عیدالاضحی سادگی سے منائیں

ایڈیٹوریل  ہفتہ 11 جولائی 2020
عید الفطر پر لاپروائی کے باعث ہی کورونا کی وبا تیزی سے پھیلی

عید الفطر پر لاپروائی کے باعث ہی کورونا کی وبا تیزی سے پھیلی

وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو وفاقی دارالحکومت میں آئسولیشن اسپتال اور وبائی امراض کے علاج کے جدید مرکزکے افتتاح کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں قوم سے عیدالاضحی سادگی سے منانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر لاپروائی کی گئی توکورونا پھیلنے کا خدشہ ہے۔

عید الفطر پر لاپروائی کے باعث ہی کورونا کی وبا تیزی سے پھیلی، اسپتالوں، فرنٹ لائن ورکرز ، ڈاکٹرز، نرسز پر دباؤ بڑھا، اموات میں اضافہ ہوا ، حکومت نے کورونا کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن لگایا۔ این سی او سی نے ہدایات جاری کیں جس پر عملدرآمد میں صوبائی حکومتوں نے تعاون کیا اور جولائی میں وبا کی شدت توقع سے کم رہی، ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمدکیا جائے، ہم ان ممالک میں شامل ہیں جہاں کورونا وبا کی شدت کم ہورہی ہے، اگر ہم احتیاط کریں گے تو دنیا کے مقابلہ میں اس مشکل صورتحال میں بہترانداز سے نکل آئیں گے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بہترین اقدامات کے سبب کورونا کیسزمیں بتدریج کمی آنا جہاں خوش آئند ہے، وہاں یہ امید بھی بندھتی ہے کہ گراوٹ کا شکار معیشت بھی جلد بہتری کی جانب رواں ہوجائے گی۔ کورونا وبا پر قابو پانے کا کلیدی حل لاک ڈاؤن کوگردانا گیا، جس پر عملدرآمد ہونے سے  پوری دنیا میں مثبت نتائج سامنے آئے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو گھروں تک محدود رکھا جائے تاکہ کورونا کے عفریت پر جلد ازجلد قابو پا لیا جائے کیونکہ اسپتالوں اور طبی عملے پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے حکومتوں کے لیے نئے مسائل پیدا کر دیے۔

جہاں لاک ڈاؤن کورونا کی وبا  روکنے میں ممدومعاون ثابت ہوا وہاں معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا محرک بنا، صنعتیں، تجارتی مراکز اور مارکیٹیں بند ہونے سے بیروزگاری کی تیزی سے پھیلتی ہوئی لہر نے نت نئے مسائل اور مشکل حالات کو جنم دیا۔کورونا سے نبرد آزما حکومتیں اس معاشی گراوٹ کے باعث نئے حل اور طریقے سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ معیشت کوکیسے سنبھالا دیا اور بیروز گاری کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بڑھتے ہوئے معاشی دباؤکے باعث بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں بے بس ہو جائیں گی۔

اس کا ایک حل اسمارٹ لاک ڈاؤن کی صورت میں سامنے آیا کہ سارے علاقوں کو بند کرنے کے بجائے کورونا سے متاثرہ محدود علاقوں کو بند کرکے بتدریج مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی جائے اس طرح معاشی پہیہ بھی رواں رہے گا اور عوام کے لیے بھی مسائل پیدا نہیں ہونگے۔اسمارٹ لاک ڈاؤن کا طریقہ مکمل لاک ڈاؤن سے زیادہ بہتر ثابت ہوا لہذا اب اسی طریقے پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بالکل صائب کہا کہ عیدالفطر پر عوام کی جانب سے ہونے والی لاپروائی کے باعث کورونا کی وبا انتہائی تیزی سے پھیلی‘ اگر اس موقع پر تاجر اور عوام بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایس او پیز پر اس کے معنی و مفہوم کے مطابق عمل پیرا ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی اور اس وقت اسپتالوں اور طبی عملے پر جو دباؤ ہے اس کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ اب عید الاضحی کی آمد آمد ہے لہٰذا عیدالفطر پر عوام کی جانب سے ہونے والے لاپروائی کے پیش نظر ہی وزیراعظم نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ عیدالاضحی پر بھی اگر عوام کی جانب سے ایسا ہی رویہ سامنے آیا تو کورونا کیسز جو کم ہو رہے ہیں ایک بار پھر ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

اور اگر ایسا ہوا تو حکومت دوبارہ بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کا لامحالہ نقصان معیشت اور عوام دونوں ہی کو پہنچے گا۔ کورونا کیسز میں کمی کے باعث ہی وفاقی وزیر تعلیم نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے 15ستمبر سے کھولنے کا مژدہ جانفزا سنایا جس سے تعلیمی اداروں کے مالکان اور اساتذہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے جب اللہ کے کرم سے کوئی بلا ٹل جائے اور خیرخیریت ہو جائے تو اظہار تشکر کے طور پر فارسی زبان میں ایک محاورہ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت بولا جاتا ہے لیکن اگر عیدالاضحی کے موقع پر عوام نے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کیا اور سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے لاپروائی کا مظاہرہ کیا تو یہ معمولی سی ملنے والی خوشی غارت اور ایک بار پھر مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

گلوبل اکنامک کنڈیشنز سروے نے کورونا سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں وہ یقیناً تشویشناک ہیں۔ سروے کے مطابق عالمی کساد بازاری اور کووڈ19 کے باعث رواں سال پاکستان کی معیشت مشکلات کی زد میں رہے گی، کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے کیے گئے اقدامات سے جہاں مقامی طلب گھٹی ہے وہیں عالمی کساد بازاری سے برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی اور بے روزگاری میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے، اِس سہ ماہی کے دوران روزگار کا اشاریہ منفی 86.95رہا جب کہ پہلی سہ ماہی کے دوران یہ اشاریہ 57.14 تھا۔

ایک جانب جہاں کورونا کیسز میں کمی کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے وہاں دوسری جانب اس وباء سے اموات کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے، اگلے روز ملک بھر میں اس وباء سے مزید 81 افراد انتقال کرگئے جس سے اب تک مرنے والوں کی کل تعداد5036 ہوگئی اور 3048 نئے مریض سامنے آنے کے بعد متاثرین کی تعداد بڑھ کر دولاکھ 42 ہزار سے بھی تجاوزکرگئی۔

اس صورتحال کے پیش نظر پنجاب کے 7 شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ حکومتی اقدامات تب تک کامیاب نہیں ہوتے، جب تک عوام کا تعاون اس میں شامل حال نہ ہو لہٰذا یہ عوام پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمدکو بہرصورت یقینی بنائیں اورکسی بھی ایسے عمل سے گریزکریں جس سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہو۔

پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں اگلے روز تیزی کے سبب 66 فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جب کہ حصص کی مالیت میں 66 ارب 85 کروڑ روپے کا مزید اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وبا نے گزشتہ کئی ماہ کے دوران معیشت پر جو منفی اثرات مرتب کیے تھے، اب وہ زائل ہونا شروع ہوگئے جو ملکی معیشت کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہیں ہے ، جوں جوں روپیہ مستحکم ہو رہا ہے شرح سود میں کمی ہو رہی ہے، اسی طرح مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ نئے مالی سال کے آغاز سے ہی مارکیٹ کا گراف بلندی کی جانب گامزن ہے، یہ سب مثبت علامات ہیں جن کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

ادھر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پٹرول بحران کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ کیا یہ حکومت کی گڈگورننس ہے کہ حکومت کی موجودگی میں پٹرول بحران پیدا ہوا ہے، عدالت نے پٹرول بحران تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کے لیے وفاقی حکومت سے نام بھی طلب کر لیے ہیں۔

سپریم کورٹ کے معززحج نے اپنے ریمارکس میں جس امر کی نشاندہی کی ہے وہ صائب ہے۔ حالیہ پٹرول بحران کے سبب عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ عوام پٹرول کے حصول کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جب پچھلے ماہ کی  پچیس تاریخ کو پٹرول کی قیمتوں میں پچیس روپے اضافہ ہوا تو راتوں رات پٹرول ملک بھرمیں ملنے لگا،جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں، تو پٹرول نایاب ہوگیا جب بڑھیں تو ملنے لگا، اس ’’سائنس ‘‘ کے ایجادکردہ مافیازکو جبتک قابو میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک عوام کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوگی۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ سے منسلک خودساختہ جو پیمانہ بنایا گیا ہے، جب تک اس پیمانے کو توڑا نہیں جائے گا، عوامی مشکلات میں قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔کراچی میں دو دن سی این جی اسٹیشنزکی بندش سے بھی ٹرانسپورٹ کے مسائل میں گونا گوں اضافہ ہوگا۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی جمہور مشکلات کا شکار رہیں تو یہ حکومتی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔