاف کا کردار بہت جارحانہ تھا ۔ جب ان کا دعویٰ ہے کہ صرف وہی ہی انتخاب ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیںکہ وہ کس کا انتخاب ہیں؟ یہ تقریروہ کسی انتخابی جلسے میں نہیں کر رہے تھے‘جہاں پر ہر قسم کے دعوے کیے جاتے ہیں‘ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس موقعے پر جب ان کے حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑ اور ان کی اپنی پارٹی کی صفوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے تو اس تقریر کی خاص اہمیت ہو سکتی ہے‘ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان کی مخاطب اسٹیبلشمنٹ تھی اور وہ ان کو بتا رہے تھے کہ اب بھی صرف ہم ہی آپ کے ساتھ ہیں۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکمران غیرمستحکم اتحاد ابھی تک قائم ہے‘ حالانکہ اختر مینگل کے جانے کے بعد یہ اتحاد صرف GDA کے چند ووٹوں کے علاوہ اور بھی کمزور ہو گیا ہے اور بعض دوسرے اتحادی بھی ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ وزراء صاحبان کے بیانات بھی حکومت کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں‘ بجٹ کی منظوری تو حکومت کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی لیکن اعتماد کا بحران روز بروز گہرا ہوتا جارہا ہے ‘حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس اتحاد کو کیسے بچایا جائے؟

اس دوران بجٹ اجلاس میں ایک متحد اور جارحانہ حزب اختلاف نے حکومت کو اپنے نشانے پر رکھا‘ موجودہ کورونا بحران کے دوران حکومت کی غلطیاں‘ خراب ہوتی ہوئی معاشی صورت حال اور حکومت کے دور میں متعدد سکینڈل‘ جو حکومت کے بحران کو ظاہر کرتے ہیں‘ان تمام کو حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا‘ ان حالات نے حکومت کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اپنی پارٹی کے ناراض ممبران اور ناراض اتحادیوں کو راضی کرنے کے لیے‘ ان لوگوں سے ملاقاتیں کرے اور ان کو کچھ مراعات دے ۔

یہ کام پہلے جہانگیر ترین اور بعض دوسرے لیڈروں کے ذمے تھا۔اس ڈنر سے قبل مختلف اتحادی پارٹیوں کے رہنمائوں سے وزیر اعظم نے ملاقاتیں کیں۔تجزیہ نگاروں کی رائے یہ تھی کہ ان ملاقاتوں میں حکومتی قیادت کو اتحادیوں کو راضی کرنے اور اس اتحاد کو جاری رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ان کے مذاکرات کے نتائج کا انجام مستقبل میں نظر آئے گا۔

ایک تبدیلی یہ آئی کہ وزیر اعظم نے بجٹ اجلاس کے دوران اسمبلی میں کئی دفعہ حاضری دی ‘یہ بہرحال ایک اچھا اقدام تھا‘حالانکہ انھوں نے بجٹ سیشن میں تقریروں میں بعض ایسے ریمارکس دیے جن سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو قومی سلامتی کے مسائل کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اسامہ بن لادن کو شہید کہنا‘ غلطی نہیں کہی جا سکتی ۔ دہشت گردی نے اس ملک کو جس طرح تباہ کیا ہے اس کا موجودہ حکمران قیادت کو بھی ادراک ہونا چاہیے۔سب کو معلوم ہے کہ پوری دنیا پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ سمجھتی ہے اور FATF میں چین سمیت بعض دوست ممالک کی وجہ سے ابھی تک Grey لسٹ میں نام اٹکا ہوا ہے ورنہ کب سے ملک Black لسٹ میں چلا جاتا۔

اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم صاحب اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں اور تبدیلی کا وعدہ پورا کر سکتے ہیں؟‘دوسال کی حکومت کے بعد بھی حکومت بہت سے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے‘چینی‘پٹرول جیسے اہم مسائل کو حل نہ کرنے کی صورت میں بھی سارا الزام کسی نامعلوم مافیا یا سابقہ حکومتوں پر ڈالنا اس حکومت کا وطیرہ بن چکا ہے‘احتساب وہ حربہ ہے جو حکومت ہر ادارے اور پالیسیوں میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے ‘اس بارے میں چیف جسٹس صاحب کا حالیہ فیصلہ اس امر کا ثبوت ہے کہ حکومت اس ادارے کو بطور سزا استعمال کر رہی ہے۔

حکومت نے کسی میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی‘یہ عام خیال ہے کہ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی کی ایک بڑی وجہ‘اپنی بقاء کے لیے سیکیورٹی اداروں پر اس حکومت کا بڑھتا ہوا انحصار ہے‘کیا اس حکومت میں کسی نے کبھی سوچا ہے کہ یہ واقعی ان کے لیے ناگزیر ہیں جو ان کو لائے ہیں‘اگر یہ سوچ ہے تو ان کو پاکستان کی تاریخ کا علم ہونا چاہیے کہ یہاں پر اقتدار کا ہما کتنی جلدی جگہ بدل دیتا ہے۔ خان قیوم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اقتدار کی کرسی کی حفاظت کے لیے راتوں کو بھی پہرہ دینا پڑتا ہے‘کیونکہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔

ماضی میں بہت سے ایسے افراد گزرے ہیں جن کو یہ زعم تھا کہ وہ ناگزیر ہیںلیکن جب ان کو نکالنا تھا تو کوئی وقت بھی نہیں لگا‘ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جب کوئی حکومت پارلیمنٹ اور ریاست کے دیگر اداروں کو کمزور کرتی ہے تو وہ اس عمل سے اپنی قبر کھودتی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا کردار ریاست کے ہر ادارے میں نظر آ رہا ہے اور سیاسی قوتوں کی آپس کی مستقل لڑائی‘ اس کردار کو مزید بڑھا رہی ہے۔

باوجود مستقل پریشر کے کہ ان کے لیڈر جیلوں میں ہیں یا ہر وقت نیب ان کو تحقیقات کے لیے بلاتی رہتی ہے‘موجودہ حالات میں حزب اختلاف زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر آتی ہے‘ لیکن مستقبل کے بارے میں ان کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل واضح نہیں ہے صرف تنقید تو مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ان کو مسائل کا ایک متفقہ حل بھی دینا چائیے۔

پرانے مائنس ون فارمولے کا ذکر بھی بار بار ہوتا ہے‘یہ فارمولہ ماضی میں ناکام رہا اور اب بھی شاید کامیاب نہ ہو‘موجودہ حکومت کو چند SOPکے ساتھ مدت پوری کرنی چاہیے‘ضرورت اس امر کی ہے کہ صحت‘ معاشیات اور بہترحکمرانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے وسیع سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے ‘یہ اس وقت ممکن ہے جب حکمران حالات کی نزاکت کو محسوس کریں‘ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کو ان دلکش خیالات سے نکلنا ہوگا کہ ’’ہم ہی واحد چائس ہیں‘‘۔جتنا جلدی وہ اس وہم سے نکلیں اتنا جلدی یہ اچھا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔