نسل پرست ’وائرس‘ بھی سر گرم

ابنِ صابر  منگل 14 جولائی 2020
مہلک وبا میں بھی دنیا کے متعصب عناصر نفرتوں کے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔ فوٹو : فائل

مہلک وبا میں بھی دنیا کے متعصب عناصر نفرتوں کے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔ فوٹو : فائل

کرہ ارض اس وقت اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے آزمائشی سے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف بے رحم ’کورونا‘ وائرس انسانوں کو کسی رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے نشانہ بنا رہا ہے، تو دوسری جانب طاقت کے گھمنڈ اور اجلی رنگت کے زعم میں عصبیت چلتے پھرتے انساں نما وائرس اپنے زہر اور نفرت سے صرف نسل، زبان، رنگت اور قومیت کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کا خون کر رہے ہیں۔ دونوں کا طریقہ کار ایک سا ہی تو ہے۔

’کورونا‘ انسان پر پہلا وار گلے پر کرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں کو تباہ کر کے ایک ایک سانس کے لیے انسان کو تڑپانے لگتا ہے، یہاں تک کے سانس کی آس میں وہ انسان موت کی ابدی نیند سو جاتا ہے۔

گذشتہ دنوں امریکا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی درد ناک موت نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، 46 سالہ جارج فلائیڈ  اپنی رنگت کی وجہ سے منہ کے اجلے اور مَن کے کالوں کی سیاہ کاری کا شکار ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے پر اترانے والا انسان ابھی تک دور جہالت سے باہر نہیں آیا، یہ 21 ویں صدی نہیں ہے بلکہ شاید ابھی پتھر کے زمانے کا دور جاری ہے۔

سفید فام پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کو زمین پر لٹایا، ہاتھ پشت پر باندھے اور غیر مسلح ’’ملزم‘‘ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا اور اسے پوری طاقت سے دباتا رہا، یہاں تک کہ جارج فلائیڈ کی سانس کی نالی بھینچنے لگی اور وہ نیم مردہ آواز میں پکارتا رہا ’میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔ میرا سانس اکھڑ رہا ہے۔۔۔!‘ لیکن اس کی آہ وبکا پولیس افسر کے آگے بے سود گئی۔ جارج زندگی کی الجھنوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگیا اور پولیس افسر گرفتار۔

جارج فلائیڈ کی بے رحمانہ موت پر امریکا میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے، جسے صدر تڑمپ کے غیر محتاط بیان اور غیر ذمہ دارانہ بیان نے پرتشدد بنا دیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ سب شاید دانستہ کیا ہو، کیوں کہ آج کل ان کے مطمع نظر رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں جس میں وہ سفید فاموں اور کٹر امریکیوں کے ووٹرز کی ہمدردی حاصل کر کے ایک بار پھر دنیا کے سب سے طاقت وَر ملک کا سربراہ بننا چاہتے ہیں۔

جارج فلائیڈ کے گردن پر گھٹنا رکھ کر ان کا دم گھونٹنے والے پولیس افسر کی نظیر امریکی پولیس کے علاوہ اگر کہیں اور ملتی ہے تو وہ ہے آج کا ہلاکت خیز ’کورونا۔‘ یہ وائرس بھی اپنے شکار کے گلے اور پھر پھیپھڑے پر حملہ آور ہو کر نظام تنفس کو ناکارہ بنا دیتا ہے اور پھر مریض کے سانس لینے میں دشواریاں بڑھنے لگتی ہیں اور انتہائی صورت میں مریض سانس بالکل ہی نہیں لے پاتا۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور بعض صورتوں میں مریض کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

کورونا وائرس امریکی پولیس کی طرح سفاک تو ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم نسل پرست ہرگز نہیں۔ ’کورونا‘ کا شکار احتیاط نہ برتنے والے ہوتے ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل یا قومیت سے ہو۔ گو کہ عظیم جمہوریت برطانیہ نے ’کورونا‘ کا اصل ٹارگٹ جنوبی ایشیائی باشندوں کو بتایا، لیکن بعد میں آنے والے اعداد وشمار سے اس ’متعصب‘ اور ’نسل پرستانہ‘ سوچ کی نفی ہوگئی۔ برطانوی شاہی خاندان کی متوازن، خوش حال اور رکھ رکھاؤ سے بھرپور زندگی بھی انہیں کورونا وائرس سے نہ بچا سکی تھی۔

بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار ویسے ہی مسلمانوں کے خلاف کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ’کورونا‘ وبا کے دوران بھی حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آئی اور بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم پھر بے نقاب ہوا۔ ہوا یوں کہ جس وقت بھارت میں فوری لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اس دوران تبلیغی جماعت کا اجتماع جاری تھا۔ لاک ڈاؤن میں ذرایع نقل و حمل کو اچانک بند کرنے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اپنے شہروں کو واپس جاتے ہوئے بدترین مشکلات کا شکار ہوئی اور بہت سی اپنی منزلوں کو نہ پہنچ سکی، جنہیں نظام الدین کے مرکز میں ٹھیرایا گیا۔ ان میں سے کچھ افراد کا ’کورونا‘ ٹیسٹ مثبت آگیا۔

یوں ناقص کارکردگی سے ملک کی معیشت کا بھٹا بٹھانے والی مودی سرکار کو مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع ہاتھ لگ گیا اور ہر جگہ یہ بات پھیلا دی گئی کہ تبلیغی اجتماع میں کچھ غیر ملکی بھی شریک تھے اور انہی سے اجتماع کے حاضرین میں کورونا وائرس منتقل ہوا۔ اس پروپیگنڈے سے مسلمانوں کے لیے نفرت میں اضافہ ہوا اور شدت پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ مسلمانوں کو جان کا خطرہ کورونا سے نہیں، بلکہ متعصب حکومت اور انتہا پسند ہندوؤں سے ہونے لگا۔ یہاں بھی تعصب اور نفرت کا وائرس کورونا وائرس سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت اور بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث معصوم اور نہتے کشمیریوں کی زندگی دُہرے عذاب میں مبتلا ہوگئی  ہے۔ ایک طرف کئی علاقوں میں تاحال کرفیو نافذ ہے، تو دوسری جانب آئے دن نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ پوری وادی کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ’کورونا‘ کے دوران بھی انسانی حقوق معطل ہیں۔ علاج معالجے کے لیے بھی لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد ہے۔ کورونا کے مریض علاج کی سہولتیں اور دوائیاں نہ ملنے پر گھروں میں ہی سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کی ایسی  مثال مقبوضہ فلسطین کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔

اسرائیل یوں تو کورونا کے خلاف ’ویکسین‘ کی تیاری میں مصروف ہے اور دنیا کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے طب کی دنیا میں نت نئے دعوے بھی کرتا رہتا ہے، لیکن  فلسطین میں اسرائیل کے عزائم میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ الٹا وزیراعظم نیتن یاہو نے مزید یہودی آبادکاروں کو بسانا شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہی فلسطینیوں پر زمین تنگ تھی، لیکن اب بالخصوص غزہ میں سخت سیکیورٹی کے باعث کورونا کے مریضوں کو بھی سخت سیکیورٹی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صحت اور علاج معالجہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے، لیکن کشمیریوں کی طرح فسلطینی بھی اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ کورونا نے جہاں دیگر عالمی راہ نماؤں کو بے نقاب کیا ہے، وہیں جارحیت پسند اسرائیل کی پول بھی کھول دی ہے۔

میانمار میں برمی فوج نے تین سال قبل روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی  میں ہلاکو خان کی بربریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ریاست کی سرپرستی اور فوج کی پشت پناہی کے ساتھ انتہا پسند بدھ متوں نے مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ نوجوانوں کا بے دردی سے قتل عام ہوا، جس پر سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلادیش ہجرت کرگئے اور پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

’کورونا‘ کے بعد بھارت کی طرح میانمار میں بھی روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں کمی کے بہ جائے اضافہ ہوگیا ہے، وہاں مسلمانوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پہلے ہی پابندی ہے اور روہنگیا اقلیت کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ روہنگیا سے تعلق رکھنے والے ’کورونا‘ کے مریضوں کو اسپتالوں میں بھی داخل نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر ان کی جان بودھ مت کے انتہا پسند اور جابر فوج سے بچ بھی جائے، تو بے چارے اس ہلاکت خیز کورونا سے خود کو کیسے بچائیں۔

برمی فوج کے مظالم سے بچ کر بنگلادیش کے کیمپوں میں پناہ لینے والے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو لاک ڈاؤن کے دوران بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔ بارشوں کے بعد پھوٹنے والی متعدی بیماریوں کے بعد اب ’کورونا‘ کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ بھلا پناہ گزین کیمپوں میں بھی کوئی سماجی دوری برقرار رکھ سکتا ہے؟ اب جنہیں فاقوں کا سامنا ہو وہ ’ایس اوپیز‘ کی عیاشی کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ جسم ننگے ہوں، تو منہ ڈھانپنے کو ماسک کہاں سے میسر آئے گا۔۔۔!

کچھ پناہ گزینوں نے جیسے تیسے دوسرے ممالک جانے کی کوشش بھی کی تو بیچ سمندر میں پھنس گئے۔ ’کورونا‘ کے باعث جہازوں کی آمد رفت کم تھی اس لیے کوئی مدد کو نہیں آسکا اور کشتی دو ماہ تک منجدھار میں رہی۔ جو مرتا جاتا زندہ بچ جانے والے اس کی لاش سمندر بُرد کر دیتے۔ ایسے دو واقعات میں 200 سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

شام، یمن اور عراق میں کورونا وبا کے ابتدائی دور میں تو جھڑپوں کا سلسلہ تھم گیا تھا، لیکن گزشتہ ماہ سے ایک بار پھر پر تشدد اور جان لیوا کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جان لیوا تو کورونا وائرس بھی ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ان ممالک کے بڑے شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں، اسپتالوں تک کو فضائی بم باری میں تباہ کر کے اپنی موت آپ کا سامان کیا گیا۔ ٹوٹے پھوٹے اسپتال، کمزور نظام صحت اور حالت جنگ کے باعث ’کورونا‘ سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں۔

جنگ زدہ ممالک اور علاقوں میں کورونا ٹیسٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے، جو کہ خطرناک ہے۔ جنگ زدہ ممالک اور پناہ گزین کیمپوں میں صحت کی سہولتوں بالخصوص کورونا سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، غیر سرکاری تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جنگ بندی کے لیے عالمی طاقتوں پر دباؤ ڈالیں۔ جنگ بندی ہو جاتی ہے اور مسائل و اختلافات کا حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے، تو پناہ گزین کیمپوں میں موجود لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ انفرا اسٹریکچر بحال ہوگا اور اسپتال دوبارہ سے تعمیر ہوں گے۔

گزشتہ برس عیسائیوں کے مذہبی تہوار ’ایسٹر‘ کے موقع پر سری لنکا کے تین گرجا گھروں اور تیں ہوٹلوں پر خودکُش حملے کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 35 غیرملکیوں سمیت 300 سے زائد عیسائی ہلاک ہو گئے تھے۔ خودکُش حملہ آوروں کا تعلق قومی توحید جماعت سے تھا۔ اس واقعے کے بعد سے سری لنکا میں مسلمانوں کے جان و مال اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، تاہم اب ’کورونا‘ کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ’کورونا‘ سے زندگی کی بازی ہارنے والے مسلمان مریضوں کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کے بہ جائے انتظامیہ انہیں نذر آتش کر رہی ہے۔ گو سری لنکا کی حکومت نے کورونا میتیوں کو دفنانے کے بہ جائے جلانے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد صرف مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

’کورونا‘ کے ساتھ انسانیت کو نسل پرستی، تعصب، جنونیت اور قومی تفاخر جیسی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ ’کورونا‘ کی وبا تو گزشتہ برس آئی اور امید ہے کہ جلد ہی اس کا علاج بھی دریافت ہو جائے گا، لیکن جن عالمی اخلاقی بیماریوں کا بار بار ذکر کیا جا رہا ہے اس کوئی علاج چارہ گر ہے کہ نہیں۔۔۔

ایک طرف تو مندرجہ بالا صورت حال ہے، تو دوسری جانب سائنس دان کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں جتے ہوئے ہیں۔ تحقیق اور دوا کی تیاری کے بعد اب انسانوں پر ٹرائل جاری ہیں۔ آج نہیں تو کل ’ویکسین‘ کی دست یابی کے بعد اس وبا پر قابو پالیا جائے گا اور پھر سے زندگی رواں دواں ہو جائے گی، تاہم اس کے لیے مزید ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور رواں برس کے آخر میں ہی سائسن دان کوئی خوش خبری سنا دیں۔ اس حوالے سے چین نے اپنی فوج پر ایک ’ویکسین‘ کی ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ’ویکسین‘ چینی فوج نے ایک بائیوٹیک کمپنی کی معاونت سے تیار کی ہے۔

کورونا کی ویکسین تو بن ہی جائے گی، لیکن کیا نسل پرستی، تعصب اور مذہبی جنونیت کے خلاف بھی کوئی ویکسین کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ کورونا فری دنیا سے زیادہ ایک پُر امن دنیا کی ضرورت ہے، جہاں چہرے کی رنگت نہیں دل کے اجلے پن کو دیکھا جائے۔ جہاں بارود کی بْو نہیں، پھولوں کی خوش بو ہو۔ گرج دار طیارے بم باری کرنے کے بہ جائے خوراک تقسیم کرتے ہوں اور جہاں مذہبی جنونیت اور قوم پرستی نہیں احترام انسانیت ہو۔ دنیا کو ’’رواداری کی ویکسین‘‘ کی ضرورت ہے اور یہ ’ویکسین‘ کوئی سائنس دان یا فارمسٹ نہیں، بلکہ میں نے اور آپ نے بنانی ہے۔  یہ ’ویکسین‘ کسی لیبارٹری نہیں، بلکہ ہماری تعلیمی اداروں میں تیار ہوگی۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔