کورونا وائرس کا چیلنج...حکومتی و سماجی اداروں کا کردار قابل تحسین ہے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 20 جولائی 2020
حکومت کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں: حکومتی و سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومت کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں: حکومتی و سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

کورونا وائرس کی مشکل گھڑی میں جہاں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے جہاں حکومت اقدامات کر رہی ہے وہیں سماجی اداروں اور مخیر حضرات کا کردار بھی کسی سے مخفی نہیں۔ انہوں نے حکومت کے شانہ بشانہ دن رات کام کیا اور اب بھی عوامی فلاح کے کاموں میں پیش پیش ہیں۔ یہ یقینا پاکستان کے ہیروز ہیں اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

ان کی خدمات کا جائزہ لینے کیلئے ادارہ ایکسپریس نے ’’کورونا وائرس : معیشت کی بحالی اور روزگار کی فراہمی میں سماجی اداروں کا کردار‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں حکومتی و سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

میاں اسلم اقبال (صوبائی وزیر صنعت و تجارت پنجاب)

کورونا وائرس سے پہلے حکومت نے اپنی بہتر پالیسیوں سے بجٹ خسارہ، تجارتی خسارہ و دیگر مالی خسارے کم کیے جس کے بعد تمام معاشی اعشاریے مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے تھے ۔ حکومت نے معیشت کے حوالے سے جامع پالیسی بنائی تاکہ ملک خود انحصاری کی طرف جائے اور بیرونی قرضوں سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے وزیراعظم نے ایکسپورٹرز کے ساتھ بارہا میٹنگز کی اور ان سے رائے لی کہ وہ کس طرح اس کو بہتر بناسکتے ہیں، کون سی اشیاء ہیں جن سے پاکستان عالمی مارکیٹ میں بہتر جگہ بنا سکتا ہے اور پھر ان کی تجاویز کی روشنی میں اہم فیصلے کیے گئے۔ وزیراعظم نے ہمیں ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ پر کام کرنے کا کہاتاکہ بیرونی سرمایہ کار کو بھی آسانی ہوسکے۔ جب ہماری حکومت آئی تو پاکستان ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘ کے حوالے سے دنیا میں 137 ویں نمبر پر تھا۔ ہم نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی قیادت میں دن رات کام کیا اور یہ رینکنگ بہتر ہوکر 108 پر آگئی۔ ’’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘‘  کے حوالے سے کینیا، ساؤتھ کوریا، ویتنام و دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان ممالک نے طریقہ کار آسان کیا اور قوانین میں ترمیم کی۔ ہم نے بھی اس حوالے سے کام کیا تاکہ لوگوں کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جائے۔ کورونا وائرس سے دنیا اب بدل رہی ہے۔ چین بھی اپنی فیکٹریاں دوسرے ممالک میں لگا رہا ہے کہ اگر آئندہ ملک میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو معیشت کا پہیہ بند نہ ہو۔ ہم بھی مستقبل کو دیکھتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔ملک میں سپیشل اکنامک زونز قائم کیے جارہے ہیں۔ مظفر گڑھ لیہ روڈ پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا انڈسٹریل زون بنا رہے ہیں۔ اس کیلئے 20 ہزار ایکڑ زمین موجود ہے جسے 55 ہزار ایکڑ تک لے کر جائیں گے۔ اس حوالے سے ویژن یہ ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے فارغ ہونے والی لیبر کو یہاں روزگار دیا جائے۔ اس میں چین کا تعاون حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں گے کیونکہ چین اپنی صنعت دنیا کے مختلف ممالک میں منتقل کر رہا ہے، اگر ہمیں اس کا 2 فیصد حصہ بھی مل گیا تو معیشت مستحکم ہوجائے گی۔ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر توجہ دے رہی ہے، ملک میں جہاں بھی انڈسٹریل زون قائم کیے جا رہے ہیں وہاں کے بزنس چیمبرز سے لازمی مشاورت کی جاتی ہے، ہم مقامی صنعت کو فروغ دے رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے آغاز سے ہی وزیراعظم عمران خان کو غریب، مزدور اور مستحق افراد کی فکر تھی، ماہرین صحت لاک ڈاؤن تجویز کر رہے تھے مگر معاشی ماہرین کہہ رہے تھے کہ لوگ بھوکے مر جائیں گے لہٰذا وزیراعظم نے عوامی مفاد میں معاملات چلانے کا فیصلہ کیا۔ہم نے عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن کے مطابق حفاظتی اقدامات ضرور کیے مگر اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے ان میں کچھ تبدیلیاں بھی کی یہی وجہ ہے کہ ہمیں معاشی لحاظ سے بہت بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لوگوں کو آج بھی خوراک و دیگر اشیاء میسر ہیں۔ حکومت نے وزیراعظم کی ہدایت پر احساس پروگرام کا آغاز کیا اور میرٹ پر مستحق افراد میں 12 ہزار فی کس تقسیم کیے گئے اور اس میںکوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔کسی ایم پی اے، ایم این اے نے سفارش نہیں ہے۔ اراکین اسمبلی کو خود نہیں پتہ کہ  کس کو ملے ہیں۔ مستحق مرد و خواتین کو بلاامتیاز رنگ، نسل، علاقہ، سیاسی و مذہبی وابستگی کے، امدادی رقم فراہم کی گئی جس سے ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہوئی۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں اربوں روپے کا ریلیف دیا۔ کاروباری افراد کو بھی بہت بڑا ریلیف دیا گیا۔ مزدوروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے سٹیٹ بینک نے مالکان کو قرضے دیے۔ نئی مشینری کی امپورٹ ڈیوٹی کم کر دی گئی، شرح سود 13 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دی گئی، کنسٹرکشن کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی، ٹیکس کم کر دیے گئے اور اس طرح کے بے شمار انقلابی اقدامات سے لوگوں کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کی تاریخ پہلی مرتبہ پراپرٹی کے حوالے سے مختلف ٹیکس 6 فیصد سے 2 فیصد کر دیے۔ اس سے حکومت پنجاب کو اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر کنسٹرکشن انڈسٹری میں بہتری آئی اور لوگوں کو روزگار ملا۔ چھوٹے کاروبار کیلئے پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کا 12 ارب روپیہ ’اخوت فاؤنڈیشن‘ کے پاس ہے جو لوگوں کو 50 ہزارروپے تک کے بلاسود قرضے فراہم کر رہا ہے۔ ان کی ٹیم جاتی ہے اور چند گھنٹوں میں ہی قرض دے دیا جاتا ہے۔ اس قرض کی واپسی کی شرح 99 فیصد ہے جو قابل تحسین ہے۔ ہم نے اس رقم کو 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے لوگوں کو کاروبار میں بہت زیادہ آسانی ہوگی۔ بڑے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے اور کورونا وائرس سے متاثرہ کاروبار کو ترقی دینے کیلئے حکومت نے بجٹ میں ساڑھے 9 ارب روپے رکھے ہیں، پنجاب بینک کے تعاون سے اسے 25 ارب تک لے کر جائیں گے اور اس پر شرح سود صرف 2 فیصد ہوگی۔ اس قرض سے کاروبار کو فروغ ملے گا نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہوگی بلکہ بڑے پیمانے پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب (نمائندہ سول سوسائٹی )

کورونا وائرس عہد حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور زندگی کاایسا کوئی پہلو نہیں ہے جو اس سے متاثر نہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس نے طرز زندگی بدل دیا ہے اور نئی جہتیں متعارف کروادی ہیں۔ گھریلو زندگی سے لے کر سماجی زندگی تک، ہر چیز میں تبدیلی آئی ہے لہذا ہمیں آئندہ کیلئے اپنے رویوں کو از سر نو متعین کرنا پڑے گا۔ سیلاب یا زلزلہ کسی علاقے تک محدود ہوتا ہے مگر کورونا وائرس ایسا چیلنج ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ میرے نزدیک یہ پوری انسانیت کا چیلنج ہے اور اس میں ایثار، قربانی، تخلیق، وسائل، سیاسی ول، سمجھ بوجھ اور سوچ و فکر چاہیے کہ ہم نے آگے کیا کرنا ہے اور ماضی میں ایسی بیماریوں کے حل کیلئے کیا کیا گیا۔ کورونا وائرس نے ہمارے کاروبار کے انداز اور ملازمت کو بدل دیا ہے۔ اس کے مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ آن لائن میٹنگز ہورہی ہیں۔ تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا ہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ ہم بہت سارے ایسے کام کر رہے تھے جو آن لائن زیادہ بہتر ہوسکتے تھے اور اس میں خرچ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کی زندگی کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ زندگی کیسی ہوگی۔ یہ صرف معاشی حوالے سے نہ ہو بلکہ سماجی تعلق اور سیاسی وابستگی کا بھی جائزہ لیا جائے۔ شاید اب سیاستدان ایک جگہ ہزاروں کے اکٹھ سے خطاب نہیں کرسکیں گے۔اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں لہٰذا تحقیق کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کی جائے کہ مستقبل میں کیا چیلنجز آرہے ہیں، سول سوسائٹی،، حکومت و دیگر اداروں نے اس میں کیا کرنا ہے، غربت کے خاتمے، تعلیم اور صاف پانی کی فراہمی کیسے ہوگی، لوگوں کو بنیادی سہولیات کس طرح دی جائیں گی، ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ہوگا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے پاکستانیوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، حکومت، سماجی ادارے، مخیر حضرات، مقامی افراد سب ہی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ حکومت ایک ویژن کے تحت کورونا وائرس اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے مگر اس پر عملدرآمد کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انتہائی اہم ہے، اس پر کام ہونا چاہیے۔ درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے تعلیمی اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی، مزدور یونین، بزنس چیمبرز، علماء سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور مستقبل کا لائحہ عمل بنایا جائے۔ دینی اداروں، مساجد و دیگر عبادتگاہوں نے کورونا کے حوالے سے مثبت پیغام دیا۔ حکومت ان کے ساتھ مل کر مزید معاملات پر کام کرے۔ یہ خوش آئند کے کہ حکومت پنجاب نے مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کی اور ان کو آن بورڈ لے کر مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ 50 سے 60 ہزار افراد کو وزیراعلیٰ خود روزگار سکیم کے تحت چھوٹے بلاسود قرضے دیے جارہے ہیںجن سے وہ بیوٹی پارلرز، رکشہ ، ریڑھی ودیگر کام کرکے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ یہ پیسہ مارکیٹ میں آتا ہے اور اس سے نہ صرف چھوٹے کاروبار کرنے والوں بلکہ دیگر افراد اور حکومت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اگر اس تعداد کو بڑھا دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ کورونا وائرس میں بھی نچلی سطح پر کاروبار چل رہا ہے تاہم بڑی صنعتیں و فیکٹریاں بند ہوئی ہیں، ان کو کھولنے کیلئے بھی حکومت اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت کی ہاؤسنگ پالیسی بہترین ہے۔ کنسٹرکشن سے 40 سے زائد کاروبار جڑے ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں سے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے۔  پاکستان میں 90 لاکھ خاندانوں کو گھر چاہئے، لوگوں کو 2، 3 اور 5 مرلہ کے چھوٹے گھروں کیلئے قرض فراہم کیا جائے، اس سے معیشت کا پہیہ چلے گا اور جلد مستحکم ہوجائے گی۔ میگا پراجیکٹس سے بھی ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا اور ہزاروں کا ہی کاروبار چلے گا۔ اس پر توجہ کی جائے۔

مبارک سرور (نمائندہ سول سوسائٹی )

کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ کاروبار اور صنعتیں بند ہوگئی جس سے لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے آغاز سے ہی مشکلات پیش آئی اور لوگوں کا روزگار متاثر ہوا۔ کورونا وائر س کی مشکل صورتحال میں سماجی اداروں نے حکومت کے ساتھ مل کر بڑے کام کیے ہیں۔ حکومت کے وضع کردہ ’ایس او پیز‘ اور کورونا وائرس کی آگاہی دینے سے لے کرراشن اور روزگار کی فراہمی تک، سماجی اداروں نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے۔ سماجی ادارے کورونا وائرس کے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے اب تک اربوں روپے خرچ کر چکے ہیں جس میں میڈیا و سوشل میڈیا پر آگاہی مہم، ہسپتالوں میں سہولیات، ماسک، سینی ٹائزر، مفت پی پی ای کٹس و دیگر اقدامات شامل ہیں۔ حکومتی ادارے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں جو سماجی اداروں کو ساتھ ملانے کی پالیسی بھی بناتے ہیں۔ احساس کفالت پروگرام بہترین ہے ،اس سے غرباء اور مستحقین کو ریلیف ملا تاہم 12 ہزار روپے میں گھر چلانا بہت مشکل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ دیہاڑی دار مزدور طبقہ ہے جو روزانہ کماتا اور روزانہ ملنے والی اجرت سے گھر چلاتا ہے۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں حکومت سب کو گھر پر خوراک و دیگر امداد فراہم نہیں کرسکتی، مستحق افراد کی مدد کیلئے سماجی اداروں نے بھی بہت کام کیا ہے۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ ہوا ہے۔ان کے  روزگار کی بحالی کیلئے حکومت نے ایس او پیز کے تحت بعض فیکٹریاں و شعبے کھولے ہیں مگر ابھی بھی بے شمار لوگوں کا روزگار متاثر ہے۔ حکومت، سماجی ادارے اور نجی شعبہ مل کر لوگوں کی فلاح کیلئے کام کر رہا ہے، یقین ہے جلد مشکل صورتحال سے نکل جائیں گے۔ عالمی اداروں نے حکومت کی کارکردگی کو سراہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کورونا وائرس کے دوران بھوک کی وجہ سے کوئی بھی موت نہیں ہوئی ، اس میں سماجی اداروں کابھی بہت اہم اور موثر کردار ہے جنہوں نے گھر گھر جاکر لوگوں کی مدد کی۔حکومتی اداروں کو سماجی اداروں کے ساتھ کوروابط کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔ حکومت نے حال ہی میں ’’پنجاب چیریٹی کمیشن‘‘ بنایا ہے، اس حوالے سے سماجی اداروں کے ساتھ مشاورت کی جائے اور ممکنہ مسائل کو حل کیا جائے تاکہ سماجی اداروں کو کام کرنے کیلئے بہترین ماحول فراہم کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔