بیسویں صدی کا ایک ہیرواور ظالم تاریخ (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 15 جولائی 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

چرچل کے مداح اور حامی ان تلخ حقائق کو جھٹلانے کی جرات نہیں رکھتے، جوان کے نسل پرست رویوں اور خیالات کے حوالے سے آج سامنے لائے جارہے ہیں۔ یہ صورت پیدا نہ ہوتی اگر امریکا میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات رونما نہ ہورہے ہوتے۔ سیاہ فام اور رنگدار اقوام 21 ویں صدی میں سفید فام قوموں سے کم از کم یہ توقع ضرور رکھتی تھیں کہ نسلی امتیاز کے حوالے سے ان پر 20 ویں صدی تک جو ظلم ڈھایا جاچکا ہے،نئی صدی میں اس کا اعادہ نہیں ہوگا۔

دکھ کی بات ہے کہ نسلی امتیاز کا شکار ہونے والی اقوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ جارج فلوئڈ کے قتل کے خلاف امریکا اور یورپ میں ہونے والے احتجاج کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اور ماضی کی ان تاریخی شخصیات کے بارے میں تلخ حقائق سامنے لائے جارہے ہیں، جنھیں سب نے ہی فراموش کردیا تھا۔ ونسٹن چرچل بھی ایسی ہی تاریخی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔

چرچل کا پختہ یقین تھا کہ سفید فام لوگ دوسرے رنگدار لوگوں سے برتر ہیں لہٰذا انھیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں پرحکمرانی کریں۔ اسی نظریے کی بنیاد پر چرچل آسٹریلیا، براعظم امریکا، جزائر، غرب الہند اور ہندوستان کے مقامی لوگوں کے حق خود ارادیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ برطانوی استعمار محکوم اقوام اور پس ماندہ لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ یہ ’’وحشی اقوام‘‘ مہذب اقوام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ چرچل کھل کر کہتے تھے کہ مغربی ایشیا کے مسلمان، افغان اور عراقی غیر مہذب قبیلے ہیں،وہ فلسطینیوں کے الگ وطن کے بھی سخت مخالف تھے۔ فلسطینیوں سے ان کی نفرت کا اندازہ ان کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’فلسطینی وحشیوں کا غول ہیں جو اونٹوں کا فضلہ کھاتے ہیں۔‘‘ اپنے فوجی کیرئیر کے زمانے میں وہ سوڈان میں تعینات تھے اور سوڈان کے افریقی باغیوں کو بے رحمی سے کچلنے کے زبردست حامی تھے۔

چرچل کس قدر بے رحم تھے، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ انھوں نے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ تین ’’وحشیوں‘‘ کو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا، وہ اس بات کے بھی حامی تھے کہ غیر مہذب قبائل کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی جانی چاہیے۔ چرچل اپنے ان ساتھیوں کا تمسخر اڑایا کرتے تھے جو رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا کرنے کے خلاف تھے۔

سرونسٹن چرچل جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے کینیا میں ’’ماؤ ماؤ‘‘ شورش کو بڑی بے دردی سے کچلا، تاکہ وہاں آباد سفید فام آباد کاروں کی بالادستی قائم رکھی جائے۔ انھوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو حراستی مراکز میں قید کرکے ان سے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا۔ ان قیدیوں میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دادا بھی شامل تھے۔

ان کے دادا کا نام حسین اونیانگو اوباما تھا۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں ایک برطانوی سپاہی کے طور پر برما کے محاذ پر لڑے تھے۔ جنگ سے واپسی کے بعد انھیں امید تھی کہ ان کے ملک کو آزادی مل جائے گی لیکن انھیں مایوسی ہوئی اور وہ برطانوی سامراجی بالادستی کے خلاف جاری ’’ماؤ ماؤ‘‘ تحریک میں شامل ہوگئے۔ انھیں دیگر ہزاروں لوگوں کی طرح گرفتار کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ، دو سال تک صبح شام کوڑے کھاتے اور دیگر پرتشدد سزاؤں کا سامنا کرتے رہے۔ وہ خوش قسمت تھے کہ زندہ بچ گئے، انھیں آزادی تو مل گئی لیکن وہ اپنی باقی ماندہ زندگی، اس وحشت ناک تجربے کے کرب سے نجات نہ پاسکے۔

ظلم و جبر کی ان کارروائیوں میں کینیا کے گیارہ ہزار بیگناہ سیاہ فام افریقیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا، جن لوگوں کو قید میں رکھا جاتا انھیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے، ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے، انھیں آگ سے جلایا جاتاتھا اور ان کے اعضا کاٹ دیے جاتے تھے۔

چرچل کے دور میں ایک لاکھ سے زیادہ افریقیوں کو برطانوی حراستی کیمپوں میں رکھا گیا جن میں سے 14000 افریقی ہلاک ہوگئے۔ چرچل مقبوضہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں بھی ایک نوجوان فوجی افسر کے طور پر تعینات کیے گئے تھے۔ انھوں نے اس علاقے کے بارے میں لکھا کہ مقامی آبادی یہ سمجھ کر جنگ کررہی ہے کہ برطانوی فوجی جس علاقے پر قابض ہیں وہ ان کے علاقے ہیں۔ چرچل نے بڑے پرجوش انداز میں وادی سوات کے فوجی آپریشن میں حصہ لیا جس میں تمام وادی تہہ وبالا ہوگئی، لوگوں کے گھر تباہ کیے گئے اور کھڑی فصلوں کو نذر آتش کردیا گیا، وہ دیگر مذاہب کا کم احترام کرتے تھے۔

اسلام کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ مذہب رواداری کو بڑھانے کی بجائے اسے کم کرتا ہے، اسے بنیادی طور پر تلوار کے زور پر پھیلایا گیا ، چرچل چونکہ سفید فام نسل کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ امریکا کے ریڈ انڈینز یا آسٹریلیا کے سیاہ فاموں کے خلاف کوئی غلط کام کیا گیا ہے۔ ایک زیادہ طاقتور، اعلیٰ اور زیادہ دانش مند نسل نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے کوئی غلط کام نہیں کیاہے۔

نسلی بالادستی اور احساس برتری کی وجہ سے ہی وہ ایک زمانے میں اٹلی کے مسولینی کے بڑے حامی ہوا کرتے تھے۔ ان کی توصیف میں انھوں نے کہا کہ وہ کیا شاندار آدمی ہے، فاشزم نے تمام دنیا کی خدمت کی ہے۔ اگر میں اطالوی ہوتا تو لینن ازم کی حیوانی خصلت کے خلاف جدوجہد میں پہلے دن سے اس کے ساتھ ہوتا، لیکن بعد ازاں ان کے ہیرو کا فاشزم خود برطانیہ اور دنیا کی تباہی کے لیے بڑا خطرہ بن گیا اور چرچل کو اپنے سابقہ ہیرو کو نیست ونابود کرنا پڑا۔ چرچل برطانیہ کی نو آبادیوں کو بڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

ہندوستان کے لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو، ان کے نزدیک جاہل، وحشی اور جانوروں کے کسی غول سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے مذاہب وحشیانہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1943 میں بنگال میں بھیانک قحط رونما ہوا تو چرچل نے بھوکے ہندوستانیوں کو مرنے سے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس سے پہلے بھی ہندوستان میں کئی ہولناک قحط آچکے تھے لیکن ان کی وجہ موسم اور خشک سالی ہوا کرتی تھی۔

1943 کا قحط موسم نہیں بلکہ غذائی قلت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جو حکومت کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ نوبل انعام یافتہ معیشت دان امریتا سین کا کہنا ہے کہ جب قحط آیا تو اس وقت خطے میں کافی خوراک موجود تھی، قحط میں ہلاکتیں جنگ کے باعث ہونے والے افراط زر، خوف یا ہوس منافع خوری کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ بنگال میں قحط آیا ہوا تھا لیکن برطانوی حکومت یہاں سے چاول اپنی دیگر نو آبادیوں کو برآمد کررہی تھی۔ ہندوستان کے وائسرائے نے کئی مرتبہ ہنگامی طور پر گندم فراہم کرنے کی درخواست کی جسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔

چرچل نے کہا تھا کہ’’ یہ قحط اس لیے پڑا ہے کہ ہندوستانی خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں‘‘ انھوں نے مضحکہ اڑاتے ہوئے پوچھا کہ’’ اگر قحط پڑا ہے تو کیا گاندھی اب بھی زندہ ہے؟‘‘ اس قحط میں 30 لاکھ انسان بھوک سے ہلاک ہوئے اگر مقبوضہ نو آبادی کے مقامی لوگوں کی کوئی اہمیت ہوتی تو یہ جانیں بلاشبہ بچائی جاسکتی تھیں۔ یہ آفت چرچل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کا شاخسانہ تھی۔

چرچل کا جرمنی کے شہر ڈریسٹدن پر وحشیانہ بمباری کا فیصلہ تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ 13 فروری 1945 کو اس بدنصیب شہر پر برطانوی اور امریکی ائیر فورس نے ایک دن میں 700,000 فاسفورس بم برسائے جس سے دیکھتے ہی دیکھتے 500,000 لاکھ انسان جل کر راکھ ہوگئے۔ ایک دن میں پانچ لاکھ بے گناہوں کو جلاکر خاک کردینا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں شاید ہی تلاش کی جاسکے۔

آپ طاقتور اور با اختیار ہوں، کوئی آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود آپ خود پہ قابو رکھیں، کمزوروں اور محکوموں سے نفرت نہ کریں، مخالفین کو ہلاک اور لاپتہ ،شہروں اور بستیوں کوتاراج نہ کریں، رحمدلی، رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں تو تاریخ آپ کو ہمیشہ اچھے نام سے یاد رکھے گی اورایسا نہیں کریں گے تو آپ تاریخ کی ایک ایسی شخصیت بن جائیں گے جس کا عالی شان مجسمہ کسی بھی دن زمین بوس ہوسکتا ہے۔

تاریخ ظالم ہوتی ہے لہٰذا طاقت کے نشے میں ہو کر بھی اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔