ذائقے بلوچستان کے

ببرک کارمل جمالی  اتوار 19 جولائی 2020
رنگارنگ صوبے کے کچھ لذیذ اور منفرد کھانے

رنگارنگ صوبے کے کچھ لذیذ اور منفرد کھانے

پیارے بلوچستان کے رنگ بہت حسین ہیں۔ کہیں بلند و بالا اور فلک بوس پہاڑ تو کہیں میلوں میل پر پھیلے ہوئے میدانی علاقے۔ کہیں فصلوں کی ہریالی، کہیں آبشار تو کہیں قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ کے کھنڈرات؛ اور کہیں پہاڑوں کی اترائی اور چڑھائی کے خوب صورت مناظر جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مختلف قومیں آباد ہیں اور اِن سب کے رسوم و رواج اور کھانے کے الگ الگ طریقے ہیں۔ آج ہم بتائیں گے بلوچستان کے کچھ ایسے کھانوں کے بارے جو دورقدیم سے اس سر زمین پر لوگوں کی غذا رہے ہیں۔ بلوچستان کے روایتی کھانوں کو مزے دار سمجھا جاتا ہے، جو ہر کھانے والے کو پسند آتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ کھانوں کے بارے میں جانیے:

٭ تندوری چکن:تندوری روٹی تو سب نے کھا رکھی ہو گی۔ ہر شہر میں تندروری روٹی آسانی سے مل جاتی ہے جو کھانے میں انتہائی ذائقہ دار ہوتی ہے۔ کیا آپ کو پتا ہے اسی تندرور میں گوشت بھی بنایا جاتا ہے، جو لذت کے اعتبار سے اعلیٰ پائے کا کھانا ہے۔ تندوری گوشت ہمیشہ بکرے کے گوشت سے بنایا جاتا ہے۔ اس کو پکانے کے لیے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھروں میں یہ گوشت نہیں بن سکتا، کیوںکہ اس گوشت کو بنانے کے لیے ایک تندور کی ضرورت لازم و ملزوم ہوتا ہے۔بلوچستان کے مخصوص شہروں میں تندوری گوشت بنایا جاتا ہے۔ تندوری گوشت بنانے کے لیے لکڑیاں جلائی جاتی ہیں، پھر آگ کی حدت برابر کی جاتی ہے، جس کے بعد اس میں مسالہ جات لگا بکرے کا گوشت رکھ دیا جاتا ہے۔

٭ کھڈی کباب: ذبح شدہ بکرے یا دنبے پر مسالے لگا کر زمین میں ایک تندوری گڑھے کی تہہ میں دہکتے انگاروں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر مسالہ لگے بکرے کو اس تندور کے گڑھے میں انگاروں سے زرا اوپر لوہے کی سلاخ کی مدد سے رکھا جاتا ہے۔ اس تندور کو اوپر سے ٹین سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر کوئلے رکھ دیے جاتے ہیں، تاکہ کباب دونوں طرف سے پک جائے۔ ایک سے دو گھنٹے بعد تندور کا ڈھکن کھول دیا جاتا ہے۔ اب آپ اس کباب بنے بکرے کو کسی خوب صورت برتن میں ڈال کر کھائیں، بلوچستان کے اس لذیز کھانے کو کھاتے ہوئے انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے۔

٭ پلی:بلوچستان کے مختلف شہری علاقوں اور دیہی علاقوں میں مختلف سبزیوں کو خشک کرنے کا رواج کب سے چلا آ رہا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ بلوچستان میں سرد علاقوں میں گوشت خشک کیا جاتا ہے، جب کہ گرم علاقوں میں سبزیاں خشک کی جاتی ہیں، جن میں ساگ، پالک، پودینہ، (چنے کے سبز پتے) اور دیگر سبزیاں شامل ہیں، جب کہ بلوچستان میں گوشت (لائی) سکھانے کا رواج بھی صدیوں سے سرد علاقوں میں چلا آ رہا ہے۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں سردیوں میں چنے کی پلی کو خشک کیا جاتا ہے۔ پھر اسی خشک پلی کو گرمیوں میں پکایا جاتا ہے۔

چنے کی فصل سردیوں میں تیار ہوتی ہے۔ اس دوران جب چنے کی پلی بلوچستان کی سر زمین پر عام جام پائی جاتی ہے تو پلی کو خشک کیا جاتا ہے۔ آج کل بلوچستان میں اکثر گھروں میں ذائقہ دار پلی بنائی جاتی ہے۔ پلی کو مقامی مسالوں کے ساتھ ذائقہ دار بنایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں پلی خاصی مقبول سوغات ہے۔ پلی میں مختلف اقسام کے گوشت کے علاوہ آلو، ٹماٹر، پیاز اور مسالا جات ملائے جاتے ہیں۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں بھی پلی کو خاص سوغات سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان میں سبزیوں کو خشک کرکے لمبے عرصے تک قابل استعمال بنا لینے کی رسم بہت پرانی ہے۔ بلوچستان میں جن موسموں میں سبزیاں نہیں ہوتیں۔ ان موسموں میں یہ خشک سبزیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں سبزیوں کو سُکھانے کا یہ عمل قدرتی ہے اور کسی بھی قسم کے کیمیکل کی آمیزش سے پاک ہے۔

٭ لوبیا:لوبیا انگریز سرکار کا پسندیدہ کھانا تھا۔ بلوچستان کی سر زمین پر انگریز سرکار نے جب قدم رکھا تو لوبیا کی فصلوں پر دُہرا لگان وصول کرتے تھے۔ انگریز حاکم فوجیوں کو لوبیا اس لیے کھلائے جاتے تھے تاکہ ان کی جسمانی طاقت میں اضافہ ہو اور وہ میدان جنگ میں دشمن کو شکست دیں۔ لوبیا کو طاقت کے لیے بہت اہم غذا تصور کیا جاتا ہے۔

اس کے اندر پروٹین موجود ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھا کہ انگریز لوبیا کے شوقین ہیں تو بلوچستان کے کسانوں نے لوبیا کاشت کرنا ہی چھوڑ دیا اور اس کی جگہ پر چنے اور تل کاشت کرنے لگے تھے۔ لوبیا پکانے کا طریقہ انتہائی آسان ہے خالی پانی میں دو سے تین گھنٹوں تک ہلکی آنچ پر ابالیں پھر جب لوبیا مکمل حل ہوجائے تو اس میں پیاز، لہسن ، سرخ پسی ہوئی مرچیں، کٹی ہوئی سرخ مرچیں، سفید اور سیاہ زیرہ، ٹماٹر، شملہ مرچیں، پودینہ دھنیا ٹماٹر اور کالی مرچیں اور نمک ڈالیں اور پھر مزے لے لے کر کھائیں۔

٭ روسٹ:بلوچستان کی ایک مخصوص ڈش جس کو “روشت” یا روسٹ کہتے ہیں، یہ کالی مرچ میں دنبے کی نمکین چربی اور گوشت کے ساتھ تیار ہوتی ہے اور یخنی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی خالص سادہ اور مزے کی ڈش ہے۔ بلوچی میں اس کو نمکین روسٹ بھی کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے جو بھی ایک کھائے گا تو اسی ہی کے گْن گائے۔

بلوچستان کی ’’روسٹ‘‘ یا روشت اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ روسٹ اگرچہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بہت کم تیار کی جاتی ہے لیکن بلوچستان میں تیار کی جانے والی روسٹ اپنی مثال آپ ہے۔

روسٹ کو تیار کرنے کے لیے کسی بڑی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسے تیار کرنے کے لیے کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوتا ہے۔ روسٹ کو مسلسل آگ پر تین سے پانچ گھنٹے تک پانی کے بھاپ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں آگ کی تپش کو برابر رکھا جاتا ہے۔ روسٹ ہمیشہ گائے، بھیڑ یا بکری کے ران کے گوشت سے بنایا جاتا ہے۔ روسٹ میں تیز نمک، پسی ہوئی کالی مرچیں، زیرہ، الائچی پاؤڈر لیموں کا رس، لہسن ادرک ڈالا جاتا ہے جب کہ گھی کی کمی گوشت کی چربی سے پوری ہوجاتی ہے۔

بلوچی روسٹ کھانے کی ثقافت قدیم دور سے لے کر آج کے جدید دور تک جاری ہے۔ روسٹ یا روشت پہلی مرتبہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

٭ سفید چاول اور آم:ان دنوں آم کا موسم ہے اور آم پورے ملک میں عام مل رہا ہے۔ تازہ آم ہو اور سفید چاول، تو پھر کھانے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ میٹھے میٹھے آموں کے ساتھ سفید چاول کھانے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہ منفرد خوراک بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔

٭ دستی سِوَیاں:دستی سِویّاں بلوچستان کی خاص سوغات میں ایک سوغات ہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں دستی سویاں ایک سفید کپڑے کے ساتھ گھر کی چھت سے باندھ دی جاتی ہیں، جن کا استعمال دو سے تین ماہ بعد کیا جاتا ہے۔ دیسی سویاں جب چھت سے لٹکتی ہیں تو بلوچ بچے بڑے فرمائش کر دیتے ہیں ’’ماں جی! آج گرماگرم سویاں بنائیں۔‘‘ اور پھر گھر میں سویاں تیار ہوجاتی ہیں۔ ان سویوں میں تازہ دیسی مکھن یا دیسی گھی ڈالا جاتا ہے۔ جب میٹھی (چیز) مٹھائی (گنے سے نکلنے والی) ڈالی جاتی ہے تو پھر ان کی لذت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ سویاں خوب پیٹ بھر کر اور مزے لے لے کر کھائی جاتی ہیں۔ یہ سویاں بلوچستان میں صدیوں سے بہ طور پکوان پکائی اور کھائی جارہی ہیں، اور شاید تاقیامت کھائی جاتی رہیں۔

٭ کاک روٹی:بلوچستان کے لوگ کھانوں کے بہت شوقین ہیں۔ ان کھانوں میں ایک ایسی روٹی پکائی جاتی ہے جو پاکستان میں کہیں بھی نہیں ملتی، جس کا نام ’’کاک روٹی‘‘ ہے۔ کاک روٹی تیز آگ کی حدت پر براہِ راست پکائی جاتی ہے۔ کاک روٹی گرم گول پتھروں پر آٹا لپیٹ کر انگاروں پر پکائی جاتی ہے۔

یہ روٹی پکانے سے پہلے ایک جیسی ناپ کے گول پتھروں کو انگاروں پر خوب گرم کیا جاتا ہے۔ پھر ان پر آٹا لپیٹ کر ہلکی انگاروں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہلکی آنچ سے یہ گولہ اندر تک اچھی طرح پک جاتا ہے۔ کاک روٹی کے پیڑے کے اندر ایک پتھر ہوتا ہے جسے روٹی کھاتے وقت نکال دیا جاتا ہے۔ جب یہ روٹی آگ کے قریب رکھی جاتی ہے تو اس کے اندر موجود پتھر بھی گرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ روٹی اندر سے بھی پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ کاک روٹی بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ یہ روٹی کئی کئی روز سفر میں بھی کھائی جاتی ہے۔ شاید یہ روٹی جنگوں کے دوران بہت کھائی جاتی رہی ہے۔ کاک روٹی اکثر سجی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

٭ روٹ:روٹ بلوچستان کی خاص سوغات ہے جسے میٹھی روٹی بھی کہتے ہے۔ یہ روٹی خالص دیسی گھی، گندم کے آٹے، گڑ اور خشک میوہ جات سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ روٹی بلوچستان کے لوگ اس وقت بناتے تھے جب وہ جنگ کے لیے نکلتے تھے یا لمبے سفر پر جاتے تھے آج کل روٹ بنانا بلوچستان میں نایاب ہو گیا ہے، مگر کچھ علاقوں میں اس نایاب روٹی کو آج بھی بنایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ نشے کے عادی حضرات روٹ بناتے وقت خشک میوہ جات کے بجائے اس میں بھنگ کا پانی ڈال دیتے ہے، تاکہ جب سفر کے دوران نشے کی طلب ہو اس روٹی سے گزارہ کرلیا جائے۔

٭ بلوچی بُسری: جوں ہی سردیاں آتی ہیں تو اس موسم کی ابتدا بلوچستان کے باسی بلوچی خاص خاص ’’بلوچی بُسری سے کرتے ہیں۔ بلوچی بُسری کو تیار کرنے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچی بُسری بغیر مسالوں کے آگ پر روٹی کی طرح تیار کی جاتی ہے۔اس پکوان کو بنانے میں دس سے بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کی تیاری میں گندم کی روٹی، دیسی گھی، مکھن اور گُڑ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ روٹی کا ایک حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر دوسرے حصے میں گڑ ڈالا دیا جاتا ہے اور روٹی کو دونوں طرف سے مکھن لگاکر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بلوچی بُسری گرم گرم کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہے۔

اس سوغات کا رواج کس دور سے شروع ہوا، یہ کوئی نہیں جانتا، نہ ہم نہ ہمارے آبا و اجداد اور نہ گوگل بے چارہ۔ بلوچی بُسری صدیوں سے بلوچ خواتیں بناتی چلی آ رہی ہیں۔ بلوچستان میں اکثر علاقوں میں بلوچی بُسری کا ناشتہ لازم سمجھا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں اس کو میٹھی روٹی کا بھی نام بھی دیا گیا ہے۔ گڑ اور دیسی گھی کے تڑکے سے تیار ہونے والی یہ میٹھی روٹی لذیذ ہونے کے ساتھ سردیوں میں جسم کے اندر حرارت پیدا کرکے جسم کو گرم رکھتی ہے۔شادی کے دن دولہا کو بلوچی بُسری ضرور کھلائی جاتی ہے۔ یہ بُسری دلہن کے گھر والے تیار کرکے لاتے اور کھلاتے ہیں۔ اس وقت چار سے پانچ بُسریاں پکائی جاتی ہیں، جن پر دولہا کے رشتے دار بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی خواتین بلوچی بسری پکاتی ہیں۔ خالص بلوچی رسم و رواج کے حامل علاقوں میں جہاں خواتین زیادہ تر گھروں میں رہتی ہیں وہاں بلوچی بسری کے ہنر سے آشنا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اس ہنر کو اپنانے کے بعد بلوچ خواتین کی شادیاں بھی جلد ہو جاتی ہیں اور شادی کے بعد جب عورت ماں بنتی ہے تو اسے ایک ہفتے تک بلوچی بسری کھلائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے مردوں کی نسبت بلوچ خواتین بلوچی بسری زیادہ شوق سے کھاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔