سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 12 جولائی 2020
جب ہم چوتھی کلاس میں تھے، تب ہمارے اسکول کی جانب سے ’ماہانہ ٹیسٹ‘ کا ایک ’عذاب‘ شروع کیا گیا۔ فوٹو : فائل

جب ہم چوتھی کلاس میں تھے، تب ہمارے اسکول کی جانب سے ’ماہانہ ٹیسٹ‘ کا ایک ’عذاب‘ شروع کیا گیا۔ فوٹو : فائل

ہمارے اسکول میں جب ’بلیک بورڈ‘ پر ٹیسٹ لیے جاتے تھے۔۔۔

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

دیگر اسکولوں کی طرح امتحانات کی تیاری کے لیے ہمارے نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں بھی یہ طریقہ روا تھا کہ ہر ٹیچر اپنے مضامین کی مختلف مشقوں کے ٹیسٹ لیتا تھا۔۔۔ ظاہر ہے باری باری ایک ایک، دو دو سوالوں کے ٹیسٹ لیے جاتے، کچھ ٹیسٹ آسان ہوتے، تو کچھ دشوار۔۔۔

سارا ہوم ورک ایک طرف ہوتا اور کسی بھی ٹیسٹ کی تیاری ایک طرف۔۔۔ ہمیں اردو وغیرہ کا تو کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا۔۔۔ یہاں تک کہ اردو کا املا تو اول کلاس سے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ تیاری کی ہو، بلکہ ہمیں اتنا اعتماد ہوتا تھا کہ کہہ دیتے  کہ پوری کتاب میں سے کہیں سے بھی ’املا‘ کرا دیا جائے، ہم لکھ لیں گے۔ لیکن طویل اور رٹنے والے انگریزی، سائنس اور سوشل اسٹڈیز وغیرہ کے سوالات بہت پریشان کرتے۔۔۔ اگر ہم پڑھائی میں بہت اچھے نہ تھے، تو کوئی ایسے برے بھی نہ تھے۔

بس ہماری کارکردگی اوسط رہتی، لیکن پڑھائی کی فکر اور سہم بہت رہتا تھا، اس لیے ہم نے کبھی کسی ٹیسٹ کو ایسے نہیں ٹالا۔۔۔ ہر ٹیسٹ کی تیاری کی ہے۔۔۔ اگلے دن ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر مدرسے تک کی چھٹی کی، اور کبھی جلدی چھٹی بھی کروائی۔۔۔ اس کے باوجود بہت سے ’ٹیسٹ‘ اپنے بس میں نہیں رہتے تھے۔۔۔ ہمارا حافظہ رٹنے کے حوالے سے ہمیشہ سے ناقص رہا ہے، اس لیے ٹیسٹ کی تیاری کے دوران بار بار دھیان بھٹک جاتا اور ہم اِدھر کے اُدھر کے کھیل کود کے خیالات میں محو ہو جاتے۔۔۔ اس لیے ’کھلنڈرے‘ کہلاتے۔

ٹیسٹ میں کم نمبروں پر ٹیچر کی جانب سے سزا اور اِسٹک سے پٹائی کا بھی خوف لاحق رہتا تھا۔۔۔ جان فق ہو جاتی تھی، اس کے لیے ہم نے اپنے تئیں ایک ترکیب یہ نکال لی تھی کہ ٹیسٹ تو دے دیا جائے، لیکن ایسے ٹیسٹ کا ’پیپر‘ غائب کر دیا جائے، یعنی کلاس میں بچے ٹیسٹ مکمل کرتے جاتے اور اپنا ٹیسٹ کا ’صفحہ‘ ٹیچر کے پاس جمع کراتے جاتے اور آخر میں ٹیچر باقی ماندہ بچوں سے ’پیپر‘ جمع کرلیتی تھیں، جب کہ ہم چپکے سے یہ ’ورقہ‘ اپنے بستے میں چھپا دیتے اور تاثر یہ دیتے کہ ہم نے بھی پیپر دے دیا ہے۔۔۔!

اس طرح ایک عجیب طرح کی ’کام یابی‘ کا سا احساس ہوتا کہ جیسیسر پر آئی ہوئی کوئی آفت ٹال دی ہو، گویا ٹیسٹ ہو بھی گیا اور ناغہ کیے بنا ہم ٹیسٹ کے ’مضر اثرات‘ سے بھی بچ گئے۔۔۔ غنیمت یہ ہوتا کہ اس موقعے پر کبھی کسی ہم جماعت نے پلٹا نہیں کہ ارے تم تو ذرا ٹیسٹ کا پیپر دکھاؤ۔۔۔ لیکن پھر غالباً ہمارے اسکول کی سب سے رعب دار ٹیچر مس شہلا نے ہی کچھ بھانپ لیا تھا کہ کلاس میں ایسی کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہے یا ہو سکتی ہے، لہٰذا پھر یہ ہونے لگا تھا کہ کلاس میں اس روز حاضر ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد دیکھ لی جاتی، تاکہ اگر کسی کا ’پرچا‘ گُل ہو تو صاف پتا چل جائے۔

اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ چیک ہونے کے بعد ٹیسٹ کا پیپر واپس دیتے ہوئے لڑکوں کو ڈیسک پر بھیجنے کے بہ جائے باہر ہی کھڑا کیا جاتا اورآخر میں لا محالہ ٹیسٹ کا پیپر نہ دینے والا ’مجرم‘ ہی اپنی نشست پر بیٹھا رہ جاتا اور پکڑا جاتا۔ ہمارے ساتھ کبھی ایسی نوبت نہیں آئی، ہمیں جب بھی لگا کہ ایسی کوئی سختی ہوگی یا ٹیچر اس ’نسخے‘ پر عمل کریں گی، تو ہم کوئی خطرہ مول نہیں لیتے اور ہتھیار ڈال کر خود کو حالات کے سپرد کر دیتے تھے۔ ٹیسٹ میں عموماً 10 میں سے چھے کے بعد کے نمبر ’برے‘ شمار کیے جاتے تھے۔۔۔ اور شاید کبھی سزا بھی ملتی، مس شہلا ’آدھے نمبر‘ کا بھی کافی خیال کرتی تھیں، اس لیے ان کے ٹیسٹ میں ہم لوگوں کے نمبر ساڑھے سات، ساڑھے پانچ بھی آتے تھے۔۔۔

ہم  ٹیسٹ یاد نہ ہونے کے خوف سے بھی اسکول کی چھٹیاں کرتے تھے۔ اس کے لیے گھر میں کبھی پیٹ میں درد اور کبھی کچھ اور طبیعت خرابی کا بہانہ کر دیتے، تو کبھی ضد کر کے اصل صورت حال بتا دیتے اور پھر امی سے جیسے تیسے اسکول کی چھٹی کی اجازت مل ہی جاتی، کبھی ٹیسٹ والے روز ہم نیم خوف کے عالم میں اسکول تو چلے جاتے، لیکن جوں جوں ٹیسٹ والا پیریڈ قریب آتا جاتا، ویسے ویسے یوں لگتا کہ جیسے پھانسی گھاٹ سے نزدیک ہو رہے ہوں۔۔۔ پھر کٹھن ٹیسٹ والے دن پوری کلاس نظر رکھتی کہ آج فلاں مس نے ٹیسٹ دیا ہے، ذرا دیکھو تو کیا پتا وہ آج نہ آئی ہوں۔

اور کبھی واقعی وہ غیر حاضر ہوتیں، تو کتنا سکون مل جاتا تھا، ایسا لگتا کہ کوئی طوفان آنے والا تھا جو ٹل گیا۔۔۔ شکر، اب ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ایک دن اور مل گیا۔۔۔ کبھی ٹیچر تو آتیں، لیکن وہ یہ بھول جاتیں کہ انہوں نے ہماری کلاس کو کوئی ٹیسٹ دیا ہوا ہے، تو جی چاہتا کسی طرح وقت گولی کے موافق دوڑے اور یہ کلاس ختم ہو جائے اور کوئی انہیں یہ یاد بھی نہ دلائے کہ انہوں نے آج ہمیں ٹیسٹ دیا تھا۔۔۔کبھی ایسا ہو بھی جاتا تھا اور کبھی کوئی ’ہونہار‘ خم ٹھونک کر انہیں یاد دلا دیتا کہ آج تو ٹیسٹ تھا۔۔۔

جب ہم چوتھی کلاس میں تھے، تب ہمارے اسکول کی جانب سے ’ماہانہ ٹیسٹ‘ کا ایک ’عذاب‘ شروع کیا گیا، یہ گویا ہر مہینے کے امتحانات کی طرح تھے، یہ ہمارے لیے ہر وقت کا ایک بوجھ اور ہر جنجال بن گئے تھے۔۔۔ بندہ امتحان دے کر تھوڑا سا سُکھ کا سانس لے لیتا ہے کہ چلو اب چار، چھے مہینے کے لیے تو پرسکون رہیں گے، لیکن یہ ہر مہینے ہر مضمون کے باقاعدہ ٹیسٹ اور پھر اس کا باقاعدہ ’رپورٹ کارڈ‘ میں اندراج ہونا۔۔۔ یہ سب نہایت خوف ناک تھا۔۔۔ چلو اگر مہینے کے آخری تین، چار یا پانچ دن ٹیسٹ کے لیے مختص کر لیے جائیں۔

جیسا کہ شاید اوائل میں رہا بھی، لیکن جب جس ٹیچر کی مرضی ہوتی، وہ ٹیسٹ لے لیتا، گویا ایک مستقل طور پر ہی ذہنی دباؤ کی حالت ہوگئی۔۔۔! شاید ٹیسٹوں کا یہ سلسلہ آٹھویں تک چلا، کیوں کہ مجھے اپنی آٹھویں کی رپورٹ میں ٹیسٹ والے خانوں میں کچھ سرخ نمبر یاد آرہے ہیں، یہ دیکھنا پڑے گا، لیکن درمیان میں کچھ یاد نہیں آرہا کہ پانچویں، چھٹی اور ساتویں میں بھی یہ ماہانہ ٹیسٹ جاری تھے یا نہیں۔۔۔

کلاس کے ٹیسٹ میں سختی تو ہوتی تھی، لیکن پھر بھی ’نقل‘ سے روکنے کے لیے ٹیچر بہت کڑی نظر رکھتی تھیں، ظاہر ہے کلاس میں 50 سے زائد بچے ہوتے تھے، اس لیے امتحانات کی طرح بچوں کو دور دور تو بٹھایا نہیں جا سکتا تھا۔۔۔ چناں چہ بہت سے ٹیچر اعلان کر دیتے کہ کل کا ٹیسٹ ’بلیک بورڈ‘ پر لیا جائے گا ۔۔۔ اگر سائنس وغیرہ جیسے مضامین کا مشکل ٹیسٹ ہوتا، تو یہ ہم جیسوں کے لیے خاصا تسلی بخش اعلان ثابت ہوتا تھا، کیوں کہ پچاس بچوں کی کلاس میں ہماری باری آنے سے پہلے ہی لازمی طور پرآدھے گھنٹے کی کلاس کا وقت ختم ہو جاتا تھا، کیوں کہ  ایک وقت میں ایک ہی بچہ ’بلیک بورڈ‘ پر لکھنے کے لیے کھڑا ہوتا تھا، کچھ جلدی ہار مان جاتے، تو کچھ مِنن مِنن کر کے لکھتے۔۔۔ بہرحال ایسے موقع پر شاذ ہی کبھی ہمیں ٹیسٹ کے لیے پکارا گیا ہو۔۔۔

’بلیک بورڈ‘ پر ٹیسٹ کے حوالے سے ایک دل چسپ صورت حال پانچویں کلاس میں مس روبی نے پیدا کی تھی۔۔۔ یہ شکر ہے کہ وہ اردو جیسا حلوہ مضمون پڑھاتی تھیں۔۔۔ انہوں نے پانچویں کلاس میں ہمارے بہت سارے ٹیسٹ لیے، اور شاید ہر ٹیسٹ ہی بورڈ پر لیا اور کس طرح۔۔۔؟ یہ بھی سن لیجیے۔ وہ کلاس کے بڑے سارے بلیک بورڈ کو چھوٹے چھوٹے پانچ چھے خانوں میں بانٹ دیا کرتیں، جس سے بہ یک وقت چھے، چھے بچے کھڑے ہو کر پوری کلاس کے سامنے ٹیسٹ دے رہے ہوتے اور ہر ایک کا سوال الگ الگ ہوتا، کسی کو کوئی درخواست، تو کسی کو کوئی خط اور کسی کو گرامر تو کسی کو اشعار کی تشریح۔۔۔ یعنی جہاں ایک وقت میں ایک بچے کو بورڈ پر ٹسیٹ دینے کی روایت تھیِ، وہاں انہوں نے اس صلاحیت کو چھے ، سات گنا بڑھا دیا۔۔۔ اور پھر اس ٹیسٹ میں کارکردگی نہ دکھانے والے طلبہ کی ’خاطر مدارات‘ کے لیے بھی  ایک بھرپور انتظام ہوتا۔۔۔ نہایت پراعتماد، خوش مزاج اور ہنسنے بولنے والی مس روبی ’مستحق‘ بچوں کی پٹائی کے معاملے میں کبھی کسی سے کم نہیں رہیں۔۔۔

’بلیک بورڈ‘ پر اس ٹیسٹ کے سلسلے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ کلاس کے شاید آٹھ، دس جن لڑکوں کو اس ٹیسٹ سے استثنا دیا جاتا تھا، ہم بھی ان میں سے ایک تھے۔۔۔ ظاہر ہے، ٹیچر کو پتا ہوتا ہے کہ کون کمزور ہے، اسی لیے پھر اُسی پرزیادہ زور دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک دو دفعہ کلاس سے یہ آوازیں بھی اٹھیں کہ آپ کبھی ان سے بورڈ پر کیوں نہیں لکھواتیں تو انہوں نے شاید ایسے بچوں کا منہ بند کرنے کے واسطے ایک آدھ بار ہمیں بلایا بھی اور پھر جو لکھنے کو کہا وہ ہم نے بہ آسانی لکھ  دیا۔۔۔ جہاں ہم بہت سے مضامین پڑھتے ہوئے دباؤ میں رہتے، وہیں یہ امر ہمیں بھی ہمارے ہونے کا احساس دلا دیتا تھا۔۔۔

اب تو کیا کلاس والے اور کیا اساتذہ۔۔۔ سب ہی لوگ بچھڑ گئے اور بے فکری کی عمر کی طرح یہ سب باتیں بھی ماضی کی یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔۔۔

۔۔۔

وبا کے دن
ناہید سلطان مرزا
آئو شہرزاد ایک کہانی کہیں
جو ایک ہزار ایک راتوں تک چلے
ہر رات چاند اور تاروں کی چھائوں تلے
وہ کہانی ہر گھر کی چوپال، بیٹھک میں سنی جائے
طلسمی دروازہ، پراسرار چوکھٹوں کے اسرار کھولے
ظالم جادوگروں، چڑیلوں سے لڑتا شہزادہ
قید میں سوئی شہزادی کو چھڑانے آئے
جادو کے قالین پر سیر کرائے
ہم سب کو ایسی دنیا میں لے جائے جو سب تلخیاں بھلادے
جو خوش بودار جنگلوں، پہاڑوں ، جھیلوں، مترنم گیتوں
میں محبت سے ہم آہنگ ہو
شہرزاد تم نے بھی تو خود کو بچایا تھا
خوف کے دبیز پردے کو چیر کر
محصور، مجبور، دل گرفتہ، بے سکون
لمحوں سے آزاد ہوکر
کسی کو تجدید عہد وفا پر مجبور کیا تھا
اور کہا تھا یہ وقت بھی گزرنا تھا، گزرگیا
مگر میری سہیلی میرے لوگ بہت کٹھور ہیں
انہیں جان بچانے سے زیادہ جان لینا پسند ہے
حیلوں سے بہانوں سے نئے زاویوں سے
دل دکھانے کے نت نئے طریقوں سے
یہ اذیت پسند، تشدد پسند محروم لوگ
تمہاری کہانیاں ٹھکرادیں گے
بوسیدہ، ناکارہ، بیکار کہہ کر
جب کہ آج ان کے تمام عزائم، تمام بلندیاں، ترقیاں زمیں بوس ہیں

۔۔۔

یہ غلام ذہنیت کی نشانی ہے!
سیدہ فاطمۃ الزہرہ، لاہور

میٹرک میں اسکول کی بہتری کے لیے دس صفحوں پر کچھ تجاویز ہیڈ ماسٹر کے حوالے کیں، تو وہ مسکرا دیے۔ ’اکیڈمی‘ میں بھی ایسی ہی کوشش کی، بلکہ اُن کا سر بھی کھایا کہ سر آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہمارے سسٹم سے بچوں کو کیسے نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایک دن دسویں جماعت کی ایک بچی کے پیچھے پولیس آگئی اور خوب ہنگامہ ہوا، بچوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو فزکس کے استاد نے بس ایک جملہ بولا، ’بیٹا! برے کاموں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔۔۔!‘‘ اب مجھے سمجھ میں آگیا کہ ’برے‘ کام سے مراد کیا ہے۔ میں نے پھر سر سے جا کر کہا کہ اکیڈمی میں لڑکے اور لڑکیوں کی کلاسیں الگ کر دیں، بہت مسائل ہو رہے ہیں۔ سر اکثر ٹالتے رہتے، مگر جب ایک دن میں نے انہیں ایک تحقیق لا کے دکھائی، تو ایک دم اُن کا پارہ ہائی ہو گیا۔۔۔! تب تو میں رو دھو کے خاموش ہو گئی، مگر یہ سوال کرنے، چیزیں بہتر کرنے کی، صلاح دینے کی عادت نہ گئی۔ ایک طرف بڑے یہ کہتے ہیں کہ ’اچھے بنو! آپ مستقبل ہو‘ مگر ہم جب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو الٹا سزائیں دیتے ہیں!

پھر ایک طلبہ تنظیم میں آ کے کچھ بہتری کی امید جاگی، یہاں باقی جگہوں کی طرح ایک دم تو ’دیس نکالا‘ نہیں ملا، نہ ہی فوراً تجویز رد کی جاتی، اس سے یوں گمان ہونے لگا کے یہاں سب کہنے کی آزادی ہے، مگر مجھے وہ سردیوں کی رات نہیں بھولتی، جب صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں ’شریکِ مشورہ‘ کے طور پہ اپنی 15 سالہ عقل کے حساب سے ’مراسلے‘ چھوڑ کے ای میل پر آنے کی تجویز دی، تو رات کے 11 بجے مجھے کمرے سے باہر نکال کے کہا گیا کہ ’’آپ ابھی گھر جائیں۔۔۔!‘‘ اور میں ہکا بکا رہ گئی کہ رات کے اس پہر کہاں جاؤں۔

اب سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ اُن کا اجلاس متاثر ہو رہا تھا۔ یہ ’شریکِ مشورہ‘ بس نام کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ تمام ادارے، اسکول، کالج، یونیورسٹی یہ سب کے سب بس ’مقلد‘ چاہتے ہیں، کیوں کہ ایسے نظام موجود نہیں جو ’جیتے جاگتے انسان‘ اپنے اندر رکھیں۔

یہ تو زمانے کی ریت ہے، اسپتال میں سائیکیٹرک وارڈ ہو یا یونیورسٹی، یہاں تو سب ایسا ہی ہے۔ سوال کرنے کی ضرور اجازت ہے، کیوں کہ ’جمہوریت زندہ باد‘ مگر یہ بھی بس ایک واہمہ ہے، کیوں کہ سوال کا کوئی متحمل نہیں ہو سکتا، کہ سچ کی تاب لانا تو بہت جرأت کا کام ہے۔ نہ میرے اسکول کا قصور تھا، نہ ہی کسی تنظیم اور ادارے کا۔۔۔!

یہ کیسے ممکن ہے کہ غلام قوموں کے ادارے غلام نہ ہوں۔۔۔؟ غلاموں کی طرح ان کی تربیت نہ کریں، کیوں کہ اُنہیں آتا ہی یہ ہے۔

غلام ذہنیت کی نشانی ہے کہ نیا نظام استوار کرنا نہیں آتا اور پرانے نظام سے ایسی ’سیکیوریٹی اٹیچ‘ ہے کہ اُسے چھوڑنا نہیں آتا۔ ایسے میں ہم کیسے وہ اولاد پروان چڑھا سکتے ہیں، جن کے ’ڈی این اے‘ میں غلامی نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔