کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 12 جولائی 2020
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

غزل


آتشِ زخم سے جب سینہ پگھلتا تھا مرا
منہ سے آواز نہیں خون نکلتا تھا مرا
سرخ انگارے دہکتے تھے مری آنکھوں میں
تیری توہین پہ جب رنگ بدلتا تھا مرا
اتنی مانوس تھی احساس کی لو دھوپ کے ساتھ
جسم سورج کے اتر جانے سے جلتا تھا مرا
کم نہ تھی موت کی رفتار سے رفتارِ سفر
سانس رک جاتے تھے جب قافلہ چلتا تھا مرا
غیر آباد مسافت میں غنیمت تھی زمیں
کارواں گرد کی خوراک پہ پلتا تھا مرا
دوڑتے دوڑتے میدان میں پیاسوں کے لیے
پاؤں کے تلووں سے احساس نکلتا تھا مرا
حبس اندر کی نکلتی تو ہوا رک جاتی
سانس مشکل سے یہ ماحول نگلتا تھا مرا
وحشتی راہ گزر طے نہ ہوئی مجھ سے علیؔ
جسم تو جسم ہے سایہ بھی دہلتا تھا مرا
(علی شیران۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


آنکھ سے دور بہت دور ہدف رکھا ہے
خوف پھر اپنے ہی پہلو کی طرف رکھا ہے
کیسے ڈر جائیں گے انجام کی خبریں سن کر
خود کو آغاز سے جب تیغ بکف رکھا ہے
مان لی جائے گی اب بات قبیلے میں مری
میرے کرتے میں ذرا تیز کلف رکھا ہے
میری خوش بختیِ تقدیر کوئی دیکھے تو
پا بہ زنجیر، مگر ہاتھ میں دف رکھا ہے
شعر گوئی سے کبھی باز نہیں آ سکتا
میرے مالک نے طبیعت میں شغف رکھا ہے
کون سی بات نے ممتاز کیا ہے سب سے
’’اشرف الخلق میں احساسِ شرف رکھا ہے‘‘
(فیضان فیضی کہوٹ پادشاہان، چکوال)


غزل


مجھے لگا تھا محبت سے پیش آتے ہیں
مگر یہ لوگ تو نفرت سے پیش آتے ہیں
ہمیں وہ اپنا کہے اور پھر رہے قائم
یہ حادثات تو قسمت سے پیش آتے ہیں
عجیب بات ہے مطلب نکالنے کے لیے
خدا سے لوگ عبادت سے پیش آتے ہیں
مرے بڑوں نے یہی بات ہے سکھائی مجھے
سبھی سے پیار سے عزت سے پیش آتے ہیں
انہیں بھی دوست کہوں چھوڑ یار جانے دے
جو میرے ساتھ ضرورت سے پیش آتے ہیں
لگا تو لوں میں پرندوں سے دل مگر شہبازؔ
یہ بے یقین ہیں ہجرت سے پیش آتے ہیں
(شہبازماہی، رینالہ خورد۔ ضلع اوکاڑہ)


غزل


دشت کی تشنگی بڑھاتا ہوں
میں اداسی کے کام آتا ہوں
تو مجھے عشق کی سہولت دے
میں ترا ضبط آزماتا ہوں
قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں
پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں
اک تھکن راستے میں ملتی ہے
اک تھکن گھر سے لے کے جاتا ہوں
شام کے سرمئی پرندوں کو
چاندنی اوڑھنا سکھاتا ہوں
دیکھتا ہوں کہیں پڑا خود کو
اور بہت دیر مسکراتا ہوں
(وسیم حیدر جعفری۔ جھنگ)

..
غزل


اختلافات کیجئے ہم سے
ہاں مگر بات کیجئے ہم سے
تم کو دعویٰ ہے گر محبت کا
یوں نہ پھر ہات کیجئے ہم سے
عہدِ رفتہ میں کیا رکھا ہے دوست
آج کی بات کیجئے ہم سے
بے تکلف ہو سو بیاں اپنے
سارے جذبات کیجئے ہم سے
چلو فرصت ملی ہے گپ شپ کی
خوب دن رات کیجئے ہم سے
وقت کافی ہے حالِ دل کے لیے
پھر شروعات کیجئے ہم سے
آپ ناراض ہی سہی پھر بھی
شکوہ ٔ ذات کیجئے ہم سے
لوٹ کر آپ پھر نہ جائیں گے
اک ملاقات کیجئے ہم سے
(مسرت عباس ندرالوی ۔ندرال، چکوال)


غزل


رنج و آلام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میں تِرے دام سے نکلوں گا تومر جاؤں گا
اب کوئی کام محبّت کے سوا مجھ کو نہیں
اب اگر کام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
جپ رہا ہوں یہ ترا نام تو میں زندہ ہُوں
میں ترے نام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میرے ہونے کی علامت ہے فلک پر یہ شفق
منظرِ شام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
منظرِ عام پہ آنے سے یہ احساس ہُوا
منظرِ عام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
میں ہوں کیفیؔ،مری دُنیا سے نکالو نہ مجھے
گرد شِ جام سے نکلوں گا تو مر جاؤں گا
(محمودکیفی۔ سیالکوٹ)


غزل
دن پہ آیا تو کبھی رات پہ رونا آیا
ہم کو جی بھر کے کسی بات پہ رونا آیا
ان کے بھیجے ہوئے پھولوں کی خوشی ایک طرف
خط میں لکھے ہوئے حالات پہ رونا آیا
شہر ایسے ہیں کہ ہوں شہرِ خموشاں جیسے
درد گونجے تو مکافات پہ رونا آیا
خشک ہوتے ہوئے اشکوں کی کوئی بات نہ کی
ان میں بہتے ہوئے جذبات پہ رونا آیا
میں کہ ہنستا تھا محبت پہ کھڑا دور کبھی
چھو کے گزری ہے تو کم ذات پہ رونا آیا
تیرے سائل کو تِرے وصل کی خُوبُو نہ ملی
خالی کاسے کو بھی خیرات پہ رونا آیا
حرف بکھرے تو خلیل ؔعرش پہ پہنچی آہیں
آس ٹوٹی تو مناجات پہ رونا آیا
( خلیل حسین بلوچ۔کراچی)


غزل


عدن کی مثل سرِ دشت، گلستان کی لَو
عجیب سے بھی عجب ہے یہ باغبان کی لَو
ہرایک یاد کا سایا ہے رقص کرنے لگے
یوں تھرتھرانے لگی ہے چراغِ جان کی لَو
ہے اُس کے گال کا تِل روزنِ سیہ جیسا
ہے اُس کا عارضِ پُرنور اِس جہان کی لَو
کہوں میں ماہ جو اُس رُو کو تو حماقت ہے
حسین مہ سے زیادہ ہے اُس کے کان کی لَو
میں روز رات تجھے یاد ایسے کرتا ہوں
کہ جیسے طفل کو ہوتی ہے امتحان کی لَو
میں کیوں نہ گرد بنوں اور بلند ہو جاؤں
کہ روندنا ہی روشؔ کو تھی رفتگان کی لَو
(علی روشؔ۔گجرات)


غزل


خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ بنے پھریے
سرکار کی مرضی ہے کہ کب کیا بنے پھریے
اندھوں کا نگر ہے یہ مرے آئینہ تمثال
اس شہر میں کیا آئینہ خانہ بنے پھریے
کیوں کوئی ٹھکانہ کرے تاریک مکاں میں
اچھا ہے کسی شہر کا رستہ بنے پھریے
میں ڈر بھی گئی، مر بھی گئی پیاس لبوں پہ
اب جائیے اور دشت میں دریا بنے پھریے
اب ہم سے مروت میں بھی یہ کام نہ ہوگا
کیوں اس کی گلی جا کے تماشا بنے پھریے
(فرح گوندل۔ اسلام آباد)


غزل


اس بات کا ملال نہیں ہے کہ سَر لگا
دکھ ہے یہی کہ تیر نشاں سے اُدھر لگا
میں نے تو بس قلم کی زباں بولی،اور لوگ
یوں دیکھنے لگے کہ مجھے خود سے ڈر لگا
مجھ کو ستارہا تھا نئی نسل کا خیال
پھر دل نے اک صدا دی کہ پاگل شجر لگا
میں شہر چھوڑتے ہوئے اتنا اداس تھا
ہر شخص زندگی سے مجھے بے خبر لگا
پھر تیرے بعد خود کی مجھے بھی تلاش تھی
پھر تیرے بعد جانے کہاں ،کس ڈگر لگا
تیرا خیال آتا رہا رات بھر مجھے
بدلی سے جھانکتا وہ قمر ہم سفر لگا
جب سے ہوئی ہے نور ؔشناسائی عشق سے
ہر ایک شخص عشق کے زیرِ اثر لگا
(حضرت نور تنہا۔کراچی)


غزل
بے نشاں ہو گئے عاشقی میں تری
نام ہے اب مرا شاعری میں تری
گفتگو کب رہی ، رابطے کب رہے
کب رہے قہقہے اب ہنسی میں تری
چھوڑ کر آ گئے راہ میں ہم تجھے
فکر لیکن رہی واپسی میں تری
آ گئیں راس ہم کو سبھی الجھنیں
تہمتیں سہہ گئے بے کسی میں تری
سوچتی ہوں کبھی چھوڑ دوں یہ گلی
آ نہ جاؤںکہیں سادگی میں تری
زندگی بچ گئی جو مری اے خدا!
آرزو ہے کٹے بندگی میں تری
(افشاں مبین۔ٹیکسلا)
’’سکائی ڈائیور‘‘
میں نے پوچھا
’’پاگل ہو تم؟
بیٹھے بٹھائے یہ کیا سوجھی؟
یہ بھی کوئی کھیل ہوا؟
مرنا ہے تو اس کے اور بھی اچھے خاصے
اور آسان طریقے ہیں
پھر یہ فلک سے نیچے گرنا
اس میں کیا ایڈونچر ہے؟‘‘
اس نے کہا
’’او پاگل لڑکی
ایسے کوئی مرتا ہے؟
کتنے اجلے چہروں والے
بڑے بڑے فرشتہ لوگ
روز بلندی سے گرتے ہیں
حتیٰ کہ
خود اپنی ہی
نظروں سے گر جاتے ہیں
کبھی کسی کو مرتے دیکھا؟‘‘
(اپسرا گل۔ صادق آباد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔