آکسفورڈ کی کورونا ویکسین کے ابتدائی تجربات امید افزا ثابت

ویب ڈیسک  منگل 21 جولائی 2020
آکسفورڈ کے سائنسدانوں کی تیارکردہ کورونا وائرس ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: فائل

آکسفورڈ کے سائنسدانوں کی تیارکردہ کورونا وائرس ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: فائل

آکسفورڈ: کورونا وائرس کے لیے ایک عرصے سے انتظار کی جانے والی آکسفورڈ کے سائنسدانوں کی وضع کردہ ویکسین سے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور امنیاتی ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔

پہلی آزمائش میں کل 1077 افراد کو ویکسین دی گئی ہے اور ٹیکے لگنے کے بعد ان کے جسم کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز (امنیاتی خلیات) کی زائد مقدار بنانے لگے۔ ماہرین نے محتاط اندازے کے باوجود بھی اسے ایک غیرمعمولی امید افزا کامیابی قرار دیا ہے۔

اگرچہ مکمل صورتحال واضح ہونے میں وقت لگے گا لیکن حکومتِ برطانیہ نے ایسی دس کروڑ ویکسین تیار کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

ویکسین کا تعارف اور طریقہ کار

اس ویکسین کو ChAdOx1 nCoV-19 کا طویل نام دیا گیا ہے جسے ماہرین نے برق رفتاری سے تیار کیا ہے۔ اسے بنانے  کے لیے چمپانزیوں کو عام سردی (کولڈ) کا شکار کرنے والے وائرس کو جینیاتی انجینیئرنگ کی مدد سے تبدیل کیا گیا ہے۔ اس وائرس کو بڑے پیمانے پر بدلا گیا ہے تاکہ ایک جانب تو لوگ انفیکشن سے متاثر نہ ہوں اور دوسری جانب یہ شکل بدل کر ’کورونا‘ وائرس کا نقال بن چکا ہے۔

سائنسدانوں نے ویکسین سازی  کے لیے کورونا وائرس کے پروٹین کی جینیاتی معلومات کو کولڈ بیماری کے وائرس میں داخل کیا ہے کیونکہ یہی پروٹین انسانی خلیات پر حملہ آور ہوکر انہیں بیمار کرتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ ویکسین عام کورونا وائرس کی طرح ہوگئی اور انسانی امنیاتی (قدرتی دفاعی ) نظام اسے دشمن سمجھتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوا اور اس عمل میں جسم قدرتی طور پر ٹی سیلز اور اینٹی باڈیز پیدا کرنے لگا۔

انٹی باڈیز اور ٹی سیلز کیا ہوتے؟

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہم نے اینٹی باڈیز پر خصوصی توجہ دی ہے لیکن یہ مرض کے خلاف امنیاتی دفاع کا صرف ایک چھوٹا حصہ ہے۔

یاد رہے کہ اینٹی باڈیز چھوٹے چھوٹے پروٹین ہوتے ہیں جو وائرس کی سطح سے چمٹ جاتے ہیں۔ اینٹی باڈیز کورونا وائرس کو بے بس کرسکتی ہیں۔

دوسری جانب ٹی سیلز خون کے سیفد خلیات ہوتے ہیں جو امنیاتی نظام سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ یہ بھی بھانپ لیتے ہیں کہ جسم کا کونسا خلیہ انفیکشن سے متاثرہ ہے ۔ اس کے بعد ٹی سیل متاثرہ خلیے کو تباہ بھی کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھی ویکسین میں اس مرض سے لڑنے والی اینٹی باڈیز اور ٹی سیل دونوں ہی پائے جاتے ہیں۔

ویکسین دینے کے بعد جب مریضوں کے نمونے لئے گئے تو ویکسین دینے کے صرف 14 دن بعد ہی ٹی سیل کی تعداد اپنی بلند ترین سطح پر جاپہنچی۔ اسی طرح 28 روز بعد اینٹی باڈی کی سطح کا گراف اپنی بلندیوں پر تھا۔ لیکن مطالعے کو بہت وقت نہیں دیا گیا کہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ سلسلہ کتنی دیر تک برقرار رہ سکتا ہے۔

آکسفورڈ ریسرچ گروپ کے سربراہ پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی سیل اور اینٹی باڈیز دونوں کو ہی مؤثر دیکھا گیا ہے۔

لیکن انہوں نے کہا کہ کیا یہ ویکسین واقعی تحفظ فراہم کرسکے گی، اور کس طرح؟ اس کے لیے ہم سب کو انتظار کرنا ہوگا۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ایک ہی خوراک کے بعد 90 فیصد لوگوں میں مرض تعدیل کرنے والی یعنی نیوٹریلائزنگ اینٹی باڈیز بننے لگیں۔ صرف دس فیصد افراد کو دوسری خوراک دی گئی۔ اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے شاید اس ویکسین کی دو خوراکیں درکار ہوں گی۔

کیا یہ ویکسین محفوظ ہے؟

اس کا جواب ہے کہ بظاہر ویکسین بالکل محفوظ ہے تاہم کچھ سائیڈ افیکٹس (ضمنی اثرات) ہوسکتے ہیں۔ رضاکاروں کی 70 فیصد تعداد نے بخار اور دردِ سر کی شکایت کی لیکن کوئی بھی پیچیدہ صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے لیے ماہرین نے پیراسیٹامول کھانے کا مشورہ دیا ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق اس ویکسین کو مزید وقت لگے گا اور مریضوں کو ایک طویل عرصے تک زیرِ مشاہدہ رکھا جائے گا۔ پھر اسے تمام انسانوں کے لیے موافق بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

اگلے مرحلے میں مزید ایک ہزار افراد پر ویکسین کی آزمائش کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔