خالی کھوپڑی پرشاہی تاج

سعد اللہ جان برق  جمعرات 16 جولائی 2020
barq@email.com

[email protected]

ہمارے آج کے اس کالم کو آپ ایک طرح سے اشتہار واجب الاظہار سمجھ لیجیے جو ہم اپنے موبائل نمبرکا دے رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم اس سے کوئی نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ ہمارے اس خوش نصیب نمبر نے ہمیں دنیا اور آخرت کے لیے اتنا مالا مال کیاہے کہ ہم ہرلحاظ سے دھنہ ہوگئے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ اس ’’انجیر کے پھول‘‘یا گیدڑسنگھی کو کسی اور کے حوالے کرکے اس کی بھی دنیا اور عاقبت سنوار دیں۔

اب کوئی آروز نہیں باقی

جستجو میری آخری تم تھے

ہمارے اس خوش نصیب اور مالا مال نمبر نے اب تک ہمیں جتنے انعامات دلوائے ہیں ان سب کا ذکرکرنا توممکن نہیں ہے کیونکہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۔اس لیے صرف چند پراکتفا کریں گے، صرف بے نظیرانکم سپورٹ سیکم میں اس نے اب تک(35)ہزار کے چالیس پچاس انعامات جیتے ہیں بلکہ دو مرتبہ تو ہمارے اس مرد میدان نمبر نے برطانیہ جاکر بھی دس دس لاکھ پاونڈ کے دو انعامات جیتے ہیں۔ ہم نے جب ان پاونڈز کو روپے میں تبدیل کیا تو ہمارے ہاتھوں کے توکیا پیروں بلکہ قرب وجوار کے پیروں کے بھی سارے تیتر بٹیر طوطے مینے اور کوے چیل اڑ گئے اور تاحال واپس نہیں آئے ہیں شاید ان پاونڈز کی تلاش میں ابھی تک محوپرواز ہیں۔

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

بارے اب اے ہوا،ہوس بال وپرگئی

دنیاوی مال ومنال سے توہمیں کوئی دلچسپی ہے نہیں اس لیے ان انعامات بلکہ اپنے موبائل نمبر کی کرامات سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے کیونکہ سکندر جب دنیا سے گیا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے کیونکہ کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی۔ویسے بھی ہم نے اپنے قومی خادموں جیسی طبعیت نہیں پائی ہے بلکہ ہماری طبعیت ان ہی پر گئی ہے، اس لیے اپنے بجائے دوسروں کا بھلا کرنے میں یقین رکھتے ہیں اس لیے اب اس انجیر کے پھول یا گیدڑسنگھی کو کسی اور کے حوالے کرکے ثواب دارین حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ رحمان بابا نے کہا ہے کہ کنوئیں کا پانی جتنا نکالوگے اتنا ہی بڑھتا جاتاہے

دہ روزہ مرگردوں افسانہ است وافسوں

نیکی بجائے ہاراں نیکی شمار یارا

یعنی دنیا کی مہربانیاں محض افسانہ وافسوں ہیں، اس لیے دوستوں کے ساتھ بھلائی کو اپنی بھلائی جان۔  اس مبارک فون نمبر سے دنیاوی مال ومنال کے علاوہ ہمیں جو اور علم اور ثواب کے ثمر ملے ہیں ان کا شمار تو کوئی سپر کیلکولیٹر بھی نہیں کرسکتا۔لیکن ان میں ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو سب سے الگ ہیں، ان سے ہم نے وہ تمام مہذب گالیاں سیکھی ہیں جوکوئی کسی کو تحریری طور پر دے سکتا۔ویسے تو ان کی گالیوں کا ہدف پشتون لیڈر ہوتے ہیں لیکن اکثر گالیوں میں قومی اور بین القوامی رنگ بھی ہوتاہے۔مثلاً ابھی تازہ ترین انکشاف اس نے پشتون لیڈروں کے بارے میں یہ کیا ہے کہ یہ لوگ زندگی امریکا میں گزارنا چاہتے ہیں اور دفن ہونا مکہ مدینہ میں پسند کرتے ہیں۔

اب یہ اس کی ’’جانبداری‘‘ہے ورنہ یہ بات سارے پاکستانیوں اور خاص طور پر لیڈروں اور اس سے بھی زیادہ خاص طور پر مذہبی لیڈروں پرصادق آتی ہے۔اس کے قول زرین ۔کہ زندگی امریکا میں اور تدفین مکہ مدینہ میں۔اس سے ہمیں ایک پرانا قول زریں یاد آتاہے۔ ان دنوں یہ بیسٹ سیلر قول زریں ہر رکشے اور ٹیکسی پرلکھا ہوا نظر آتاتھا کہ۔’’ژوند دجانانہ سرہ،مرگ د ایمانہ سرہ‘‘۔یعنی زندگی جانان کے ساتھ اور موت ایمان کے ساتھ۔کیا زبردست ’’کوزے میں سمندر بندی‘‘ ہے۔دونوں لفظوں میں وہ سب کچھ مانگ لیا۔جواب تک کی جانے والی تمام دعاوں کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔

زندگی جاناں کے ساتھ موت ایمان کے ساتھ۔چھوٹی سی بات کو پھیلانا ایسا ہے جسے کوئی’’کوزہ‘‘سمندر میں پھینکے اور چند الفاظ میں مطالب کا خزانہ جمع کرنا، اس کے برعکس یعنی سمندر کو کوزے میں سمیٹنا ہوتاہے۔ مولانا ظفرعلی خان سے کسی نے کہا کہ آپ اتنے لمبے لمبے مضامین کیوں لکھتے ہیں، ذرا محتصر لکھیے۔جواب میں مولانا نے کہا کہ مختصر لکھنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔اس سلسلے میں ہمارے پاس دو حکایتیں بھی ہیں۔جو عقل مندی اور بے عقلی کی مثال ہیں۔ایک تو وہ مشہور حکایت ہے کہ ایک گھرانا جو تین افراد ماں باپ اور بیٹی پرمشتمل تھا انتہائی غربت زدہ تھا، ہر وقت اپنی حالت سدھرنے کیفریاد کرتا تھا۔

آخر ایک دن ایک جن ان کے پاس آیا کہ تمہاری ایک ایک خواہش پوری کرنے کی منظوری آئی ہے۔بتاؤ کیا چاہیے؟بیٹی جسے اپنی کیرئیر بنانے کی جلدی ہے، اس نے خواہش کی کہ وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی بلکہ ماڈل بن جائے۔ خواہش پوری ہوئی لڑکی مہ پارہ بن گئی۔ ایک شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے اسے اپنی ملکہ بنالیا اور ماں باپ کو پیچھے مڑکر دیکھا تک نہیں بلکہ بعد میں جب باپ اس سے ملنے گیا تو اس نے ملنے سے انکار کردیا۔باپ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ یہ بدبخت ڈائن بن جائے، ظاہر ہے کہ ڈائن بننے پر اسے شہزادے نے کیاکرنا تھا، روتی دھوتی واپس آگئی۔

ماں سے اس کا رونا نہیں دیکھا گیا تو اس نے بھی اپنا اکلوتا کارتوس چلا دیا کہ میری بیٹی پہلے جیسی ہوجائے اور وہ ہوگئی۔اس کے برعکس ایک اور حکایت ہے کہ ایک نوجوان بہت ہی غریب تھا، اس کی ماں سخت بیمار تھی اور وہ شادی بھی کرنا چاہتاتھا، اس کے پاس فرشتہ آیا اور صرف’’ایک‘‘سوال پوری ہونے کا مژدہ سنایا جب کہ اس کی ضرورتیں تین تھیں۔لیکن اس کے پاس ذہن تھا اس لیے اس نے فرشتے سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میری ماں، اپنے پوتے کو سونے کے چمچے سے کھلائے۔ان حکایتوں کے بعد ہمیں اپنے وقت کے دو کاتبوں کا واقعہ یاد آنالازم تھا۔ روزنامہ انجام کے کاتب غلام عباس نے ایک دن بانگ حرم کے کاتب حضرت شاہ سے ایک شعر کہاتھا۔پشتوشعرتھاکہ

کہ زہ تاج دباچائی تاتہ پہ سرکڑم

خوچہ ستا عقل سرخوڑلے وی نو سہ پکار دے

یعنی اگر تمہارے سر پرشاہی تاج بھی رکھ دوں، اگر تمہاری کھوپڑی خالی ہو تو کیافائدہ(یہ صرف شعر ہے امرواقعہ نہیں)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔