چراغ سب کے بجھیں گے

شاہد کاظمی  بدھ 15 جولائی 2020
جن ملازمین کو آپ چھ چھ ما ہ تنخواہ نہیں دیتے وہی آپ کےلیے آواز اٹھاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جن ملازمین کو آپ چھ چھ ما ہ تنخواہ نہیں دیتے وہی آپ کےلیے آواز اٹھاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا جس میں ایک نجی چینل کو بند کرنے کا پیمرا کا حکم نامہ معطل کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے فوری طور پر صحافیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

مسائل کیسے پیدا ہوئے؟ اگر وہ اپنے لائسنس کی خلاف ورزی کر رہا تھا تو اتنے عرصے ٹی وی اسکرین پر جگمگاتا کیوں رہا؟ اگر واقعی خلاف ورزی کر رہا تھا تو اس کو اتنی چھوٹ اب تک کیوں دیے رکھی؟ اور اگر چینل کی سرزنش بھی کی جاتی رہی اور اس حوالے سے چینل بدستور خلاف ورزی کرتا رہا تو پھر ہاتھ کیوں ہولا رکھا گیا؟ جب کہ اسی حوالے سے دیگر مقامات پر سختی واضح دیکھی جاسکتی ہے۔ اتنے عرصے کیوں اس چینل کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا اور اب جب کہ چینل سے مزدور صحافیوں کا روزگار وابستہ ہوچکا ہے (مالکان کا نہیں صحافیوں کا) تو پھر کیا وجہ ہے موجودہ وقت کے انتخاب کی؟ اس کی نشریات روکنے کی؟ اس جیسے دیگر کئی سوالات ہیں جنہوں نے اس پورے قضیے میں جنم لیا اور پیمرا جیسے اہم ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا۔

اپنی کارکردگی دکھانے کےلیے آزاد ادارے نے اگر زیر بار ہوکر فیصلہ کیا تو، کس نے زیر بار کیا، اس پر نہ کوئی بحث ہوگی نہ ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ کچھ معاملات ہمارے ہاں نو گو ایریا جیسے بنادیے گئے ہیں۔ یا پھر مقدس گائے کہ جن پر مباحثہ کرنا جرم تصور ہونے لگا ہے۔

چینل پر پابندی لگتے ہی مختلف اختلافی امور زیر گردش رہے۔ کوئی چینل کو سچائی کا استعارہ بنا بیٹھا تو کسی نے اس پابندی پر دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ جشن منایا۔ اس بات سے قطع نظر کہ چینل حق کا ساتھ دے رہا ہے یا حق کے لبادے میں باطل کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ ہم اسے بطور مجموعی اگر میڈیا کی تنزلی کے حوالے سے دیکھیں تو نقصان صرف صحافی اور صحافت کا ہورہا ہے۔ عدالتی فیصلہ یقینی طور پر حقائق کی بنیاد پر آیا ہوگا، اس پر بحث نہیں۔ لیکن چینل کے کرتا دھرتا افراد کے زیر گردش واٹس ایپ پیغامات، نیوز اینکر کا آخری بلیٹن پڑھتے ہوئے آنسوؤں کا اختتامیہ دینا، اور پھر اس چینل سے وابستہ افراد کا پیمرا آفس بلڈنگ کے باہر احتجاج اور گارڈز کا اسے غلط طریقے سے ہینڈل کرنا، اس معاملے کو پس منظر سے سب کے سامنے لے آیا۔ یاد رہے، ڈنڈے، آنسو گیس، گولی کا سامنا ہمیشہ مزدور صحافی ہی کرتا ہے، مالکان کے اے سی روم کی ٹھنڈک ختم نہیں ہوتی۔

مزدور صحافی ہم اسے کہہ سکتے ہیں جس کا صحافت اوڑھنا بچھونا ہے اور وہ مزید کچھ نہیں جانتا۔ یوں کہیے کہ ان 965 افراد کا تعلق ہوسکتا ہے چینل کے ساتھ کسی قدر اچھا ہو، اسی لیے انہوں نے نہ صرف احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ عدالت سے فیصلہ بھی ان کے حق میں آگیا جس پر وہ خوش بھی ہیں۔ میڈیا کی تنزلی جس طرح الیکٹرانک میڈیا میں دیکھی گئی ہے ویسی ہی کچھ عرصہ قبل اخبارات کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آئی۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں جب سے صحافیوں کا عمل دخل کم ہوا ہے اور سیٹھ ازم حاوی ہوا ہے، وہیں سے اس کی تنزلی کا دور بھی شروع ہوا۔

میڈیا کی اپنی صفوں میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو چھاتہ بردار صحافی ہیں۔ پہلے ہم رپورٹنگ کی حد تک کہتے تھے کہ پیسے دے کر کارڈ بنوا لیتے ہیں۔ لیکن اب آپ اعلیٰ عہدوں تک دیکھیے تو ایسے افراد کی بہتات ہے جو مشہور صحافی بن چکے ہیں لیکن وہ اس سے پہلے یا تو اداکار تھے یا پھر پراپرٹی ڈیلر، یا وہ ’کہیں‘ سے ریٹائر ہوئے ہیں یا پھر ان کا ماما چاچا کسی چینل میں اچھی کرسی پر براجمان تھا۔ اور وہ اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے چینل یا اخبار میں آ دھمکے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اخبارات و ٹی وی چینلز سیاسی جماعتوں کے نعرہ باز بننے لگے۔ ایک ایک پارٹی سب نے پکڑی اور چل سو چل۔ یہ بھیڑ چال میڈیا کو چاروں شانے چت کرچکی ہے۔ غیر جانبداری کو صحافت سے جیسے دیس نکالا دے دیا گیا ہو، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ اور اب تو ڈیجیٹل میڈیا کے گھوڑے بھی اپنا اپنا کھونٹا سنبھال چکے ہیں۔ اور کھونٹے سے وفا کر رہے ہیں۔

لیکن کراس میڈیا اونر شپ (Cross Media Ownership) کے تحت وجود میں آنے والے ٹی وی چینلز کی اکثریت اس حقیقت سے انکاری ہے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو باری سب کی آئے گی۔ چند میڈیا گروپس کے علاوہ زیادہ تر اخبارات و چینل کا پیٹ بھرنے والے صحافی چھ چھ ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ چینل یا اخبار توقع کرتا ہے کہ وہ ان کےلیے سڑکوں پر احتجاج بھی کریں۔ میڈیا کی تنزلی کا خالصتاً نقصان اس صحافی کو ہے جو سوائے صحافت کے کچھ نہیں جانتا۔ اس کی انگلیاں یا تو لکھنا جانتی ہیں یا پھر کیمرے کا کلک دبانا۔ چھاتہ بردار تو آج یہاں کل وہاں۔ ان کا یہ کاروبار نہ چلا تو کوئی اور کاروبار سہی۔ اور کچھ نہ بچا تو گھروں میں پورے کے پورے اسٹوڈیو بنا لیے اور یوٹیوب زندہ باد۔ لیکن ایک صحافی پوری زندگی صحافت کرتا ہے، نتیجتاً گزر بسر ہی مشکل سے ہوتی ہے۔ منافع خور تو کوئی اور ہیں جو منافع لیتے ہیں اور یہ جا وہ جا۔ ایک چینل پر قدغن لگتی ہے تو دوسرے چینل کی اسکرین پر ڈھول تاشے خوشی میں نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

ڈھول تاشوں والا زیر عتاب آیا تو پہلے والے کی بانچھیں خوشی سے کھل جاتی ہیں۔ یہاں تو چینلز ایک دوسرے کے خلاف پوری کیمپین تک چلا دیتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اتنا ادراک نہیں رکھتے کہ آج اگر ایک کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے تو کل کو باری دوسرے کی بھی آئے گی۔ مفاد پرست تو ان کو لڑانے کےلیے کچھ سال آتے اور پھر نظر نہیں آتے۔ لیکن اس میں میڈیا اپنا اتنا نقصان کرلیتا ہے کہ ناقابل بیاں۔

معزز عدالت سے چینل کی بحالی صرف چینل کی بحالی نہیں بلکہ 965 خاندانوں کی امیدوں کے دیے کی پھڑپھڑاتی لو کی بحالی ہے۔ جو دیا بجھنے کو تھا وہ پھر سے تیز روشنی سے جلنے لگا ہے۔ لیکن اس میں غیرت کا کچھ پیغام چینل، اخبار، میڈیا گروپس مالکان کےلیے بھی ہے کہ جن ملازمین کو آپ چھ چھ ماہ تنخواہ نہیں دیتے وہی آپ کےلیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہی آپ کےلیے سڑکوں پر لاٹھی چارج سہتے ہیں۔ وہی گولیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان صحافیوں کو، جن کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں صرف صحافت میں ہیں، انہیں گدھوں کی طرح ہانکنے کے بجائے انسان سمجھیے۔ ان کی ضروریات بھی آپ کی طرح ہیں۔ ان کے بھی خاندان ہیں جو ان پر انحصار کرتے ہیں۔ بچوں کی چمکتی آنکھیں ہیں جو صحافی والدین سے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے پورے ہونے کی توقع کرتے ہیں۔ چینل مالکان کے نزدیک تو شاید صحافی لوہے کا مجسمہ ہے جو جذبات سے عاری ہو یا جس کا خاندان نہ ہو۔

آپ کا فرض ہے کہ سوچیے حقیقی صحافی کیوں ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگیوں سے جارہے ہیں۔ اگر آپ انہیں انسان سمجھنے کو تیار نہیں تو جائیے اپنا یوٹیوب چینل کھول لیجیے یا کوئی اور منافع بخش کاروبار کرلیجیے۔ کیوں چینل یا اخبار کھول کر ناحق امیدوں کا خون کررہے ہیں۔ بقول فراز

سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہِ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں

میں آج زد پر اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔