سی پیک اور چاہ بہار

سالار سلیمان  پير 27 جولائی 2020
پاکستان چاہ بہار سے مستفید ہوسکتا ہے تو ایران بھی سی پیک سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان چاہ بہار سے مستفید ہوسکتا ہے تو ایران بھی سی پیک سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

امریکا اور چین کی سرد جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ یہ جنگ ابھی لمبی چلے گی، حتیٰ کہ کوئی ایک جیت جائے۔ یہ جنگ خطے میں چوہدراہٹ کے ساتھ معیشت میں بھی چوہدراہٹ کا معاملہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ چین بہت تیزی سے امریکا کے سامنے معاشی چیلنج بنتا چلا جارہا ہے، اس کی غیر معمولی ترقی نے ہی امریکا کو مجبور کیا ہے کہ وہ چین پر معاشی پابندیاں لگانا شروع کرے۔

امریکا کی یہ جھنجھلاہٹ اس کی غیر اعلانیہ ہار کا اعلان بھی ہے۔ ایسے میں چین کےلیے بھی جوابی اقدامات کرنا ناگزیر تھا، جو اس نے کیے۔ اس کے بعد امریکی صدر نے خود چین کے خلاف ہتک آمیز بیانات دیے۔ جواب میں چین کے وزارت خارجہ نے امریکا کو ’شٹ اپ کال‘ دی۔ امریکا نے چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے پر پابندی عائد کردی۔ چین کےلیے فائیو جی ٹیکنالوجی کے حصول تک رسائی تقریباً ناممکن کردی لیکن اس کی جھنجھلاہٹ کی تب انتہا نہ رہی جب چین نے امریکا کو واضح کیا کہ وہ اپنے وسائل سے فائیو جی ٹیکنالوجی پر کام مکمل کرچکا ہے اور ہواوے پر لگنے والی پابندی کا جھٹکا بھی باآسانی سہہ سکتا ہے۔ ہواوے نے بھی اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر کرتے ہوئے امریکی منڈیوں سے باہر ایشیائی منڈیوں میں مضبوط قدم جمانے شروع کردیے، جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہواوے یورپ کی منڈیوں سے بھی گہرا استفادہ حاصل کرسکتا ہے۔

امریکی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی ناقص پالیسیوں نے چین اور امریکا میں خلیج بڑھائی، جو کہ مستقبل قریب میں ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ان کے مطابق ہونا یہ چاہیے تھا کہ امریکا چین کو ٹف ٹائم ضرور دیتا، اس کےلیے اپنے تجارتی معاملات کو بہتر کیا جاتا، مزید منڈیوں تک جایا جاتا، افریقہ کی صورتحال کو بہتر کرکے اس کو منڈی بنادیا جاتا۔ لیکن اس طرح سے پابندیاں عائد کرکے دنیا کو اپنی کمزوری کا پیغام نہ دیا جاتا۔

دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ کورونا وائرس امریکا اور چین کی جنگ کا ہی شاخسانہ ہے، جس کا خمیازہ یہ دنیا بھگت رہی ہے۔ اس میں حقیقت بھی ہوسکتی ہے۔ اور اصل میں حقیقت کیا ہے؟ اس کا راز کئی سال کے بعد ہی کھل سکے گا۔ اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ چین اس خطے میں امریکا کےلیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ امریکا کا خیال تھا کہ وہ بھارت کے کندھے پر تھپکی دے گا تو وہ چین کو ٹف ٹائم دے گا۔ لیکن یہاں امریکا کی تحقیق اور حساب کتاب غلط ثابت ہوئے۔ بھارت امریکا کی تھپکیوں کے باوجود بھی چین کو کسی بھی میدان میں ٹف ٹائم نہ دے سکا، بلکہ الٹا وہ اس خطے میں ہی تنہا ہونا شروع ہوگیا۔ اس کی حالیہ مثال ایران میں ہونے والی بڑی پیش رفت ہے جہاں ایران نے بھارت کو سائیڈ پر کرتے ہوئے چین سے تجارتی دوستیاں کرنا شروع کردی ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے معاہدے کے مطابق چین ایران میں اگلے 25 سال میں 400 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ 2018 میں حکومت کو ڈیفالٹ سے بچنے اور ملک چلانے کےلیے 6 ارب ڈالر درکار تھے۔ پاکستان اور چین کے سی پیک کا حجم اس وقت لگ بھگ 65 ارب ڈالر ہے۔ چاہ بہار گوادر سے 172 کلومیٹر دور ہے۔ یہ بھی گہرے پانیوں کی بندرگاہ ہے۔ جب پاکستان اور چین نے سی پیک شروع کیا تھا تو اس کے فوری بعد بھارت نے ایران سے مل کر چاہ بہار پورٹ پر کام کا اعلان کیا تھا۔ بھارت کا اصل ارادہ یہاں سے بیٹھ کر پاکستان میں پراکسی وار کو فروغ دینا اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ اس کی ایک مثال کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے انکشافات بھی ہیں۔

ایران بھی بھارت کی وجہ سے پاکستان مخالف کیمپ میں تھا اور اس کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی تھی۔ بھارت کا اس سارے معاملے میں محض یہی مقصد تھا کہ وہ چاہ بہار کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور سی پیک کو نقصان پہنچائے۔ یہ صورتحال جہاں پاکستان کےلیے ناقابل قبول تھی، وہیں چین کےلیے بھی ناقابل قبول ہی تھی اور یہی وجہ ہے کہ چند سال کی محنت اور بیک ڈور ڈپلومیسی کی وجہ سے ایران نے اب چین سے مصافحہ کیا ہے اور دوسری جانب بھارت کو چاہ بہار کے منصوبوں سے سائیڈ لائن کردیا ہے۔ ایران کے مطابق بھارت کا چاہ بہار سے ’مفتا‘ لگانے کا منصوبہ تھا۔ وہ صرف زبانی کلامی باتیں کررہا تھا جبکہ ایران ہی پیسہ لگارہا تھا۔ عالمی پابندیوں میں جکڑے ایران کےلیے سرمایہ کاری ایک مشکل کام ہے۔ لہٰذا صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران نے بھارت کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے چین سے دوستی کو بہتر خیال کیا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے بھارت میں بھی مودی حکومت پر شدید تنقید ہورہی ہے کہ بھارت نے پڑوسیوں سے تعلق امریکا کے کہنے پر خراب کیے ہیں، جبکہ امریکا کی تاریخ ہے کہ وہ کسی کا بھی دوست نہیں ہے اور وہ رنگ، نسل، مذہب دیکھے بغیر ممالک کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر نے بھارت کا نام لیے بغیر اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی ملک ایران سے تعلقات قائم رکھنے میں ہچکچاہٹ رکھے اور اس کو اپنے نارمل تعلقات کےلیے بھی دوسرے ممالک کی اجازت کی ضرورت ہو تو یہ واضح ہے کہ وہ طویل المدتی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے اہل نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بیان بھارت کے چاہ بہار تا زاہدان ریل منصوبے میں غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے دیا ہے، جس میں بھارت نے محض بیان بازی ہی کی ہے، عملی طور پر اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔

اصل سوال پاکستان کےلیے ہے۔ اس موجودہ صورتحال میں پاکستان کیا حاصل کرسکتا ہے اور اس حصول میں پاکستان کےلیے کیا چیلنجز ہیں؟

یہ بات بھی واضح ہے کہ چین، ترکی اور روس پر مشتمل اس خطے میں ایک نیا اتحاد بن رہا ہے، جس میں ملائیشیا سمیت خطے کے اہم ممالک بھی شامل ہوں گے۔ پاکستان ترکی اور چین کی وجہ سے قدرتی طور پر اس اتحاد میں موجود ہے اور اب ایران کی شمولیت اس اتحاد کو مزید مضبو ط بنائے گی۔ تاہم امریکی سازشوں کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے تعلقات زیادہ عرصے تک ٹھیک نہیں رہے ہیں۔ سوویت وار کے بعد سے پاکستان اور ایران الگ الگ کیمپوں میں رہے ہیں۔ پاکستان کے عرب ممالک سے تعلقات نے بھی ہمسائے سے تعلقات کو خراب کرنے میں کردار ادا کیا ہے اور دوسری جانب پراکسی وار نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں ممالک کے پاس دکھوں کی طویل داستان موجود ہے تاہم اب جب چین، پاکستان اور ایران میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے تو یہ دونوں ممالک کےلیے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو ٹھیک کرنے کا موقع ہے۔

ایک جانب پاکستان چاہ بہار سے مستفید ہوسکتا ہے تو ایران بھی گوادر اور سی پیک سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ بھارت کا اثر بھی ایران سے ختم ہورہا ہے تو اب پاکستان بھی ایران کو مختلف طریقے سے ڈیل کرے گا۔ جہاں تک سعودیہ اور ایران کے تعلقات کی بات ہے تو یہ نظریاتی سرد جنگ خلفائے راشدین کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی، اور شاید مستقبل میں بھی یونہی جاری رہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے مذہبی نظریات کا احترام کرنا ہوگا اور سب سے بڑی بات کہ خبط عظمت سے باہر نکلنا ہوگا۔

پاکستان کےلیے چین ایک اسٹرٹیجک پارٹنر ہے لیکن دوسری جانب اس کو امریکا سے بھی بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور دوسری جانب پاکستان کو سعودیہ سے تعلقات بھی بنا کر رکھنے ہیں۔ یہ سفارتکاری میں ایسی دو دھاری تلوار ہے جس پر چلنا انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن اگر پاکستان نے اس تلوار پر کامیابی سے چلنا سیکھ لیا اور اگر ہم نے تعلقات کو بیلنس کرنا سیکھ لیا تو یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس خطے کےلیے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ لیکن یہاں ایک سوال ہے، کیا ہم سیکھنا چاہتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔