جنوبی پنجاب

عبدالقادر حسن  اتوار 19 جولائی 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں دوسرے بہت سارے وعدوں کی طرح جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا جسکی داغ بیل اب ڈال دی گئی ہے۔

جنوبی پنجاب سے صوبہ کے حمائتی سیاستدانوں کی ایک کثیر تعداد نے قومی انتخابات میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے اور اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جنوبی پنجاب کے عوام اپنے مسائل کا حل اپنی دہلیز پر چاہتے تھے اس کے علاوہ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ لاہور سے جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں کی زمینی فاصلے کی دوری بھی شامل ہے۔

ماضی میں پنجاب کے تخت پر بیٹھنے والے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے جن میں ملک غلام مصطفی کھر بھی شامل تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزارت اعلیٰ سنبھالی تھی وہ بھی جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے بے فیض ثابت ہوئے اور جنوبی پنجاب کے عوام ان کی حکمرانی میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ ان کے بعد ضیاء الحق کے مارشل لاء میں شاہ محمود قریشی کے والد محترم مرحوم سجاد حسین قریشی گورنر کے عہدے پر فائز رہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک کی باگ دوڑ ملتان کے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھ سونپ دی جو وزیر اعظم کے عظیم المرتبت عہدے پر متمکن رہے لیکن وہ بھی اپنے علاقے کی کوئی خاص خدمت نہ کر سکے ۔

گزشتہ 35 برسوں میں پنجاب کی حکومت میاں نواز شریف ان کے بھائی شہباز شریف، میاں منظور وٹو اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان گھومتی رہی جس میں زیادہ مدت میاں شہباز شریف کے حصے میں آئی۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان وزرائے اعلیٰ کی حد نگاہ سے بھی جنوبی پنجاب دور رہا۔ جنوبی پنجاب میں جو تھوڑا بہت ترقیاتی کام ہوا وہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں ہوا۔ لب لباب یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے لیڈروں نے اپنے علاقے کی خدمت نہیں کی وہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد عوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر اپنی سیاست چمکاتے رہے۔

لاہور شہر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ پنجاب کے زیادہ تر حکمرانوں کا تعلق لاہور سے تھا یا پھر وہ اس شہر کے مکین تھے۔ جنوبی پنجاب کی یہ بد قسمتی رہی کہ جب اس کے لیے علیحدہ صوبے کی آواز بلند ہوئی تو حکمران ان کے شہروں سے تعلق نہیں رکھتا تھا ورنہ مسائل تو صوبے کے ہر حصہ میں زیادہ تھے تو ان کے حل کے لیے صرف لاہور کی بجائے مختلف علاقوں میں مقامی طور پر چھوٹے چھوٹے مرکز قائم کر دیے جاتے تا کہ کوئی میانوالی، اٹک یا صادق آباد سے سیکڑوں میل کا سفر کر کے تھکا ماندہ لاہور نہ پہنچتا اور اس کے اپنے علاقے میں اس کی دہلیز پر مسائل سنے جاتے اور ان کا حل نکالا جاتا۔ یہ بات بالکل قدرتی ہے کہ جو جہاں کا رہنے والا ہو اس کا انس وہاں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن جمہوریت میں تو یہ نا جائز ہے کہ کوئی حکمران صرف اپنے آبائی گھر کا ہو کر رہ جائے اور وطن عزیز کے دوسرے شہروں کو بھول جائے۔

کون نہیں جانتا کہ مسائل صرف ملک کے کسی ایک حصے کے عوام کے نہیں ہیں بلکہ پورا ملک ، ہر صوبہ اور ہر شہری ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ چھوٹے صوبے پہلے ہی بڑے بھائی پنجاب سے ناراض اور نالاں رہتے ہیں۔ پنجابی وزرائے اعظم کی پنجاب اور خاص طور پر لاہور نوازی کی وجہ سے پہلے سے ناراض دوسرے صوبوں کی ناراضگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کرتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبے کی داغ بیل ڈالنی شروع کر دی ہے، پہلے مرحلے میں ملتان میںجنوبی پنجاب سیکریٹریٹ قائم کیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندے عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں جو اپنی جماعت کے منشور کے مطابق اپنے علاقے کے لیے علیحدہ انتظامی سیکریٹریٹ قائم کر چکے ہیں، امید یہ کی جا رہی ہے کہ ان کے اپنے آبائی گھر میں بھی بجلی پہنچ گئی ہو گی کیونکہ جب وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے تو ان کی ایک قابلیت یہ بھی بتائی گئی تھی کہ ان کے اپنے آبائی گھر میں بھی بجلی کا کنکشن نہیں ہے یعنی جس گاؤں یا علاقے میں وہ رہتے ہیں اس میں بجلی موجود نہیں حالانکہ اس سے پہلے ان کے والد بھی صوبائی اسمبلی کے ممبر رہ چکے تھے۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو علیحدہ صوبے کی جانب پہلا قدم جو عثمان بزدار کی قیادت میں اٹھایا گیا ہے ان سے پہلے بھی جنوبی پنجاب کے لیے آواز بلند ہوتی رہی ہے۔

محمد علی درانی نہ جانے آج کل کہاں غائب ہیں جو صوبہ بہاولپور کی بحالی کے لیے پریس کانفرنسیں کرتے رہتے تھے۔ لیکن ایمانداری کی بات کی جائے تو ماضی میںجنوبی پنجاب کے کسی لیڈر نے اس کے لیے مخلصانہ جد و جہد نہیں کی اور زبانی کلامی کام چلاتے رہے۔ اس اہم کام کا آغاز تحریک انصاف اور عثمان بزدارکے حصے میں آیا ہے۔ وہ سیکریٹریٹ کی حد تک اپنے سیاسی حریفوں پر بازی لے گئے ہیں۔ علیحدہ صوبے کا قیام ابھی دور کی بات ہے اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن سیکریٹریٹ کے قیام سے بڑی حد تک انتظامی مسائل کا حل مقامی طور پر ہی ہو جائے گا۔ اس طرح کے انتظامی کام صوبے کے دوسرے حصوں میں بھی کیے جانے چاہئیں تا کہ اٹک والے کا کام راولپنڈی میں ہو جائے ، میانوالی اور خوشاب والے سرگودھا میں ہی بھگتا دیے جائیں اور ان کو لاہورکے دور دراز سفر سے نجات مل جائے۔

حکومت کے اس اقدام سے جنوبی پنجاب کے عوام سے کیے گئے وعدے کی جانب سفر کا تو آغاز ہو گیا ہے لیکن اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے اس سے دوسرے صوبوں کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ پنجابیوں نے اپنی سہولت کے لیے ایک اور انتظامی ترمیم کر لی ہے اس لیے ایسے اقدامات میں جتنی احتیاط کی جائے کم ہے کیونکہ ایسے اقدامات ہی دوسرے صوبوں کے عوام میں بڑے بھائی پنجاب کے لیے شک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور بعد میں یہی شک پختہ ہو کر قومی الجھنیں پیدا کرتے ہیں جن کو سلجھانا ہمارے آج کے لیڈروں کے بس کی بات نہیں ہے اور ہم مزید کسی توڑ پھوڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے انتظامی طور پر ناگزیر جنوبی پنجاب کی جانب پھونک پھونک کر قدم بڑھانے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔