اپوزیشن حکومت کے خلاف فیصلہ کُن معرکے کیلئے تیار

ارشاد انصاری  بدھ 15 جولائی 2020
یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں سیدھا اسی گڑھے کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو ہمارے دشمنوں نے ہمارے لئے تیار کر رکھا ہے۔

یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں سیدھا اسی گڑھے کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو ہمارے دشمنوں نے ہمارے لئے تیار کر رکھا ہے۔

 اسلام آباد:  حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی میوزیکل چیئر گیم اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور حکمران جماعت کو ملک میں صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایوان بالا  سے آئین کے آرٹیکل 160 میں ترمیم کیلئے  دستوری ترمیمی بل 2020  پر بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

ادھر مولانا فضل الرحمن بھی چپ کا روزہ توڑ کر سیاسی میدان میں پھر سے متحرک ہوگئے ہیں انکی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے ہونیوالی ملاقات  اور اس ملاقات کے بعد بلاول بھٹو کی انتہائی سخت پریس کانفرنس نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم  کے ساتھ چھیڑا چھاڑ کی صورت میں اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کرکے پاکستان پیپلز پارٹی نے تو حکومت کو واضع پغام دیدیا ہے۔

حزب اختلاف کی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی پیر کو ایوان بالا میں پیش کئے جانیوالے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ترمیمی بل کی منظوری  میں بری طرح شکست سے دوچار کرکے حکومت مخالفت کا عملی نمونہ پیش کردیا ہے۔

پیر کو ایوان بالا میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے  وزیر مملکت سینٹر بیرسٹر محمد علی خان سیف نے دستوری ترمیمی بل 2020 پیش کرنے کی اجازت دینے کی تحریک پیش کی تو حکمران جاعت پاکستان تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بل کی حمایت کی جبکہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) سمیت دیگر جماعتوں نے  بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملک میں صدارتی نظام لانے کی سازش قرار دیا۔

اس معاملے پراپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینٹر رضا ربانی، مشاہد اللہ خان، شیری رحمن،مولناا عطاء الحق سمیت دیگر سینٹرز کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی سامراج اور پاکستان کی اشرافیہ مل کر پاکستان کے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور  عوام کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اس وقت انڈر اٹیک ہے اور اٹھارویں ترمیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ کسی کی ہمت نہیں کہ ملک میں صدارتی نظام لے کر آئے یا اٹھارویں  ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی یجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ قوتوں کے درمیان معاملات  کی گتھی سلجھنے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ مزید اُلجھتی جا رہی ہے۔

ادھر پولیس نے ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نے جاوید ہاشمی کی گرفتاری کے لیے اسپیشل ٹیم تشکیل دے دی ہے جبکہ مخدوم جاوید ہاشمی اپنے موقف پر اسی سختی سے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

جاوید ہاشمی کی اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی گفتگو میں انکا کہنا ہے کہ انہوں نینے کوئی غلط بات نہیں کی ، پانچ بار ملکی آئین کس نے توڑا ؟ آئین توڑنے والوں کے خلاف بات کرتا رہوں گا، مجھے جیلوں میں ڈال دیں لیکن ضمانت نہیں کرواؤں گا۔

مریم نواز کا جو حالیہ ٹوئٹ سامنے آیا ہے اس سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں کسی سمجھوتے پر تیار نہیں ۔  بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تین سال  کے بعد حکومت تبدیل ہونے کے امکانات ہیں جسکے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن مشکل  یہ ہے کہ متبادل اب انتخابات کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ انتظار کرنا اور حالات کو نئے انتخابات تک پہنچنے دینا ہی ن لیگ کے مفاد میں ہے۔ یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی ، معاشی و اقتصادی حالت پر عوام کی خاموشی نے پاکستان ماضی میں چلنے والی تمام سیاسی اور احتجاجی تحاریک پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی انسانی اقدار کی طرح حریت پسندی ،رواداری، انصاف پسندی اور سیاسی اعلیٰ شعور کی بھی موت واقع ہو چکی ہے۔

یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ پاکستان جو اتنی بڑی قیمت چکا کر امریکی  چنگل سے کسی حد تک نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اسے واپس امریکی  چنگل میں دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان افغانستان پر امریکہ کو تعاون فراہم کر رہا ہے لیکن اس تعاون کے باوجود اب بھی امریکہ ہمیں کوئی اقتصادی یا دفاعی امدار دینے کو تیار نہیں ، بلکہ اُلٹا امریکہ کی طرف واجب الادا کروڑوں ڈالر کے ’’ اتحادی سپورٹ فنڈ کے بقایا جات بھی ادا نہیں کئے جا رہے۔

امریکہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی تخریب کاری کی مخالفت کرنے کو تیار نہیں بلکہ اب تو امریکہ ایسی بھارتی کاروائیوں کو اپنے احکامات کی تعمیل کے لئے پاکستان پر دباو ڈالنے کے لئے بھی استعمال کرنے لگا ہے۔ ترکی سے گن شپ ہیلی کوپٹرز کی پاکستان کو فراہمی کا سودا صرف اس وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا کہ پاکستان کو دئیے جانے والے ہیلی کوپٹرز میں امریکی انجن نصب تھا جو پاکستان کی وجہ سے امریکہ نے دینے سے انکار کر دیا ، یوں یہ سودا بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں سیدھا اسی گڑھے کی طرف لے جایا جا رہا ہے جو ہمارے دشمنوں نے ہمارے لئے تیار کر رکھا ہے۔ ان حالات میں چین ،روس اور ترکی سمیت دوسرے ممالک کے عالمی  سطع پر اتحاد  کی نئی صف بندی اُمید کی ایک کرن بھی ہے اور اس سے عالمی سطع پر طاقت کے توازن میں بہتری کے امکانات ہیں۔ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ چین نے سیٹیلایٹ تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنٹاگون کی ڈیفیسن اینٹیلیجنس ایجنسی نے کانگرس کو بریفنگ دی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین مدار میں گردش کرنے والے سیٹیلایٹ تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں اگر امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو چینی فوج چند گھنٹو ں اندر امریکہ اور اسکے کے اتحادی ممالک کو سیٹیلائٹ کی سبقت سے محروم کر دے گا۔ یہ ڈویلپمنٹ عالمی سطع پر امریکہ کیلئے یقینی طور پر بڑا دھچکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ داخلی و خارجی سطع پر مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اطلاعات آر ہی ہیں کہ ایبولا وائرس کے بھی دوبارہ پھیلنے کا اندیشہ ہے جبکہ دنیا ابھی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ الرٹ کے مطابق کانگو میں ایبولا وائرس کے پچاس کنفرم کیس سامنے آ چکے ہیں اور اب تک بیس افراد اس کوفناک وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب کورونا وائرس سے ہونے والی معاشی ابتری اور مہنگائی نے دنیا میں بھوک و افلاس کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس نے تحریک انصاف کی حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اب تک 10 ہزار ارب کا قرضہ لے چکی ہے۔ قرضوں میں یہ 44 فیصد کا اضافہ ملک کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔