گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 16 جولائی 2020
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

یہ امریکا کا واقعہ ہے جہاں امریکی امیگریشن حکام نے ایک مشکوک برطانوی پاسپورٹ قبضے میں لے لیا تھا، امریکی حکام نے پکڑا جانے والا پاسپورٹ تصدیق کے لیے برطانوی حکومت کے سپرد کردیا جہاں برطانیہ کے متعلقہ ادارے نے خوب چھان بین کے بعد اپنی حکومت کو پاسپورٹ جعلی ہونے کی رپورٹ پیش کردی۔

برطانوی حکومت کے نمایندے نے پاسپورٹ جعلی ثابت ہونے کے باوجود امریکا کو جو جواب بھجوایا اس میں کہا گیا کہ یہ پاسپورٹ جعلی نہیں بلکہ اصلی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ برطانیہ کا جعلی پاسپورٹ بنانا ناممکن ہے۔ امریکا کو پاسپورٹ سے متعلق رپورٹ لکھنے والے نمایندے سے اس کے کولیگ نے پوچھا کہ آپ نے جعلی پاسپورٹ کو اصل کیوں کہا؟

اس سوال کے جواب میں اپنے ملک کے ایک وفادار نمایندے نے کہا کہ جس نے جعلی پاسپورٹ بنایا اس کو سزا دینا ہمارا اندرونی معاملہ ہے، اگر آج ہم ایک پاسپورٹ کو جعلی کنفرم کر دیتے توکل پوری دنیا میں ہمارا ہر شہری اور ہر پاسپورٹ ہمیشہ کے لیے مشکوک ہو جاتا۔ اس کے بعد پوری قوم کو  دنیا بھر میں جو اذیت اور شرمندگی ہوتی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ ایک ملک کے وفادار اور دور اندیش نمایندے کی سوچ تھی جس نے اپنے ملک کو دنیا بھر میں بدنام ہونے سے بچا لیا اور ایک ہم ہیں جہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جن کی حرکتوں اور غیر ذمے دارانہ بیانات کے باعث ملک کا وقار مجروح ہوا، ادارے تباہ حالی کا شکار بنے۔

اسلام اور پاکستان دشمن عالمی قوتوں نے دینی مدارس کے خلاف من گھڑت اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیااور ہمارے اپنے لوگوں نے اس پروپیگنڈے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، یہ بھی نہ سوچا کہ اس عمل سے اپنی مدد آپ کے تحت لاکھوں بچوں کو علوم نبوت کی تعلیم دینے والے ہزاروں مدارس تو متاثر ہوں گے ہی ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی بھی ہوگی۔

اسی طرح ہندوستان ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کا تعلق پاکستان کے ساتھ جوڑتا رہا، ہمارے ہی ایک حکمران نے آکر یہ بات تسلیم کی کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہی تھا، ابھی چند سال قبل پٹھان کوٹ میں دہشت گردوں نے حملہ کیا بھارت نے بنا سوچے سمجھے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا تھا اور ہماری اس وقت کی حکومت نے گوجرانوالہ کے ایک تھانے میں اس حملے کی ایف آئی آر درج کروا دی۔پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، ان واقعات کامقصد میرے ملک کے وقارکو نقصان پہنچانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

ہمارے ہاں اہم ترین عہدوں پر ایسے ایسے لوگ بیٹھے ہیں، جو جانے یا انجانے میں ایسی ایسی حماقتیں کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ دو سال سے اس سلسلے میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا، جنھیں دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نااہلی یا بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے، بلکہ انھیں دیکھ کر تو یہ گمان پیدا ہوتا کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔

آپ سی پیک منصوبے کو ہی دیکھ لیجیے، اس منصوبے کو گیم چینجر کا نام دیا گیا، جب سے موجودہ حکومت آئی ہے تب سے جوش و خروش سے شروع کی جانے والی پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کی رفتار بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔ کئی حلقوں کی رائے میں آنے والے وقتوں میں اس منصوبے پر مکمل جمود طاری ہو جائے گا یا پھر اسے خدانخواستہ ختم کر دیا جائے گا۔پچاس ارب ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کو مسلم لیگ ن کی حکومت میں بہت جوش و خروش کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ پروجیکٹ اتنا اہم بن گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوششیں کرتی رہی تھیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد اس منصوبے پر بالواسطہ تنقید شروع ہو ئی ، پہلے وزیر تجارت نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے سی پیک کے کچھ منصوبوں کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بد عنوانی کے الزامات  لگائے تھے۔ یہ تھا وہ عمل جس نے پاکستان اور چین کے درمیان قربتوں میں دراڑیں ڈالیں۔ یہ الزامات لگاتے وقت کسی نے یہ نہیں سوچا بین الاقوامی معاہدے حکومتوں کے مابین نہیں بلکہ ریاستوں کے مابین ہوا کرتے ہیں، اگر سابق حکمرانوں پر آپ کرپشن کے الزامات لگارہے ہیں، کام تو آپ بھی اسی نظام کے تحت کررہے ہیں جس نظام کے تحت سابقہ حکومت کرتی رہی تھی اس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان ایک کرپٹ ملک ہے۔اس کا نقصان چند افراد کو نہیں پورے پاکستان کو پہنچا۔

تازہ واقعہ وفاقی وزیر ہوا بازی کی جانب سے منکشف ہونے والے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں اور جعلی لائسنس کا ہے، ایک بیان نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا  دیا، شروع شروع میں حکمران جماعت کے وزراء ، قائدین، ووٹرز اور سپورٹرز خوب اچھل کود کرتے رہے کیونکہ ان کے خیال میں وزیر ہوا بازی نے اپوزیشن کا ایک اور سکینڈل پکڑ لیا تھا لیکن جیسے جیسے اس بیان کے منفی اثرات برآمد ہونا شروع ہوئے ویسے ویسے گرجتی برستی توپیں خاموش ہونا شروع ہوتی گئیں۔ ایک غیر ذمے دارانہ بیان نے پوری قومی ائیر لائن کو کھڈے لائن لگا کے رکھ دیا۔

وفاقی وزیر ہوابازی کی جانب سے پی آئی اے پائلٹس کے مشکوک لائسنسز کے حوالے سے دیے گئے بیان کے بعدسب سے پہلے ویت نام کے ایوی ایشن حکام نے مقامی ایئر لائنز کے لیے کام کرنے والے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو بھی چھ ماہ کے لیے معطل کر دیاتاہم بعد ازاں خبر سامنے آئی کہ یورپ کے بعد برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی اپنے تین ائیرپورٹس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا۔

امارات ایئرلائن نے 150 پاکستانی پائیلٹ سمیت دوسرے عملہ کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان کے دوست ملک ترکی نے پاکستانی پائیلٹ ہٹا دئے، دنیا کی دوسری ایئرلائنز کی طرف سے بھی یہی ردعمل آرہا ہے۔ یورپی یونین نے PIA پر پابندی لگا دی۔ اقوام متحدہ نے اپنے اسٹاف کو PIA کو چارٹر کرنے، سفر کرنے سے منع کر دیا۔یہ سب صرف ایک غیرذمے دارانہ بیان کا نتیجہ ہے اور یہ بیان بیڈ گورننس کا شاخسانہ ہے۔ آسمان کی بلندیوں پر اڑتا ہوا ایک باوقار ادارہ ایسی ایسی حماقتوں سے زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے۔

اس بیان کو غیر ذمے دارانہ یا بیڈگورننس کے زمرے میں لانا سراسر زیادتی ہوگی، اس پر تو جے آئی ٹی بننی چاہیے کیونکہ ایک بیان نے اتنے بڑے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پاکستان کے وقار کو مجروح کیا، ہوسکتا ہے یہ کسی سازش کا نتیجہ ہو۔ پاکستان دنیا کی واحد سپر طاقت ہے اور اسے اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، دنیا بھر کے مظلوم مسلمان ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں، اسی لیے میرا ملک دنیا کی بہت سی بڑی طاقتوں کی آنکھ میں شہتیر بن کر کھٹکتا ہے، اسے کمزور کرنے کے لیے ان طاقتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، سی پیک ایسے بڑے منصوبے کو بند کرانے کے لیے ان طاقتوں نے بھارت کے ذریعے کیا کچھ نہیں کیا۔

ہمارے مضبوط اداروں کی تباہی کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے گئے لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ جو کام دشمن نہیں کر پایا آج وہ کام ہم خود کیے چلے جارہے ہیں، کچھ حلقے اسے نااہلی کا نام دیتے ہیں اورکچھ بیڈ گورننس کا، لیکن جس تیزی سے بلنڈرسامنے آرہے ہیں، ان میں دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے کیونکہ اپنے گھر کو کوئی آگ نہیں لگاتا لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔