ایشیا کپ اور کمزور بورڈ

سلیم خالق  پير 13 جولائی 2020

’’ایشیا کپ  اس سال نہیں ہوگا‘‘ جب بھارتی بورڈ کے صدر سارو گنگولی نے صحافی وکرانت گپتا کو انٹرویو میں یہ کہا تو وہ بھی حیران رہ گئے، انھوں نے دوبارہ سوال دہرایا کہ ’’کیا ایشیا کپ ملتوی ہوگیا‘‘ جواب میں گنگولی نے بھی ہاں میں جواب دیا، یہ خبر جنگل کی آگ کے مانند دنیا بھرمیں پھیل گئی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ چونکہ میزبان تھا اس کیلیے بھارت سے اعلان شرمندگی کا باعث بنا، ترجمان نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی اطلاعات نہیں، فیصلہ ایشین کرکٹ کونسل کو کرنا ہے، کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار چھٹیاں منانے کیلیے برطانیہ میں موجود چیئرمین احسان مانی نے ایک برطانوی صحافی سے بات چیت میں بھی کیا، مگر کچھ دیر بعد ہی انھوں نے ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو میں تصدیق کر دی کہ رواں برس ایونٹ کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔

ان مختلف  جوابات نے سب کو کنفیوژ کر دیا مگر شاید سب سے زیادہ پی سی بی ہی کنفیوژ تھا، مجھے بھارتی اخبار کو دیے گئے چیئرمین کے انٹرویو پر زیادہ یقین تھا کیونکہ مذکورہ صحافی سے احسان مانی اکثر بات چیت کرتے رہتے ہیں،بعد میں بورڈ کو یہ بھی یاد آ گیا کہ ایونٹ کی میزبانی تو سری لنکا سے تبدیل کر لی تھی،اگلے دن ایشین کرکٹ کونسل نے بھی رسمی اعلامیہ جاری کر دیا، پی سی بی دوہرے نقصان میں رہا ، ایک تو میزبانی ہاتھ سے گئی، دوسرا جلد بازی میں اگلا ایونٹ بھی سری لنکا کو دے دیا یوں اب 2022 تک انتظار کرنا پڑے گا۔

بورڈکی نااہلی اس پورے معاملے سے ثابت ہوتی ہے،  عالمی وباکے دنوں میں انگلینڈ کے سوا کہیں کرکٹ نہیں ہو رہی، بھارتی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی یہ بھی سب جانتے تھے پھر بھی اعلان کیے جاتے رہے کہ ایشیا کپ ضرور ہوگا، جب اندازہ ہو گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے اس کے باوجود جانتے بوجھتے ہوئے میزبانی سری لنکا کو سونپ دی، اسے بھارت نے آئی پی ایل کی میزبانی کے خواب دکھا کرآسانی سے التوا کے جواز دینے پر مجبور کر دیا، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عالمی کرکٹ میں اب ہماری پوزیشن بہت کمزور ہے۔

بھارت نے دولت کے بل بوتے پر اثر ورسوخ قائم کیا مگر اس میں ہماری کوتاہیاں بھی شامل ہیں، اب تو بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغان بورڈ بھی پی سی بی کو اہمیت نہیں دیتے، میڈیا پر احسان مانی کے چیئرمین آئی سی سی بننے کی خبریں چلوائی گئیں لیکن وہ الیکشن میں حصہ لے بھی لیتے تو شاید ووٹس نہ ملتے، دیگر بورڈز کی بات کیا کریں پی سی بی کے تو اپنے اسپانسرز، سابق کرکٹرز، میڈیا، آرگنائزرز اور پی ایس ایل فرنچائزز و دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز تک سے تعلقات مثالی نہیں،ایک طرف یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان آئی سی سی کے ایونٹس کی میزبانی کا امیدوار ہے دوسری جانب ایشیا کپ کی بات بھی2022 تک چلی گئی۔

پہلے آپ کو خود مضبوط ہونا پڑے گا، یہ بات یقینی ہے کہ بھارتی ٹیم آئندہ کئی برس تک پاکستان نہیں آئے گی،آپ کو یو اے ای یا کوئی دوسرا نیوٹرل وینیو ہی دیکھنا پڑے گا، اس صورت میں ایشیا کپ آئندہ برس ہو سکتا تھا، مگر پی سی بی نے خود موقع گنوا دیا،پاکستان میں تربیتی کیمپ کیلیے تو بائیوسیکیور ماحول تشکیل نہیں دیا جا سکا،کسی سیریز یا ایونٹ کیلیے کیسے ممکن ہوگا؟ کورونا جلد جاتا دکھائی نہیں دیتا، اس سال تو ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی امکان موجود نہیں،پی ایس ایل 5کو 30میچز پر ہی ختم کرنا پڑے گا۔

آسٹریلیا میں ورلڈکپ بھی نہیں ہوگا، یوں پی سی بی کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں بھاری تنخواہوں پر آفیشلز کی موجودگی کے باوجود ہر سال ایک  کمپنی کوتمام حقوق سونپ دیے جاتے ہیں جو انھیں آگے فروخت کرتی ہے،قومی ٹیم کی اسپانسر شپ کا تین سالہ سابقہ معاہدہ مجموعی طور پر ایک ارب80 کروڑ روپے کا تھا، اس بار20کروڑ سے بھی کم میں ڈیل ہوئی، اب بورڈ خزانے بھرنے کیلیے پی ایس ایل فرنچائززکی جانب ہی دیکھے گا، ان سے چھٹے ایڈیشن کی بینک گارنٹی یا چیک طلب کیے جائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں پانچویں ایڈیشن  کی آمدنی سے کچھ نہیں ملا ہے، جب یہ بات ہوتو ایونٹ نامکمل رہنے کا یاد دلایا جاتا ہے، مگر فیس کے معاملے میں ایسا نہیں ہوگا، یوں ایک اور تنازع سامنے آنے والا ہے،بورڈ کو سوچنا چاہیے کہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح نہیں کرتے بلکہ آہستہ آہستہ فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔  اب کچھ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں بات کرلیتے ہیں، انگلینڈ سے سیریز کی تیاریاں اچھے انداز سے جاری ہیں، البتہ مصباح الحق اور وقار یونس کے ’’مثالی فٹنس‘‘ والے دعوے کو عماد وسیم اور یاسر شاہ کی تصاویر دیکھ کر ٹھیس پہنچی ہے، دونوں کبھی سپرفٹ نہیں رہے مگر شاید لاک ڈاؤن میں زیادہ ہی ریلکس ہو گئے تھے، امید ہے  انگلینڈ میں دیسی کھانوں سے دور رہ کر کھلاڑیوں کا وزن نارمل ہو جائے گا۔

وقار یونس کی جہاں بات چلی وہاں یہ یاد آیا کہ آج کل  وہ بھارتی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں، کبھی دھونی تو کبھی کسی اور ایشو پر اکثر ان کے بیانات نظر آتے ہیں، میری نظر سے کبھی پاکستانی ٹیم کی تعریفوں پر مبنی کسی بھارتی کوچ کا بیان نہیں گذرا، جب کھلاڑیوں پر کوڈ آف کنڈکٹ لاگو ہوتا ہے تو آفیشلز پر بھی ہونا چاہیے۔

یہاں کوئی یوٹیوب چینل پر دھڑا دھڑویڈیوز چلا رہا ہے، کسی نے خود انٹرویوز کا شو شروع کیا ہوا ہے، جب پی سی بی بھاری بھرکم تنخواہیں دے رہا ہے تو پھر اس سائیڈ بزنس کی کیا ضرورت، ہاں جب بورڈ سے فارغ ہو جائیں تو پھر ایسے کام کریں، فی الحال توبورڈ کا زور صرف نوجوان کھلاڑیوں پر ہی چلتا ہے جنھیں سینٹرل کنٹریکٹ کی شقیں یاد دلا کر ڈرا دیا جاتا ہے، حفیظ جیسے کرکٹرز تو قابو میں ہی نہیں آتے، حال ہی میں چند کرکٹرز کے میں نے انٹرویوز کیے۔

ان بیچاروں کو ایسی بریفنگ دی گئی تھی کہ صحافی کوانٹرویو دینے نہیں بلکہ میدان جنگ میں جا رہے ہیں،وہ ایک لائن کا جواب دے کر چپ ہو جاتے یا پھر سوال گندم جواب چنا جیسا معاملہ ہوتا،  پی سی بی کرکٹرز اور اپنے اعلیٰ حکام کو سمجھائے کہ پاکستانی میڈیا آپ کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے، عہدے سے علیحدگی یا ریٹائرمنٹ کے بعد ادھر ہی آنا ہے،خیر اس وقت بورڈ میں ماحول ہی ایسا بنا ہوا ہے کہ سب ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں، ارے ہاں جاتے جاتے ایک بات یاد آئی یہ وسیم خان آج کل کہاں ہیں، کئی دن سے کوئی انٹرویو نہیں دیکھا، ایشیا کپ پر بھی کوئی بات نہیں کی، کہیں نظر آئیں تو بتائیے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کرسکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔