تحریک انصاف کا ڈرون حملوں کی بندش تک نیٹو سپلائی بند رکھنے کا اعلان

شاہد حمید  بدھ 11 دسمبر 2013
سید منور حسن کی جماعت اسلامی نے علاقائی پارٹیوں کا طرز سیاست اپناتے ہوئے خود کو خیبر پختونخوا میں نیٹو سپلائی کی بندش تک محدود کرلیا ہے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس سے بھی کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا۔  فوٹو: فائل

سید منور حسن کی جماعت اسلامی نے علاقائی پارٹیوں کا طرز سیاست اپناتے ہوئے خود کو خیبر پختونخوا میں نیٹو سپلائی کی بندش تک محدود کرلیا ہے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس سے بھی کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا۔ فوٹو: فائل

پشاور: اس بات کا امکان بھی تھا اور تحریک انصاف اوراس کی دیگر دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین مقامی طور پر اس بات پر اتفاق بھی پایا جاتا تھا، چونکہ امریکہ نے ازخود طورخم کے راستے افغانستان، نیٹو سپلائی کی بندش کا اعلان کردیا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف اور اس کی دونوں اتحادی جماعتوں، جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کے کارکنوں کی جانب سے مسلسل دھرنے دینے اور گاڑیوں کی چیکنگ کا جو سلسلہ جاری ہے وہ ختم کردیا جائے۔ 

تاہم تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے اس تجویز کے ساتھ اتفاق نہیں کیا جس کی وجہ سے مذکورہ دھرنوں اور احتجاجی سلسلے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جو اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک امریکا پاکستان میں ڈرون حملوں کی بندش کا اعلان نہیں کرتا ۔ تحریک انصاف نے جس انداز میں پشاور سے طورخم اور آگے افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی کی بندش کی اس کو بھی عجیب انداز سے دیکھا جا رہا تھا کیونکہ ایک جانب تو تین پارٹیوں کے کارکن روزانہ کی بنیاد پر دھرنے دیتے ہوئے یہ فریضہ انجام دے رہے تھے تو دوسری جانب مذکورہ کارکن جس طریقہ سے پشاور کے راستے خیبرایجنسی میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے وہ بھی مناسب طریقہ نہیں تھا تاہم یہ سلسلہ جاری رکھا گیا اور اب ڈرون حملوں کی بندش تک یہ سلسلہ یونہی جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔

یہ بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کے راستے نیٹو کو افغانستان رسد کی سپلائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور چمن کے راستے یہ سپلائی ہو رہی ہے جو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے احتجاج کے باوجود جاری رہنا حیران کن ہے کیونکہ تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کے کارکن صرف خیبرپختونخوا میں موجود نہیں بلکہ پورے ملک میں ہیں لیکن ان حالات میں نیٹو سپلائی کی بندش صرف خیبر پختونخوا سے کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟اگر مذکورہ سپلائی حکومت کے ذریعے روکی جا رہی ہوتی تو تب تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی تھی چونکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت صرف خیبرپختونخوا میں ہے اس لیے یہ دونوں جماعتیں پشاور اور خیبرپختونخوا ہی کے مختلف اضلاع سے مذکورہ سپلائی روکے ہوئے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور یہ کام ان دونوں اور ان کی تیسری اتحادی جماعت کے ورکر کر رہے ہیں جو صرف پشاور یا خیبرپختونخوا ہی کے اضلاع میں مذکورہ سپلائی کو روک کر بڑے واضح انداز میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ پارٹیاں صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان پارٹیوں کے ورکر کراچی میں سپلائی روکنے کے علاوہ چمن کے راستے بھی نیٹو سپلائی کی بندش جیسا قدم اٹھاتے تاہم ایسا نہیں کیا گیا جس سے یہ تاثر بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ان پارٹیوں کی چونکہ سندھ اور بلوچستان میں حکومت نہیں اس لیے ان کے ورکر وہاں اس حوالے سے متحرک نہیں ہوئے کیونکہ وہاں کی متعلقہ صوبائی حکومتیں ان کے ساتھ شاید ہی اس معاملہ میں کسی قسم کی کوئی رعایت کرتیں جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا کی حکومت جو اس حوالے سے سکرین پر تو نہیں ہے تاہم پس پردہ وہی نظر آرہی ہے، یہی وجہ ہے کہ نیٹواور اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ کے تحت سامان لے کر جانے والی گاڑیوں کو روکنے پر خیبرپختونخوا میں قانون خاموش ہے اور جہاں تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کے ورکروں کے خلاف پرچے کٹے بھی ہیں تو ایف آئی آرز سیل ہوکر فائلوں کی نذر ہوگئی ہیں اورظاہر ہے کہ یہ کام صوبائی حکومت کے احکامات کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ ڈرون حملوں کی بندش تبھی کرے گا جب اس حوالے سے پاکستان کی مرکزی حکومت کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھیں گے ،کوئی صوبائی حکومت اگر اس بارے میں اپنی الگ پالیسی بناکر بیٹھ بھی جائے تو اس سے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ امریکہ پر اثر ہو کیونکہ امریکہ کسی صوبائی حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات نہیں کرے گا، تاہم عمران خان کی تحریک انصاف اور سید منور حسن کی جماعت اسلامی نے علاقائی پارٹیوں کا طرز سیاست اپناتے ہوئے خود کو خیبر پختونخوا میں نیٹو سپلائی کی بندش تک محدود کرلیا ہے اور جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس سے بھی کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا بلکہ اسے لاقانونیت سے تعیبر کیا جا رہا ہے اور پوری کی پوری توجہ اس ایشو پر فوکس ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف تبدیلی کے اپنے نعرہ سے بھی ہٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور جس نئے خیبرپختونخوا کی نوید سنائی گئی تھی اس کے حوالے سے بھی اب ممکنہ طور پر تحریک انصاف کوئی نئی تاریخ دے گی کیونکہ اب نہ تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ہسپتالوں اور تھانوں پر چھاپے مار رہے ہیں اور نہ ہی ان کی کابینہ ارکان کی وہ رفتار نظر آرہی ہے جو نیٹو کے ایشو پر تحریک انصاف کے میدان میں اترنے سے پہلے تھی اس لیے اگر تحریک انصاف یہ فیصلہ کر ہی بیٹھی ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی بندش تک اس کے ورکر پشاور کی سڑکوں سے نہیں اٹھیں گے تو پھر تبدیلی کاعمل وہ بھول جائیں کیونکہ جو انداز سیاست تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اپنائے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ انھیں مرکزی سطح کی سیاست میں تو کوئی فاہدہ ہو تاہم خیبرپختونخوا کی حد تک کوئی فائدہ ہوتا ہوا اس لیے نظر نہیں آتا کہ عوام کی اکثریت کے مسائل وہ ہیں کہ جن کو حل کرنے کے لیے صوبہ کے وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کے ارکان اپنے ابتدائی دنوں میں سرگرم ہوئے تھے۔ تاہم نیٹو کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے تبدیلی کے اس عمل کو بھی بریکیں لگ گئی ہیں ا س لیے تحریک انصاف کو پانچ سال بعد کے عام انتخابات کو مد نظر رکھنے کی بجائے حال کے خیبرپختونخوا کو سامنے رکھنا ہوگا تب ہی صوبہ اور صوبہ کی عوام کو درپیش مسائل کو حل کے حوالے سے اقدامات کیے جاسکیں گے۔

تحریک انصاف کی قیادت نے بالآخر صوبہ میں پارٹی کمان کی تبدیلی کا کڑوا گھونٹ بھی پی ہی لیا ہے اور پارٹی کے صوبائی صدر اسد قیصر اور جنرل سیکرٹری شوکت علی یوسفزئی کی جگہ اعظم سواتی کو پارٹی کا صوبائی صدر جبکہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ خالد مسعود کوجنرل سیکرٹری مقرر کر دیا گیا ہے ، تاہم اس بارے میں تنقید کا سلسلہ جب بڑھتا گیا تو پہلے پرویز خٹک پارٹی عہدہ سے الگ ہوئے اور اب اسد قیصر اور شوکت علی یوسفزئی کو ان کے عہدوں سے فارغ کردیاگیاہے تاہم یہ تحریک انصاف ہی تھی جس نے پارٹی کے اندر الیکشن کرانے کی روایت کو ملکی سیاسی تاریخ میں ایک عرصہ کے بعد زندہ کیا تھا تاہم مذکورہ بالا تینوں عہدوں سے عہدیدار ہٹائے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر نامزدگیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور جس طریقہ سے پرویز خٹک کے مستعفی ہونے کے بعد جہانگیر ترین کو پارٹی کا مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا اسی طرح اعظم سواتی کو اسد قیصر کی جگہ پارٹی کا صوبائی صدر اور خالد مسعود کو شوکت علی یوسفزئی کی جگہ جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا ہے جس سے لگ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف بھی حالات کی نزاکتوں اور مجبوریوں کا شکار ہوگئی ہے اور وہ ایسے وقت میں کہ جب وہ اقتدار کا بکھیڑا بھی پالے ہوئے ہے اپنے لیے نئے پنڈورا بکس کھولنا نہیں چاہتی کیونکہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں جو مخالفتیں پیدا ہوئی تھیں اس کا رنگ اب بھی کہیں نہ کہیں جھلکتا ہے اس لیے لگ یہ رہا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی کے اگلے پارٹی انتخابات نہیں ہوتے ،معاملات انتخاب کی بجائے تقرریوں کے ذریعے ہی چلائے جائیں گے اور اگلے مرحلہ میں پشاور کے ریجنل صدر عاطف خان اور ضلعی صدر یاسین خلیل کو بھی جب پارٹی عہدوں سے فارغ کیا جائے گا تو ان کی جگہ بھی تقرریاں ہی کی جائیں گی۔

جس طرح پی ٹی آئی نے پارٹی عہدوں پر تبدیلی کے حوالے سے کافی وقت لیا ہے اسی طرح کابینہ میں نئی شمولیتوں اور ردوبدل کے سلسلے میں بھی وقت لیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اسراراللہ گنڈا پور کی شہادت کے دو ماہ بعد بھی صوبہ کو وزیر قانون نہیں مل سکا اور نہ ہی یوسف ایوب کی نااہلی سے پیدا ہونے والے خلاء کو نئے وزیر کے ذریعے پر کیا گیا ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کے تین وزراء کی رخصتی سے یہ خلاء مزید وسیع ہوچکا ہے اس لیے پی ٹی آئی کو جلدازجلد یہ خلاء بہر کیف پر کرنا ہی ہوگا تاکہ حکومتی امور کو احسن انداز میں چلایاجاسکے۔ اس سلسلے میں کچھ مشاورت ضرور ہوئی ہے جس کے تحت ڈپٹی سپیکر امتیاز شاہد قریشی کو وزیر قانون ،وزیراعلیٰ کے مشیر محمد شکیل کو ڈپٹی سپیکر اور بعض نئے چہروں کو کابینہ میں شامل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں تاہم ان پر عمل کب کیاجاتا ہے اس بارے میں عمران خان کے علاوہ شاید ہی کوئی بہتر جانتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔