معاشی میدان میں نئے خیالات ڈھونڈنے کی ضرورت

نصرت جاوید  بدھ 11 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان پیپلز پارٹی والوں کو بہت عرصے کے بعد اچانک یاد آنا شروع ہوگیا ہے کہ ان کی جماعت کبھی ’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘ والی نظریاتی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے حکومتی قرضوں کی اسکیم کے افتتاح کے موقعہ پر پتہ نہیں کیوں 1970ء کی دہائی میں کی جانے والی اس نیشنلائزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنادیا جو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی لاگو کردی تھی۔ ان کے خیال میں صنعتوں کو قومیائے جانے کے اس فیصلے کے بعد پاکستان کے کاروباری ذہن رکھنے والے افراد بددل ہوگئے۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو دوسرے ممالک جاکر استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایسے ’’ذہین‘‘ لوگوں کی بددلی کی وجہ سے پاکستانی معیشت میں جمود آگیا۔ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی دوڑ میں دُنیا تو کیا جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مقابلے میں بھی بہت پیچھے رہ گیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقت چاہے جو بھی رہی ہو ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت بڑی شدت سے نواز شریف کی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے صنعتوں اور بڑے کاروباری اداروں کو قومیا لینے کے بعد ملکی معیشت تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ یہ بات دہراتے ہوئے ان لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی دانشورانہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان نہیں کرتا کہ 1960ء کی دہائی میں نظر آنے والی پاکستان کی نام نہاد اقتصادی اور صنعتی ترقی دراصل Crony Capitalismکی ایک تباہ کن مثال تھی۔ چند مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے زیادہ تر سرمایہ دار حقیقی معنوں میں کبھی Entrepreneurنہیں رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد امریکی امداد کے ذریعے صنعت کاروں کے ایک مخصوص گروہ کی حکومتی قرضوں اور سیاسی شفقت کے ذریعے پشت پناہی کی۔

حکومتی چھتری کے نیچے پھیلتا پھولتا یہ گروہ بالآخر اس ملک میں 22خاندانوں کی مکمل اجارہ داری کا باعث بنا۔ اس گروہ کے تمام تر لوگ اس وقت کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی شدید تر ہوا۔ اس احساسِ محرومی کے اسباب جاننے کے لیے اس وقت کے منصوبہ بندی کمیشن نے چند افسران کو تحقیق کے کام پر لگا دیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق ان میں سب سے زیادہ موثر اور ذہین نام تھا اور اسی ڈاکٹر محبوب الحق نے ٹھوس معاشی شواہد کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو 22خاندانوں کی اجارہ داری میں چلے جانے کی داستان دریافت کی۔ وہ خود تو یہ داستان بیان کرنے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی بنیاد پر اپنی جماعت کھڑی کرلی اور انتخابی مہم میں بارہا وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اجارہ دار خاندانوں کو Fix up کردیں گے۔

شاید باقی سیاستدانوں کی طرح اقتدار میں آکر ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنا یہ وعدہ بھول جاتے۔ مگر انھیں اقتدار ملا تو پاکستان ایک طویل خانہ جنگی کے بعد ٹوٹ چکا تھا۔ ماضی کا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ہمارے اجارہ دار صنعتی اور کاروباری خاندانوں کی Captive Marketنہ رہا۔ منڈی کھودینے کی وجہ سے ان کے لیے بلکہ صنعتوں کو چلانا مشکل ہوگیا اور بھٹو بھی اپنا وعدہ پورا کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اقتدار میں اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد بھٹو نے جب انتخابات کروائے تو لوگوں نے ان کے نتائج تسلیم نہ کیے۔ ایک تحریک برپا ہوئی جس کے نتیجے میں مارشل لاء لگ گیا۔ 1977ء کے اس مارشل لاء سے لے کر آج تک پیپلز پارٹی سمیت جو بھی جماعت اقتدار میں آئی وہ صنعتیں قومیانے کے بجائے انھیں پرائیویٹائز کرنے کو بے چین رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر 30سے زائد برسوں پر محیط نجی سرمایہ کاری کی ایسی مستقل محبت اور سرپرستی نے پاکستانی معیشت کے اس جمود کا ازالہ کیوں نہیں کیا جس کا واحد ذمے دار ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سال کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ یقینی طور پر معاملہ کہیں زیادہ گمبھیر،پیچیدہ اور سنجیدہ ہے۔ اس کے تمام پہلوئوں کو دریافت کرنے اور بیان کرنے پر ہمارے سیاستدان کوئی اتنی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ سیاست میں دائیں اور بائیں کی تفریق ان دنوں کوئی اتنی واضح اور جاندار نہیں رہی۔ چین خود کو ابھی بھی ایک کمیونسٹ ملک کہتا ہے جہاں ’’پرولتاری آمریت‘‘ کے نام پر یک جماعتی نظام مسلط ہے۔ ڈینگ سیائوپنگ کے زمانے سے وہ معاشی حوالوں سے معجزہ نما ترقی کررہا ہے جو صرف ایک وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام اپنانے کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو امریکا جیسے نجی سرمایہ کاری اور مارکیٹ اکانومی کی سب سے بڑی علامت ملک کے مزدوروں کو حاصل ہیں۔

بھارت میں جواہرلال نہرو نے صنعتوں کو ہرگز قومی تحویل میں نہیں لیا تھا۔ مگر اس کے دورِ اقتدار میں ریاست نے خود بھاری اور بنیادی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی اور ان کے تحفظ کے لیے اپنی افسر شاہی کو بے تحاشہ اختیارات دیے۔ نہرو کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں ’’لائنس راج‘‘ کا ذکر کئی برسوں تک جاری رہا۔ اندرا گاندھی کو بینکاری میں بھی بے تحاشہ مداخلت کرنا پڑی۔ ان تمام ’’نجی سرمایہ کاری کے لیے حوصلہ شکن‘‘ روایات کے باوجود 1990ء کی دہائی کے وسط میں جب من موہن سنگھ کے ذریعے بھارت Global Capitalismکا حصہ دار بنا تو چند ہی سالوں میں India Shiningکی دہائی مچ گئی۔ اس دہائی نے وہاں کے عام آدمی کو ہرگز خوش نہ کیا اور اسی وجہ سے کانگریس گزشتہ دس برس سے وہاں حکمرانی کررہی ہے۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی عوام کا کانگریس کی “Pro Poor”پالیسیوں سے بھی دل بھرگیا۔ انتظار کرنا پڑے گا کہ نئی کون سی صورت ہمارے سامنے آتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا نواز شریف کی مسلم لیگ۔ ان دونوں جماعتوں کو اب معیشت کے بارے میں نئے خیالات ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان خیالات کو دریافت کیے بغیر 1970ء کی دہائی میں مقید رہتے ہوئے ایک دوسرے کی لعن طعن اس ملک کے عوام کو ہرگز متاثر نہیں کر پائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔