ہارمون کے ذریعے کورونا وائرس کا نیا علاج سامنے آگیا

ویب ڈیسک  بدھ 22 جولائی 2020
انٹرفیرون بی-ٹا کو بخارات کی شکل میں، سانس کے ذریعے، مریضوں کے پھیپھڑوں تک براہِ راست پہنچایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انٹرفیرون بی-ٹا کو بخارات کی شکل میں، سانس کے ذریعے، مریضوں کے پھیپھڑوں تک براہِ راست پہنچایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: برطانیہ میں بایوٹیکنالوجی کی ایک کمپنی نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک خاص ہارمون استعمال کرتے ہوئے کووِڈ 19 کے علاج کی ثانوی طبّی آزمائشیں (فیز ٹو کلینیکل ٹرائلز) کامیابی سے مکمل کر لی ہیں۔ ان آزمائشوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ 101 افراد شریک ہوئے تھے جبکہ یہ آزمائشیں مارچ سے مئی تک جاری رہیں۔

’’سائنیئرجن‘‘ نامی بایوٹیکنالوجی فرم کے وضع کردہ اس طریقہ علاج کو ’’ایس این جی 001‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا انحصار ’’انٹرفیرون بی-ٹا‘‘ نامی ہارمون پر ہے۔ یہ ہارمون قدرتی طور پر انسانی جسم میں پایا جاتا ہے جو بیماریوں کے خلاف لڑنے والے، ہمارے مدافعتی نظام کو مستحکم بناتا ہے۔

البتہ یہی ہارمون بعض امراض میں انجکشن کے ذریعے بھی مریض کے جسم میں داخل کرکے بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔

سائنیئرجن کے طریقہ علاج میں ’’انٹرفیرون بی-ٹا‘‘ کو محلول کی شکل دی گئی جسے بخارات میں تبدیل کرکے، سانس کے ذریعے مریضوں کے پھیپھڑوں تک براہِ راست پہنچایا گیا۔

تین ماہ تک جاری رہنے والے ان تجربات سے معلوم ہوا کہ کووِڈ 19 کے جن مریضوں نے ’’اصلی‘‘ انٹرفیرون بی-ٹا استعمال کیا تھا، ان میں یہ بیماری شدید تر ہونے کا امکان ’’نقلی‘‘ (پلاسیبو) انٹرفیرون بی-ٹا استعمال کرنے والے مریضوں کے مقابلے میں 79 فیصد تک کم تھا۔

علاوہ ازیں، اصلی انٹرفیرون بی-ٹا استعمال کرنے والے مریض، دیگر مریضوں کے مقابلے میں جلدی اور مکمل طور پر صحت یاب بھی ہوگئے۔

یہ تجربات برطانیہ کے مختلف اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں پر کیے گئے جنہوں نے بطور رضاکار ان آزمائشوں میں شریک ہونے کی منظوری دی تھی۔

اس تحقیق کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انٹرفیرون قسم کے ہارمونز برسوں سے علاج معالجے میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ قرینِ قیاس ہے کہ ’انٹرفیرون بی-ٹا‘ جب بخارات کی شکل میں پھیپھڑوں تک براہِ راست پہنچتا ہے، تو ان میں جذب ہو کر یہ ناول کورونا وائرس کے خلاف ان کی قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتا ہے۔

واضح رہے کہ سائنیئرجن نے اپنی کامیابی کا اعلان ایک پریس ریلیز کی شکل میں کیا ہے۔ اگرچہ اس کی تائید بعض دوسرے طبی ماہرین نے بھی کی ہے لیکن اب تک یہ نتائج کسی تحقیقی مجلے (میڈیکل ریسرچ جرنل) میں شائع نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا ان نتائج کی باضابطہ اشاعت سے پہلے تک یہ طریقہ علاج آزمانے میں انتہائی احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔

مزید برأں، جب تک یہ طریقہ علاج ’’فیز تھری کلینیکل ٹرائلز‘‘ میں کامیاب نہیں ہوجاتا، تب تک عالمی طور پر اس کے استعمال کی منظور بھی نہیں دی جاسکے گی۔ اس مرحلے میں مزید چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔