2023 کا پاکستان کیسا ہوگا

ڈاکٹر منصور نورانی  بدھ 15 جولائی 2020
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

ملک کے معاشی حالات جس تیزی کے ساتھ زوال اور انحطاط کی جانب بڑھتے جارہے ہیں،ایسے میں یہ اندازہ لگانا کہ 2023کا پاکستان کیسا ہوگاکوئی مشکل کام نہیں ہے۔ معیشت کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک عام انسان بھی اب یہ کہہ سکتا ہے کہ اگلے تین برس میں اِس ملک کی معاشی حالت کیا ہوگی۔

جو ڈالر 2018 میں 114ء کا تھاآج 168کا ہوچکا ہے ۔ ایک تولہ سونا اُس وقت52000روپے کا تھا آج ایک لاکھ 8ہزار کا ہوچکا ہے۔اِسی طرح عام ضرورت کی اشیاء اُن دنوں کس دام میں ملاکرتی تھیں اورآج اُن کی کیاقیمت ہے۔چینی 53روپے سے 90روپے تک جاپہنچی ہے اورپیٹرول جو ساری دنیامیںکورونا کی وبا کیوجہ سے منفی داموں میں فروخت ہونے لگا تھا ہماری قوم اُس وقت بھی 25روپے ناجائز اداکررہی تھی اور آج بھی حکومت کی کمزوری اور نااہلی کی وجہ سے پیٹرول مافیاکے ہاتھوں بلیک میل ہوکر اصل قیمت سے تقریباً 25روپے زائد بھتہ ادا کرہی ہے۔

حکومت کے معاشی جادوگروں نے ایکسپورٹ بڑھانے کی غرض سے ڈالر کو مہنگا کیا تھا لیکن اُس کے سارے اندازے اوراعدادوشمار غلط ،ناقص اور بے بنیاد ہی نکلے۔نہ ایکسپورٹ بڑھ پائی اورنہ زرمبادلہ کے ذخائر میںکوئی اضافہ ہوا۔دنیا بھر سے امداد اور قرضے لینے کے باوجود فارن ایکسچینج کے ذخائر آج بھی 2018سے کم ہیں۔آس پاس کے تمام پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ہماری کرنسی کی جواوقات باقی رہ گئی ہے وہ ہمیں اُن کے سامنے فخر سے کھڑا ہونے بھی نہیں دے رہی۔ بنگلہ دیش کی کرنسی اورمعیشت ہم سے کہیں زیادہ بہترہے۔ افغانستان کی کرنسی بھی ہمارے روپے سے مضبوط ہے۔

خدا کی قسم اپنے ملک کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہم لاکھ کوشش کرلیں لیکن امکان یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے رہتے ہوئے اگلے تین برسوں میںاپنی معیشت درست نہیں کرسکتے۔ حکومت نے اپنے اِن دوسالوں میں لارے لپے کے علاوہ اوردیاہی کیاہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو،الزام پچھلی حکومتوں کے سر۔ انھیں کون سمجھائے کہ یہی کچھ کرنا تھا تو پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں۔

آپ نے تو الیکشن سے پہلے کیسے کیسے سہانے خواب دکھلائے تھے۔غیرت اورخودی کے کیسے کیسے دعوے کیے تھے ۔ چند ماہ میں حالات بدل دینے کے عہدوپیمان کیے تھے۔کہتے تھے لیڈر اچھا ہو توسب صحیح ہوجاتے ہیں۔کرپشن اوپر والے اگر نہ کریںتونیچے والے بھی نہیں کرسکتے۔ذرا دیکھئے تو آج کیاصورتحال ہے ۔

کرپشن پہلے سے کم ہوئی ہے یا پہلے سے زیادہ نڈر اوربے باک ہوئی ہے۔حکومت کاکوئی ڈر اورخوف باقی نہیں رہا۔ جن بڑے بڑے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے دعوے کیے جاتے تھے، وہ سارے کے سارے آج مزے میں ہیں،آپ اُن کاکچھ بگاڑ نہیں سکے ۔اب تو آپ کے بیانوں میں بھی وہ تمتما، دہشت اور گرمی باقی نہیں رہی۔

2023 تک ہمار اروپیہ اور بھی ڈی ویلیوہوچکا ہوگااورایک ڈالر 200روپے سے بھی تجاوز کرسکتا ہے۔ملک پر واجب الادا قرضے ہمارے اثاثوں سے بھی بڑھ چکے ہونگے ۔ بھارت جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرہم آج بات کرسکتے ہیں، کل کلاں وہ بھی ہمیں امریکا کی طرح آنکھیں دکھارہا ہوگا۔ ہمارا ایک روپیہ اپنی حیثیت کھوتے کھوتے آج اُن کے روپیہ کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رہ گیا ہے۔آنے والے دنوں میں صورتحال مزید گھمبیرہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکمران آج بھی اِس مغالطہ میںکہ وہ جوکچھ بھی کررہے ہیں اچھا ہی کررہے ہیں۔

ہمیں تو دھڑکا لگا ہے کہ اگلے تین سالوں میں اِس ملک کی معیشت کامزید بیڑہ غرق کرکے وہ یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ جھٹک دینگے کہ ہم کیاکریں ہمیں ٹیم ہی اچھی نہیں ملی۔ ایک اکیلی قیادت کیاکرسکتی تھی۔ جس طرح وہ آج یہ کہتے پھررہے ہیں کہ ستر سالوں کا گند دوسالوں میں ٹھیک نہیں ہوسکتا،پانچ برس گذر جانے کے بعد بھی وہ یہی کہتے ہوئے اپنا دامن بچالیںگے کہ ستر سالوں میں جن لوگوں نے اِس ملک کے ساتھ جو کھلواڑکیاگیا قوم ہم سے یہ کیسے توقع کرسکتی ہے کہ ہم اُسے پانچ سالوں میں درست کردینگے۔پھر آنے والا نیا حکمراں بھی کہہ رہا ہوگاکہ خان حکومت نے ملک کی معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا۔

ذرا سوچیں! ہم اِن دوسالوں میں آگے بڑھے ہیں یازوال و انحطاط پذیری کی جانب دھکیلے گئے ہیں۔ ترقی وخوشحالی کی کوئی آس واُمید باقی نہیں رہی ۔ ابتدا میں اِس حکومت نے جو مرغی انڈوں اور بھینسوں اورکٹوں کے جو عظیم الشان پروجیکٹ لگائے تھے وہ بھی اپنا نام نشان کھوبیٹھے ہیں۔ شیلٹر ہومزاورلنگر خانوں کا وجود بھی باقی نہیں رہا۔لے دے کے ایک پشاور میٹر و کامنصوبہ جو گزشتہ پانچ سالوں سے تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے۔ سابقہ حکومت نے بجلی کے جس بحرا ن کاخاتمہ کیا تھارفتہ رفتہ و ہ ایک بار پھر سر اُٹھانے لگا ہے۔

ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ بڑھتی جارہی ہے۔جو کام پچھلی حکومت کرگئی یہ اُسے بھی قائم ودائم نہ رکھ سکے۔ توانائی اوربجلی کے نئے پروجیکٹس توکیالگیں گے پچھلوں کوہی جاری رکھ پائیں تو نوازش ہوگی۔کے الیکٹرک کو من مانی سے روکنے کی بجائے قوم کودلاسے دیے جارہے ہیں کہ اگلے دوسالوں میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔قوم اِن کی معصومیت پرقربان جائے کہ وہ اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ لوگ اِن کی اِن باتوں پریقین کرلیں گے،جو حکومت ملک وقوم کاایک مسئلہ بھی حل نہیں کرپائی ہے بلکہ مزید مسائل کی بموجب بنی ہے وہ اگلے دوتین سالوں میں یہ سب کچھ کیسے ممکن کرپائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔