ساہوکاری اور غریب دشمن بجٹ 2020

محمد رمضان زاہد  پير 13 جولائی 2020
تحریک انصاف نے بھی گزشتہ حکمرانوں کی طرح غریب دشمن بجٹ پیش کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف نے بھی گزشتہ حکمرانوں کی طرح غریب دشمن بجٹ پیش کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ملک کی 80 فیصد آبادی متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور بعض تو ایسے ہیں کہ دن میں مزدوری کرتے ہیں تو شام کو ان کے گھر میں کھانا پکتا ہے۔ جو لوگ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں وہ سارا مہینہ قریبی دکانوں سے ادھار سامان لے کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اور تنخواہ ملتے ہی سب سے پہلی ترجیح اس دکاندار کے قرض کی ادائیگی، یوٹیلٹی بلز، مکان کا کرایہ اور بچوں کی اسکول فیس کی ادائیگی ہوتی ہے۔ ایک مزدور یا فیکٹری ورکر کی مجموعی ماہانہ آمدن 17 ہزار روپے ہے۔ جبکہ اس بار حکومت نے ان کی اجرت میں اضافہ نہیں کیا جو کہ غریب اور مزدور طبقے کے ساتھ ظلم ہے۔

فیکٹری مزدور کو اس قلیل تنخواہ کےلیے ہر روز 10 گھنٹے سے زائد وقت دینا پڑتا ہے، کیونکہ فیکٹریوں یا کارخانوں کے مالکان انہیں اضافی وقت کےلیے روک لیتے ہیں اور اس کا کوئی اوور ٹائم بھی نہیں ملتا۔ جبکہ اس کےلیے کوئی لیبر قانون بھی نہیں ہے۔ اگر ہے تو لیبر آفیسر رشوت لے کر فیکٹری یا کارخانے کو کلیئر کردیتے ہیں اور پھر زیادہ تر فیکٹریاں اور کارخانے بھی حکومتی وزرا اور ان کے کارپردازوں کے ہیں، جس کی وجہ سے مزدور کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی۔

اب آتے ہیں موجودہ بجٹ اور ماہانہ تنخواہ کی طرف کہ 17 ہزار روپے ماہانہ میں پانچ یا چھ افراد پر مشتمل خاندان کا گزارا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس پر مستزاد حکومت نے ہر چیز کا ریٹ دگنا کردیا ہے۔ حکومت نے عوام پر پٹرول بم ایسے گرایا جیسے امریکا نے ہیروشیما کے سوتے ہوئے شہریوں پر ایٹم بم گرایا تھا، یعنی اچانک اور غیراعلانیہ۔ مشیروں اور وزرا نے اسے حکومتی کارکردگی اور غریب پروری کی اعلیٰ مثال بناکر پیش کیا۔ وزیراطلاعات نے پریس ریلیز جاری کی کہ ہم نے دیگر ملکوں کی نسبت پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ریلیف دیا ہے اور یہ ریلیف جاری رہے گا۔ اور پھر دیگر ملکوں کے پٹرولیم ریٹ بھی جاری کردیے۔ اگر ہم انڈیا کا موازنہ کریں تو وہاں پر فی کس سالانہ آمدن 2500 ڈالر ہے، جبکہ پاکستان میں صرف 1200 ڈالر کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کی معاشی حالت ہم سے بہتر ہے۔ لیکن کیا ہے کہ ’’حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقہ ہی متاثر ہوتا ہے کیونکہ تمام اشیا کی قیمتیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھنے سے فوری بڑھ جاتی ہیں جبکہ مزدور کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوتا۔ جب حکومتی کارپرداز ڈالر کی قیمت کے بڑھنے کا رونا روتے ہیں تو انہیں مزدور اور غریب آدمی کی تنخواہ کو بھی دیکھنا چاہیے۔

گزشتہ حکومت جب گئی تھی تو اس وقت ڈالر کی قیمت 120 روپے تھی اور مزدور کی تنخواہ 15000 روپے، جو کہ 125 ڈالر کے برابر بنتی تھی۔ جبکہ اب ڈالر کا ریٹ 170 روپے ہے، جبکہ مزدور کی تنخواہ 100 ڈالر کے برابر بنتی ہے، جو غریب اور مزدور کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ اگر ہم کسی بھی جگہ کوئی چیز لینے جائیں تو دکاندار کا برجستہ جواب ہوتا ہے ڈالرکا ریٹ بڑھنے سے ہر چیز کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کا من پسند ریٹ لگا کر مزدور کی جیب پر اور بھی بوجھ ڈال دیتا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی حالیہ قیمتیں بڑھنے سے غریب اور متوسط طبقہ افراط زر کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عوام کو امید تھی کہ چلو بجٹ میں ہی غریبوں کےلیے کچھ کردیا جائے گا لیکن یہاں بھی غریبوں کو نظر انداز کیا گیا۔

تحریک انصاف کے امیدوار انتخابات سے قبل جھوٹے نعرے، جھوٹے وعدے کرکے، عورتوں اور مردوں کو مخلوط نچا کر جس نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے، اس کا کیا بنا؟ وزیراعظم غریب عوام کی آواز بن کر ساہوکاری نظام سے لڑنا چاہتے تھے لیکن اس بجٹ کے بعد ایک دفعہ پھر گزشتہ حکمرانوں کی طرح ساہوکاری بجٹ بناکر بددعاؤں کی لسٹ میں غریب عوام کی جانب سے فہرست میں اول نمبر آگئے ہیں۔

بعض لوگ تو اس خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ کہیں وزیراعظم یوٹرن لیتے ہوئے جس طرح معاف کیے ہوئے بجلی کے بلز کی وصولیاں کررہے ہیں، اسی طرح احساس پروگرام کے تحت غریبوں کو بانٹے جانے والے پیسوں کی بھی واپسی نہ شروع کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔