نایاب ہیں ہم

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 16 جولائی 2020
  اب سے کوئی اکیس سال پہلے مفتی محمد تقی عثمانی نے اندلس کا سفر کیا

اب سے کوئی اکیس سال پہلے مفتی محمد تقی عثمانی نے اندلس کا سفر کیا

’’نایاب ہیں ہم‘‘ آصف جیلانی کے کچھ خاکوں اور کچھ مضامین کا مجموعہ ہے۔ وہ معروف صحافی ہیں، بی بی سی کی اردو سروس سے وابستہ رہے ہیں۔ برطانیہ میں اردو صحافت کے پانیر قرار دیے گئے ہیں۔

یہ بچپن کے ان دنوں کا واقعہ ہے جب آصف جیلانی دلی میں رہتے تھے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پڑھتے تھے۔ جامعہ کی بانی اور امیر، ڈاکٹر ذاکر حسین کی چھوٹی بیٹی صفیہ ان کی ہم جماعت تھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی بھی تھے۔ ایک دن آصف نے صفیہ سے پوچھا ’’کیا تم نے فرشتے دیکھے ہیں؟‘‘ وہ فوراً بولی ’’ہاں ہمارے میاں ہیں۔‘‘ آصف نے کہا ’’تمہارے میاں؟ تمہاری تو ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔‘‘ صفیہ نے جواب دیا ’’ہم گھر میں اپنے ابو کو ’میاں‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

آصف جیلانی کی صحافتی زندگی کا آغاز ’’امروز‘‘ سے ہوا۔ لکھتے ہیں کہ ’’پہلی ہی ملاقات میں میاں افتخار الدین کی سادگی اور اپنے ادارے کے کارکنوں کے ساتھ دوستوں کی طرح مل جانے اور ان کے چہرے پر شگفتہ مسکراہٹ نے مجھے اپنا گرویدہ کرلیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ اور ’امروز‘ کی ادارتی پالیسی اور خبروں میں ان کی عدم مداخلت، عقیدہ کی طرح پختہ تھی۔ اس بارے میں وہ قصہ بہت مشہور ہے کہ جب چیانگ کائی شک کے بارے میں امروز کے ایک اداریے پر احتجاج اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میاں صاحب، ایڈیٹر،چراغ حسن حسرت کے کمرے میں داخل ہوئے۔

حسرت صاحب نے بڑے اطمینان سے شہادت کی انگلی اور دوسری انگلی میں دبی ہوئی سگریٹ کا زوردار کش لیا جس سے ان کی بڑی بڑی سرخ آنکھیں اور پھیل گئیں۔ پھر بڑی ملائمت سے میاں صاحب سے مخاطب ہوکر بولے۔ ’’یہ ایڈیٹر کا فرض ہے کہ وہ اخبار کی پالیسی کے مطابق اداریہ لکھے اور مولانا! ہم نے صحافت اس زمانے میں شروع کی تھی جب آپ برخوردار تھے۔‘‘ اس کے بعد میاں صاحب یہ عذر پیش کرتے رہے کہ ان کا مقصد ایڈیٹر کے فرائض میں مداخلت کرنا نہیں تھا،وہ تو محض اپنی رائے ظاہر کر رہے تھے۔

ایک شام لندن میں فیض صاحب سے آصف جیلانی کی ملاقات ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں نے فیض صاحب سے پوچھا کہ آپ کو شاعری سے لگاؤ کب اور کیسے شروع ہوا۔ کہنے لگے کہ ویسے تو ہم نے اسکول کے دوسرے سال سے شعر کہنے شروع کردیے تھے اور شاعری کا شوق اس سے بھی بڑھ گیا تھا کہ ہمارے گھر کے قریب اسکول میں بڑی باقاعدگی سے مشاعرے ہوتے تھے۔ لیکن ایک واردات نے ہمیں شاعری کے سمندر میں دھکیل دیا۔‘‘

’’میں صبر نہ کرسکا۔ میں نے پوچھا کہ یہ واردات کیا تھی؟ کہنے لگے کہ ’’جب میں سترہ اٹھارہ برس کا تھا تو میں ایک افغان لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کا خاندان ہمارے والد کے ساتھ افغانستان سے آیا تھا اور ہم بچپن میں ساتھ کھیلے ہوئے تھے۔ بچپن ہی میں یہ خاندان فیصل آباد کے ایک گاؤں میں منتقل ہو گیا۔ میری ہمشیرہ کی شادی اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔ جب میں اپنی ہمشیرہ سے ملنے گیا تو اس افغان لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ یہ اتنی حسین تھی کہ میں اسے دیکھتے ہی اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ لیکن مجھے اس وقت سخت صدمہ ہوا جب دوسرے ہی دن ایک امیر زمیندار سے اس کی شادی ہوگئی۔ اس وقت اس کی عمر یہی تیرہ چودہ برس کی ہوگی۔ غم کا ایک پہاڑ تھا جو ہم پر ٹوٹ پڑا اور پھر ہم نے شاعری ہی کا سہارا لیا۔‘‘

آصف جیلانی لکھتے ہیں کہ قرۃ العین حیدر انتقال سے دو سال پہلے لندن آئی تھیں۔ اس وقت بی بی سی کے پروگرام سب رس میں، میں نے ان سے ان کے ناولوں کے بارے میں کچھ سوالات کیے۔ میں نے کہا کہ ’’آگ کا دریا‘‘ آپ کا جو ناول ہے کیا وہ اس لیے بہت مشہور ہو گیا کہ اس کا کینوس بہت بڑا تھا۔ انھوں نے جواب دیا، جی ہاں اس کا کینوس بہت بڑا تھا۔ اب ضروری نہیں کہ میں ہر مرتبہ اسی طرح لکھتی چلی جاؤں۔ میں نے کہا، میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس وجہ سے تعجب ہوا کہ آپ کی پہلی جو کتابیں تھیں وہ مختلف تھیں۔ ان میں مغربیت زیادہ تھی۔‘‘قرۃ العین نے کہا ’’یہ مغربیت کیا ہوتی ہے؟ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو کتاب میں نے اٹھارہ یا انیس سال کی عمر میں لکھی تھی، تیس سال کے بعد تو میں ویسی کتاب نہیں لکھوں گی۔‘‘

اردو میں ناول کی روایت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے قرۃ العین حیدر نے کہا کہ اردو میں بہت ناول لکھے گئے ۔ ایک زمانے میں پورا دور ناول کا گزرا ہے۔ اب ماحول بدل گیا ہے۔ پہلے لوگ گراموفون سنتے تھے، پھر ریڈیو آیا، پھر ٹی وی آیا۔ پھر ویڈیو آگیا۔ لہٰذا ناول اب کوئی بیٹھ کر نہیں پڑھتا۔ یہ بھی مسئلہ ہے کہ بچوں میں پڑھنے کا شوق کم ہو گیا ہے اب بچے ویڈیو دیکھتے ہیں۔‘‘

آصف جیلانی نے ’’یادیں بھٹو صاحب کی‘‘ کے عنوان سے بھٹو صاحب کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سن انیس سو چوون کی بات ہے۔ اے پی پی کے منصوری اور ڈان کے مشیر حسن کے ساتھ میں سندھ چیف کورٹ کے چائے خانے میں بیٹھا تھا کہ ایک چھبیس سال کا نوجوان جو لباس سے بڑا’’ٹیڈی بوائے‘‘ نظر آتا تھا، پتلی موری والی ٹانگوں سے چپکی ہوئی پتلون، جسم پر کسا ہوا کوٹ، چمک دار غیر ملکی جوتے اور چال ایسی جیسے کوئی رقص پر موسیقی کی تیز دھن سے قدم ملا رہا ہو۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو کیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہوکر تازہ تازہ پاکستان لوٹے تھے اور کراچی میں وکالت شروع کی تھی۔ سندھ چیف کورٹ کے چائے خانے میں مجھے دیکھ کر وہ ہماری میز پر آگئے۔ اس دن وہ بہت خوش تھے۔ کہنے لگے’’ آصف ! مجھے پہلا مقدمہ ملا ہے جو بہت اہم ہے۔ سندھ کے ہاری لیڈر، حیدربخش جتوئی کو ایوب کھوڑو نے گرفتار کرلیا ہے۔ میں ان کی حبس بے جا کی درخواست داخل کرنے حیدرآباد جا رہا ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے بدبخت کھوڑو مجھے بھی پکڑ لے گا۔‘‘

آصف جیلانی لکھتے ہیں ’’منصوری نے پوچھا، کیوں سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے؟ اس پر بھٹو صاحب نے کہا، ’’ارادہ تو ہے لیکن۔۔۔‘‘ میں نے کہا ’’لیکن کیا؟‘‘ وہ بولے ’’کوئی جماعت مناسب نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ زمینداروں، جاگیرداروں اور عہد رفتہ کے سیاستدانوں کی جماعت ہے۔‘‘میں نے ازراہ تفنن کہا ’’تو پھر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو جاؤ۔‘‘ کہنے لگے ’’نظریات تو بھلے خوش نما ہوں لیکن میرے مزاج کے مطابق نہیں۔‘‘

منصوری نے سوال کیا ’’عوامی لیگ کے بارے میں نہیں سوچا؟‘‘ بھٹو صاحب بولے ’’اس پارٹی کی جڑیں بنگال میں ہیں۔ پاکستان کے اس مغربی حصے میں یہ کبھی مقبولیت حاصل نہیں کرسکے گی۔‘‘مشیر حسن نے برجستہ کہا ’’اب صرف جماعت اسلامی بچ گئی۔‘‘ اس پر بھٹو صاحب نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں اور ملاؤں کی جماعت میں شامل ہوں؟‘‘آصف جیلانی لکھتے ہیں کہ یہ تھا ہمارا ذوالفقار علی بھٹو سے پہلا مفصل تعارف۔ آصف جیلانی لندن میں رہتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب راشد اشرف اور ان کے شریک کار ڈاکٹر پرویز حیدر نے مرتب کی ہے اور فضلی سنز نے چھاپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔