بینکوں کے باہر لائن کب ختم ہوگی؟

حسن امتیاز  بدھ 22 جولائی 2020
اگر بینکوں میں مناسب اسٹاف رکھا جائے تو لمبی لائنز کیوں بنیں گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر بینکوں میں مناسب اسٹاف رکھا جائے تو لمبی لائنز کیوں بنیں گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم پاکستان، گورنر آف اسٹیٹ بینک اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداران اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ معیشت میں نقد رقوم کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کی بھی اولین خواہش ہے کہ معیشت کو جلد از جلد دستاویزی کیا جائے اور ریاست کی آمدنی بڑھانے کےلیے خودکار نظام قائم کیا جائے۔

پاکستان کی آبادی کی نہایت ہی قلیل تعداد بینکنگ نظام سے منسلک ہے۔ جب کہ اردگرد کے ممالک میں بینکوں کے کھاتہ داروں کی شرح ہم سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا بینکنگ نظام اس قلیل تعداد کو بھی سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

 

کیا بینک خسارے میں کام کررہے ہیں؟

اگر آپ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ نے اس قسم کی تجارتی خبریں پڑھی ہوں گی کہ فلاں پاکستانی بینک کو اس سال/ ششماہی میں قبل از ٹیکس اتنے ہزار ارب روپے منافع ہوا۔ پاکستان میں بینک اور دیگر مالیاتی ادارے قومی بچت وغیرہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زیر نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے کچھ امور میں کارکردگی اور عوام کو دستیاب بنیادی سہولتوں کو دیکھنا بنیادی طور پرا سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمے داری ہے۔ پاکستان میں تقریباً تمام ہی بینک اور مالیاتی ادارے بے شمار منافع کما رہے ہیں۔ بینک اپنی خدمات کےلیے عوام سے اپنی مرضی سے معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ آپ کو ہر چھ ماہ بعد بینک کے شیڈول آف چارجز میں تبدیلی کی اطلاع ملتی ہوگی۔

بینکوں کی مرکزی منیجمنٹ اس سلسلے میں تقریباً خودمختار ہوتی ہے۔ اس کے آپشنز فیصلوں میں نہ تو اسٹیٹ بینک مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی حکومت یا مرکزی بینک کو کسی بھی کاروبار میں اس طرح کی مداخلت کرنی چاہیے۔

آپ پاکستان کے کسی بھی شہر کی گنجان آبادی کی برانچ میں جائیں تو آپ کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ کام جو صرف چند منٹوں میں مکمل ہونا چاہیے، اس کی تکمیل کےلیے آپ کو کافی دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔

بینکوں میں اسٹاف کی شدید کمی اور نامناسب رویہ، جن برانچز میں بے پناہ رش ہوتا ہے، اس کی واحد وجہ اسٹاف کی کمی ہے۔ شاید بینک زیادہ منافع کے چکر میں عملے کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں کرتے ہیں۔ اگر دو کی جگہ پانچ افراد صارفین کو خدمات فراہم کریں تو لائن کیوں بنے گی؟ اوپر سے اسٹیٹ بینک، بینکوں کے کام کرنے کے اوقات کار کم سے کم کرتا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بینکوں کا عملہ شدید بددلی کا شکار ہے اور وہ ناکافی بنیادی سہولیات، آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا نہ ہونا، کام کی زیادتی اور کم معاوضہ کی وجہ سے صارفین پر اپنا غصہ نکالتا ہے۔ معلوم نہیں بینک کی منیجمنٹ اپنے اسٹاف کی تربیت اور کام کرنے کی صلاحیت بڑھانے کےلیے کسی اصلاحی تربیت کا انتظام بھی کرتی ہے یا نہیں؟ ہمیں تو عموماً اسٹاف کی کارکردگی سے مایوسی ہوتی ہے۔

 

عوام کو پریشان کرنے کا کیا فائدہ؟

بطور صارف مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بینکوں میں اسٹاف کی کمی کیوں ہے؟ پاکستان میں افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں۔ مارکیٹ میں نوکری کی تلاش میں ڈگری ہولڈرز بے روزگاروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اور اضافی اسٹاف کی تنخواہ بھی صارفین نے ہی ادا کرنی ہے۔ یعنی اگر بینک زیادہ اسٹاف رکھیں، تاکہ صارفین کا پانچ منٹ کا کام گھنٹوں انتظار کے بعد نہ ہو، اور اضافی اسٹاف کی تنخواہ اپنی خدمات کے معاوضہ میں اضافے سے پوری کریں۔ تو کون انکار کرے گا؟

 

مرکزی بینک اور صارفین کے حقوق

بطور بلاگر میرے پاس اس بارے میں معلومات نہایت ہی کم ہیں کہ مرکزی بینک کی صارفین کے حقوق کے بارے میں پالیسیاں کیا ہیں؟ جس طرح ریلوے پھاٹک کے باہر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ پھاٹک زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ بند سکتا ہے تاخیر کی صورت میں شکایات رجسٹر پر درج کریں۔ معلوم نہیں اسٹیٹ بینک میں جواب دہی کا کوئی نظام قائم ہے یا نہیں؟ کیا اسٹیٹ بینک نے بینکوں کےلیے کوئی اصول و ضوابط تیار کر رکھے ہیں؟ یعنی بینک برانچ کےلیے کم از کم کتنی جگہ ہونا لازمی ہے۔ برانچ میں پارکنگ، صارفین کے بینک کے اندر اور باہر سایہ دار بیٹھنے کےلیے کم از کم کتنی جگہ ہونی چاہیے؟ کتنے صارفین کےلیے کتنا عملہ ہونا لازمی ہے؟ ایک صارف کے کام کی تعمیل کتنی دیر میں لازمی ہونی چاہیے؟

 

اسٹیٹ بینک انتظامیہ کی ناکامی؟

بدقسمتی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یا تو مرکزی بینک نے صارفین کے حقوق کے تحفظ کےلیے کوئی پالیسی ترتیب دی ہی نہیں یا پھر اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ ان پالیسوں کو نافذ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ چند سال میں بہتری آئی۔ مرکزی بینک نے بڑی تعداد میں نجی بینکوں اور مائیکرو فائنانس بینکوں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ سرکاری اور نجی بینکوں نے اپنے نظام کو جدید اور خودکار بینکنگ کےلیے اچھی سرمایہ کاری کی ہے۔ جس سے پہلے کی نسبت نہ صرف بینکوں کی آپریشنل کاسٹ میں کمی آئی ہے، بلکہ صارفین کو زیادہ بہتر سہولیات میسر ہورہی ہیں۔ لیکن بینکوں اور اے ٹی ایم کے اندر اور باہر قطاروں میں اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں۔

حکومت اور اسٹیٹ بینک انتظامیہ کو اپنے طریقہ کار اور حکمت عملی پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ بہتر حکمت عملی، نگرانی، جوابدہی کےلیے جدید اور موثر طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔ بینک انتظامیہ کو جلداز جلد صارفین کو بہتر سہولیات اور عزت و وقار دینا ہوگا۔ یہ بینکوں کی انتظامیہ کا ہم پر احسان نہیں بلکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حسن امتیاز

حسن امتیاز

حسن امتیاز لاہور کی آئی ٹی فرم ہائی راک سم میں مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ شخصیت میں بہتری کا جذبہ پیداکرنےوالی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔