اثاثہ جات کی غلط بیانی اور دہری شہریت

اعزاز کیانی  ہفتہ 25 جولائی 2020
وزیراعظم کے معاونین کے اثاثوں میں غلط بیانی اور دہری شہریت کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم کے معاونین کے اثاثوں میں غلط بیانی اور دہری شہریت کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومت پاکستان نے وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر ہماری روایت کے بالکل برعکس وزیراعظم کے تمام مشیران و معاونین سے متعلقہ تفصیلات کو عوامی جانکاری کےلیے عام کردیا ہے۔ یہ ایک انتہائی مثبت اقدام ہے اور بہرصورت اس کی توصیف کی جائے گی۔

ان تفصیلات کے منظرعام پر آنے کے ساتھ ہی دو مختلف موضوعات پر بحث کا آغاز کا ہوگیا ہے۔ پہلا اعتراض معاونین و مشیران کی دہری شہریت اور دوسرے ممالک کی مستقل سکونت سے متعلق اٹھایا جارہا ہے۔

دہری شہریت یا مستقل سکونت کا مسئلہ قانونی نہیں بلکہ اخلاقی نوعیت کا ہے۔ آئین میں دہری شہریت کی ممانعت مجرد ان لوگوں کےلیے ہے جو براہِ راست انتخابی عمل کا حصہ بن کر مجلس عامہ یا کابینہ کا حصہ بنتے ہیں۔ مشیران و معاونین کا انتخاب وزیراعظم کا استحقاق ہے اور ان کےلیے آئین پاکستان میں ایسی کوئی تحدیدی شق موجود نہیں ہے۔

مشیران و معاونین کی دہری شہریت سے متعلق حزب اختلاف کا موقف اگرچہ اصولاً درست ہے مگر اپنی نوعیت میں قانونی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ وزیراعظم پاکستان ماضی میں متعدد بار دہری شہریت پر تعریضی و تنقیدی بیانات دے چکے ہیں اور اب حزب اختلاف انہی بیانات کی روشنی میں معترض ہے۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنے بیانات اور اصولی موقف سے روگردانی کی ہے، بلکہ ایسے معاملات کی ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ایمنسٹی اسکیم، کابینہ میں وزرا و مشیران کی تعداد اور پی ٹی وی فیس وغیرہ۔ ان تمام معاملات پر وزیراعظم نے اپنے ہی اصولی موقف کو فراموش کیا ہے۔

دوسری بحث مشیران و معاونین کے اثاثہ جات کی مالیت و قیمت سے متعلقہ ہے۔

اثاثہ جات کی تفاصیل واضح طور پر بتاتی ہیں کہ کچھ مشیران و معاونین کے ظاہر کردہ اثاثہ جات کی قیمت و مالیت اور حقیقی قیمت و مالیت میں بُعدالمشرقین ہے۔ مثلاً ندیم بابر معاون خصوصی برائے پٹرولیم کے مری میں دو کنال کے گھر کی قیمت صرف بیس لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے۔ ندیم بابر ہی کے لاہور کے چار کنال کے گھر کی قیمت ایک کروڑ پچھہتر لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے۔ عاصم سلیم باجوہ کی ٹویوٹا زیڈ ایکس کہ قیمت مجرد تیس لاکھ، شہزاد اکبر کی ہنڈا وی ٹی آئی کی قیمت بائیس لاکھ، زلفی بخاری کی ٹویوٹا لینڈ کروزر کی قیمت بیس لاکھ اور شہباز گل کی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 43 لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے۔ یہ تمام قیمتیں حقیقی یا مارکیٹ کی قیمت سے بہت زیادہ کم ہیں۔

میرے نزدیک قیمتوں میں اس فرق کے اسباب نہایت واضح ہیں۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں جب کبھی اس طرح کی خرید و فروخت کی جاتی ہے تو اس خرید و فروخت میں اگرچہ فریقین پوری قیمت ادا کرتے ہیں اور پوری قیمت وصول کرتے ہیں مگر جب خرید و فروخت کا اندراج کرایا جاتا ہے تو کاغذات میں حقیقی قیمت کے بجائے اندازاً اور انتہائی کم قیمت کا اندراج کیا جاتا ہے اور یہ کاغذاتی قیمت ہی اس کی مالیت تسلیم کی جاتی ہے۔

مثلاً ایک شخص اگر بیس لاکھ کی اراضی خریدتا ہے تو وہ اس کی قیمت کو کاغذات میں (یا رجسٹری کے دوران) چار یا پانچ لاکھ درج کرے گا۔ یہی اس کی مالیت تسلیم کی جائے گی اور اگر کل وہ اس اثاثہ کو ظاہر کرے گا تو یہی اس اثاثہ کی سرکاری مالیت ہوگی۔

ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اول اثاثہ جات کی مجموعی مالیت کم ہو اور کسی تنقید و تعریض سے بچا سکے اور دوم اس لیے کہ ٹیکس بھی اسی کاغذاتی مالیت پر عائد ہوگا، جو ظاہر ہے حقیقی مالیت کے ٹیکس سے کئی گنا کم ہوگا۔

جائیداد کی خرید و فروخت کا یہ طریقہ اگرچہ قانوناً جرم ہے لیکن بدقسمتی یہ طریقہ پاکستان میں رواج عام کی حیثیت رکھتا ہے۔

مشیران و معاونین کی طرف سے اثاثہ جات کی خرید و فروخت کی اس بے ضابطی میں عمران خان اور تحریک انصاف اس اعتبار سے بری الذمہ ہیں کہ جائیداد کی خرید و فروخت ایک ذاتی و نجی معاملہ ہے، جو جماعت و قیادت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ البتہ بحیثیت حکومت اس بے ضابطی کا سدباب اور خرید و فروخت کے طریقہ کار میں اصلاحات حکومت وقت کی ذمے داری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اعزاز کیانی

اعزاز کیانی

بلاگر آئی ٹی کے طالبعلم ہیں، انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔