عثمان بزدار : کارکردگی کے تناظر میں

مزمل سہروردی  پير 20 جولائی 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اب یہ تو خبر ہی نہیں رہی کہ عثمان بزدار کے خلاف سازش ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سازش ہر بار ناکام کیوں ہو جاتی ہے۔ سازش کرنے والوں کو ان عوامل پر غور کرنا چاہیے کہ آخر ان کی اتنی کامیاب سازشیں اتنی بری طرح ناکام کیوں ہو جاتی ہیں۔ مخالفین ایک مرتبہ یہ ماحول بنانے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں کہ عثمان بزدار جا رہے ہیں لیکن پھر سارا ماحول اس طرح زمین بوس ہو جاتا ہے کہ کسی کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔

مخالفین اپنی چالوں کا سارا تانا بانا اس بات  کے گرد بنتے ہیں کہ عثمان بزدار کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن سازش کی بنیاد اتنی ہلکی اور کھوکھلی ثابت ہوتی ہے کہ کھڑے ہونے سے پہلے ہی ڈوب جاتی ہے۔ جب عثمان بزدار سے ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میری کارکردگی کو تحریک انصاف کے منشور، بیانیہ اور وعدوں کے تناظر میں دیکھا جائے۔ میری کارکردگی کو جب بھی شہباز شریف کی نظر سے دیکھا جائے تو آپ کو میری کارکردگی ٹھیک نہیں لگے لگی۔

لیکن اگر آپ تحریک انصاف کے منشور کے تناظر میں میری کارکردگی دیکھیں تو آپ کو ٹھیک نظر آئے گی۔ ان کی رائے میں شہباز شریف سے مرعوب لوگ ان کی کارکردگی کو شہباز شریف کی کارکردگی کے تناظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے انھیں ان کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف نے  انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت کا فوکس صحت اور تعلیم پر ہو گا۔ اس لیے عثمان بزدار کے ناقدین کو ان کی کارکردگی کو میٹروز اور میگا منصوبوں کے بجائے صحت اور تعلیم میں کام پر جانچنا ہو گا۔

پنجاب میں اس وقت نو بڑے اسپتال بن رہے ہیں۔ جن میں ملتان میں نشتر ٹو لاہور گنگا رام ٹاور ڈیرہ غازی خان، راجن پور سمیت دیگر اسپتال شامل ہیں۔ اسپتال کوئی پل نہیں جو نوے دن میں بن جائیں۔ ان کے بننے میں ایک ٹائم لگتا ہے۔ اس لیے ان نو بڑے اسپتالوں کی تکمیل میں ابھی وقت لگے گا۔ لیکن جب یہ نو بڑے اسپتال بن جائیں گے تو پنجاب میں صحت کی سہولیات میں انقلابی تبدیلی آجائے گی۔ یہ درست ہے کہ اس سے پہلے فوکس لاہور رہا ہے لیکن اس بار تو تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں یہ طے کیا تھا کہ ترقی میں پیچھے رہنے والے اضلاع اور جنوبی پنجاب فوکس ہوگا ۔ اسی لیے نئے اسپتالوں میں بھی جنوبی پنجاب اور ترقی سے محروم اضلاع پر فوکس رکھا گیا ہے۔

ماضی کی حکومتوں نے ان اضلاع میں کام ہی اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہاں کام کرنے کا کریڈٹ کم ملتا ہے۔ جب کہ لاہور اوربڑے شہروں میں تھوڑا کام کرنے سے بھی بڑا کریڈٹ ملتا ہے۔ شاید اس وقت عثمان بزدار بھی اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہیں۔ چھوٹے اضلاع میں بننے والے بڑے اسپتالوں کا وہ شور نہیں ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بہر حال یہ اسپتال بن رہے ہیں۔ ان پر کام شرو ع ہو گیاہے۔ حال ہی میں گجرات میں مدر اینڈ چائلڈ کئیر اسپتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس لیے جتنا کام صحت کے شعبہ میں عثمان بزدار کے دور میں ہوا ہے اس کا مقابلہ ماضی کی حکومتوں سے اور تحریک انصاف کی کے پی یا مرکز کی حکومت سے کر لیا جائے تو عثمان بزدار کی کارکردگی یقیناً سب سے بہتر ہو گی۔

اسی طرح تعلیم میں بھی اگر دیکھا جائے تو عثمان بزدار نے پنجاب کے ہر ضلع میں نئی یونیورسٹی بنانے کا جامع اور مربوط منصوبہ شروع کیا ہے تا کہ ہر ضلع میں اعلیٰ تعلیم کے مواقعے پیدا کیے جا سکیں۔ ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانا بھی کسی پل یا میٹرو بنانے سے یقیناً مشکل کام ہے۔ ایک یونیورسٹی بنانے کے لیے نہ صرف قانون سازی کرنا ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے ایک بڑے انفرااسٹرکچر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بننے کا شور کم ہے۔ کیونکہ اگر لاہور میں نئی یونیورسٹی بنائی جائے تو اس کا شور زیادہ ہے۔

اگر عثمان بزدار کو اپنی مدت مکمل کرنے کا موقع مل جائے تو وہ پنجاب میں اتنی نئی یونیورسٹیاں بنا جائیں گے کہ تحریک انصاف سرخرو ہو جائے گی۔ ان سب کاموں کا شور میٹروز سے کم ہے۔ اور میٹروز سے مرعوب لوگ ہی عثمان بزدار کے ناقدین میں شامل ہیں۔ میں میٹروز کا مخالف نہیں ہوں لیکن اگر تحریک انصاف کے منشور کی بات کی جائے تواس میں میٹروز کے بجائے اسپتال اسکول اور جامعات بنانے کا اعلان شامل تھا۔ اس لیے عثمان بزدار کے موقف میں اس حد تک تو بہت جان ہے کہ ان کی کارکردگی کو شہباز شریف کے تناظر میں نہیں بلکہ تحریک انصاف کے منشور اور بیانیہ کے تناظر میں دیکھا جائے۔

پنجاب میں امن و امان کو ہی اگر دیکھا جائے تو عثمان بزدار کی کارکردگی نظرآئے گی۔ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ میں پنجاب کا امن و امان بہتر رہا ہے۔ قبضہ مافیا کے خلاف کامیاب کریک ڈائون ہوا ہے۔ اربوں روپے کی سرکاری زمینیں واگزار کرائی گئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سرکاری زمین پر قبضہ تو بڑی خبر ہے لیکن قبضہ واگزار ہو جانا چھوٹی خبر ہے۔ اسی طرح عثمان بزدار کے دور میں ابھی کرپشن کا کوئی میگا اسکینڈل بھی نہیں آیا ہے۔ ان کا دامن بھی تمام تر سازشوں اور میڈیا ٹرائل کے باوجود صاف ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عثمان بزدار پنجاب میں ایک شفاف حکومت چلا رہے ہیں۔ ان کی نسبت مرکزی حکومت میں کئی اسکینڈل سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح کے پی حکومت میں بھی کئی اسکینڈل سامنے آئے ہیں۔ لیکن عثمان بزدار کی حکومت کا ابھی تک کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ دوست چینی اسکینڈل کی بات کریں گے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ اس میں عثمان بزدار کے ہاتھ شفاف ہیں۔ ان پر کوئی الزام نہیں۔کیا شفافیت گڈ گورننس کا بنیادی پیمانہ نہیں ہے۔ لیکن شاید ناقدین کی نظر میں یہ کوئی پیمانہ نہیں ہے۔

عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ سیاسی حکمت عملی بھی بہت کامیاب نظر آ رہی ہے۔ پنجاب کی حکومت ایک اتحادی ق لیگ کی مرہون منت ہے۔ مرکزی حکومت میں کئی، اتحادی ہیں اس لیے ایک کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ لیکن پنجاب میں ق لیگ اکلوتی اتحادی ہے۔ یہی ق لیگ مرکز میں ناراض ہے لیکن پنجاب میں عثمان بزدار سے بہت خوش ہے۔ بلکہ جب تحریک انصاف کے اندر سے عثمان بزدار کے خلاف سازش ہوتی ہے تو چوہدری عثمان بزدار کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آپ منظر نامہ کو الٹ کر دیکھیں کہ اگر عثمان بزدار ق لیگ کو ناراض کر دیں تو کیا ہو گا ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی استحکام ختم ہو جائے گا۔ اگر ق لیگ پنجاب میں ناراض ہو جائے گی تو مرکز سے بھی نکل جائے گی۔ آج مرکز میں شدید ناراضگیوں کے باوجود ق لیگ صرف عثمان بزدار کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے حکومت کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ پنجاب کا سیاسی استحکام بھی عثمان بزدار کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ دوست تو چاہتے  ہیں کہ پنجاب میں ایک ایسا سیاسی بحران پیدا ہو جائے کہ ایسا لگے کہ آج حکومت گئی کل گئی۔ شاید عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوشش کرنے والے بھی یہی چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان سیاسی طور پر ایک مستحکم حکومت ختم کر کے ایک غیر مستحکم حکومت کیسے لے آئیں۔ اس کی سیاسی بساط پر کتنی گنجائش ہے۔

عمران خان کو نہ تو عثمان بزدار کی شکل پسند ہے اور نہ ہی انھیں عثمان بزدار سے کوئی جذباتی لگائو ہے، جو عمران خان اسد عمر اور جہانگیر ترین کو سائیڈ لائن کر سکتا ہے اس کے لیے عثمان بزدار کو سائیڈ لائن کرنا کونسا مسئلہ ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اور کوئی جانے یا نہ جانے لیکن عمران خان جانتے ہیں کہ مرکزی حکومت سے تو شاید ڈیلیو ری مشکل ہے لیکن عثمان بزدار جو کام کر رہے ہیں اگر وہ مکمل ہو گئے تو تحریک انصاف کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہو جائے گا۔ ہم صحت اور تعلیم میں اپنے وعدے تو پورے کرنے کا کہہ سکیں گے۔ اس لیے عثمان بزدار کو قائم رکھنے میں ہی تحریک انصاف اور عمران خان کا فائدہ ہے۔

یہ بات درست ہے کہ عثمان بزدار میڈیا فرینڈلی نہیں ہیں۔ وہ بڑے کالم نویسوں اور اینکرز کے ساتھ وہ دوستی اور تعلقات نہیں بناتے ہیں جو ماضی کے وزراء اعلیٰ بناتے تھے۔ اس لیے ان کے جانے کی خبروںکا شور زیادہ مچ جاتا ہے۔ ایک بڑے کالم نویس ان کے جانے کے حوالہ سے اب تک گیارہ کالم لکھ چکے ہیں، لیکن وہ پھر بھی بچ جاتے ہیں۔ بس یہی سیاست ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔