شاہی قلعہ لاہور کے شاہ برج گیٹ کی آرائش و تزئین مکمل

آصف محمود  پير 13 جولائی 2020
شاہ برج گیٹ کے اندر بنے کمروں کوبھی صاف کیا گیا ہے فوٹو: فائل

شاہ برج گیٹ کے اندر بنے کمروں کوبھی صاف کیا گیا ہے فوٹو: فائل

 لاہور: والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نے آغاخان ٹرسٹ کی معاونت سے حال ہی میں شاہی قلعہ کے شاہ برج گیٹ کی آرائش وتزئین مکمل کی ہے تاہم پرانے شہر لاہورکے 12 دروازوں میں سے آج 6 باقی ہے اوران میں سے بھی صرف ایک دروازہ اپنی اصلی حالت میں ہے۔ پرانے شہر کی پہچان یہ دروازے رفتہ رفتہ اپنی شناخت اورخوبصورتی ختم کرتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی اس قدیم ورثے کو بچانے اوراس کی بحالی کے لئے بھی کوشاں ہے۔

فصیل بند شہر لاہور کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں شہر کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے شہر کے اطراف میں 30 فٹ اونچی فصیل بنائی گئی تھی جبکہ شہرمیں داخل ہونے کے لیے مختلف مقامات پر 12 دروازے اور ایک موری بنائی گئی۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں اس دیوار کی اونچائی 30 فٹ سے کم کرکے 15 فٹ کردی گئی جبکہ فصیل کے ساتھ ایک خندق بھی بنائی گئی تاہم برطانوی دور میں ناصرف شہرکے گرد بنی دیوارکا بڑا حصہ ختم کردیا گیا بلکہ کئی دروازے بھی ختم ہوگئے جن میں یکی گیٹ، اکبری گیٹ، موچی دروازہ،مستی گیٹ، ٹکسالی دروازہ شامل ہیں، کچھ دروازے ایسے ہیں جن کی برطانوی دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی جن میں دہلی اور لوہاری گیٹ شامل ہیں۔

آثارقدیمہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ لاہورکے گرد فصیل کا پہلا حوالہ ہمیں سلطان محمود غزنوی کے دور میں ملتا ہے ،ان کی فوج دیوار کا کچھ حصہ توڑ کر لاہور شہر میں داخل ہوئی تھی، اس کے بعد مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں ا س دیوار کی دوبارہ تعمیر ہوئی اور انہوں نے 30 فٹ اونچی دیواربنائی ، شہرکے گرد بارہ دروازے بنائے گئے جبکہ شہر کا کوڑا کرکٹ اورکچرا باہر پھینکنے کے لئے ایک موری بنائی گئی جسے موری گیٹ کہا جاتا ہے۔

افضل خان کہتے ہیں راجہ رنجیت سنگھ کے دور تک دیوارکی حالت کافی بہتر تھی تاہم اس نے دیوارکی اونچائی 30 فٹ سے کم کرکے 15 فٹ کردی تھی اوراس کے ساتھ ایک خندق بھی بنائی تھی۔ یہ خندق اورشاہی قلعہ لاہورکی دفاعی حیثیت برطانوی دور میں ختم کردی گئی ۔ افضل خان کے مطابق جب وہ محکمہ میں ڈپٹی ڈائریکٹرتھے ، تقریبا تین سال قبل اس وقت تین دروازوں کی آرائش وتزئین اوربحالی کی گئی تھی جن میں شیرانوالہ گیٹ، لوہاری اور کشمیری گیٹ شامل ہیں۔ قدیم دروازوں میں سے صرف روزشنائی دروازہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے ، جو بادشاہی مسجد کے شمال کی جانب اورمہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی کے جنوب کی طرف ہے۔

والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی کی ترجمان تانیہ قریشی کا کہنا ہے اتھارٹی نے تین دروازے جن میں لوہاری گیٹ ،دہلی گیٹ اور بھاٹی گیٹ شامل ہیں یہاں کنزرویشن اورآرائش وتزئین کروائی ہے، دہلی گیٹ اور لوہاری گیٹ کے جو کمرے تھے ان کو بحال کرکے یہاں سیاحتی معلوماتی دفاتر بنائے گئے ہیں اور سارنگی میوزک اسکول بنایا گیا ہے۔ والڈسٹی اتھارٹی نے آغاخان کلچرل ٹرسٹ کی معاونت سے شاہی قلعہ کے شاہ برج گیٹ کو بحال کیا ہے، یہ منصوبہ پکچروال بحالی کا حصہ تھا جو 2019 میں شروع ہوا اوراب مکمل کرلیا گیا ہے ، یہ شاہی قلعہ میں داخلے کا راستہ بھی ہے ۔ شاہ برج گیٹ کے اندرجو کمرے بنے ہوئے تھے ان کو بھی صاف کیا گیا ہے ،یہاں کوڑاکرکٹ کا ڈھیرتھا جس کو ختم کیا گیا ، اب ان کمروں میں سیاحتی معلوماتی سنٹربنائے جائیں گے۔ والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی نے دہلی گیٹ سے شاہی قلعہ کی جانب جانیوالی شاہی گزرگاہ کی بحالی کا پہلامرحلہ بھی مکمل کرلیا ہے جس میں شاہی حمام کی بحالی بھی شامل تھی۔

ماہرین کے مطابق شہرکے گردبنائی گئی 30 فٹ اونچی فصیل کو وقت کے ساتھ کافی نقصان پہنچا، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کی اونچائی کم کردی بعد میں یہ دیوار مختلف مقامات سے منہدم ہوتی گئی اور لوگوں نے یہاں تعمیرات کرلیں، پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کے نام بنائے گئے اسپتال کا کافی حصہ بھی دیوار کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔