قصہ ایک لاوارث شہر کا

رئیس فاطمہ  بدھ 11 دسمبر 2013

کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کی نفاست اور ذوق جمال کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے گھر کا کچن اور باتھ رومز (جنھیں ہم اب مغرب کی نقل میں واش روم کہنے لگے ہیں) کو دیکھیے۔ اگر وہ صاف ستھرے ہیں تو آپ آسانی سے خاتون کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اور یہ ہے بھی صحیح۔ عام مشاہدہ یہ رہا ہے کہ ساری صفائی ستھرائی سجاوٹ، بناوٹ، جھاڑ فانوس، قالین، ڈیکوریشن پیسز۔۔۔۔ سب ڈرائنگ روم میں جمع کر دیے جاتے ہیں۔۔۔۔ لیکن اگر کہیں انھی سجے سجائے ڈرائنگ روم والے گھر کے غسل خانوں اور باورچی خانوں میں آپ کا گزر ہوجائے تو خود بخود رومال یا دوپٹہ ناک پر رکھ لیا جاتا ہے۔

بالکل یہی اصول شہروں اور ملکوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کسی شہر کا اصل رنگ دیکھنا ہو تو وہاں کا ٹریفک اور صفائی دیکھیے۔ یہ دونوں چیزیں شہر کا آئینہ ہوتی ہیں۔ اگر اس آئینے میں ماضی کے ’’شہر بے مثال‘‘ کراچی کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ اب یہ شہر مکمل طور پر ایک ایسا لاوارث شہر ہے جہاں ہر طرف ہر گلی اور ہر سڑک پہ لاقانونیت کا راج ہے۔ یہ شہر جو کبھی علم و ادب کا حوالہ رہا ہے۔ آج ایک بھیانک منظر پیش کرتا ہے۔چور، بھتہ مافیاز اور لینڈ مافیاز کا ہیڈ کوارٹر اب کراچی ہے۔ جو کبھی پاکستان کا اولین دارالحکومت اور بابائے قوم حضرت قائد اعظم کی جنم بھومی بھی ہے۔ کبھی یہ روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ آج اس کا مثبت حوالہ صرف مولانا ایدھی، رمضان چھیپا، سیلانی ویلفیئر اور سہارا اولڈ ایج ہوم اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ہیں۔

اگر ٹریفک کے حوالے سے بات کریں تو اب یہ پاکستان کا بدترین شہر ہے۔ ٹریفک کا جام ہونا اب معمول کی بات ہے۔ آئے دن ہمارے سروں پہ مسلط وہ لوگ جو حکمران کہلاتے ہیں جب جب اس بدنصیب اور بے آسرا شہر میں قدم رنجہ فرماتے ہیں لوگوں کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ اقتدار کا تاج سر پہ رکھتے ہی ان بادشاہوں اور بادشاہ گروں کو ان ہی لوگوں سے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے جن کے پاس یہ ووٹوں کی بھیک مانگنے جایا کرتے تھے۔ لیکن الیکشن کے بعد وہی عوام درد سر بن جاتے ہیں۔ ایئرپورٹ پہ جہاز سے باہر نکلتے ہی انھیں ہر طرف بارود کی بو محسوس ہونے لگتے ہے۔ جیسے ہر راہ گیر ان کے لیے گولیوں سے بھرا پستول لیے کھڑا ہے۔ ان کا کارواں جب تک گزر نہ جائے نہ کوئی ایمبولینس اسپتال جا سکتی ہے۔ کوئی بھی کسی بھی نہایت ضروری کام سے اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔ طالب علم امتحان دینے نہیں جاسکتے۔ خواہ کوئی مریض راستے ہی میں دم توڑ دے۔ خواہ کسی کی ٹرین، بس یا جہاز چھوٹ جائے۔ ان ارباب اختیار کے گزرنے تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ دراصل یہ شعبدہ بازی ہے۔ جب تک سیٹیاں نہیں بجیں گی، پولیس والوں کی دوڑ نہیں لگے گی، سائرن بجاتی پولیس کی گاڑیاں آگے اور پیچھے نہیں چلیں گی۔ پتہ کیسے چلے گا کہ پاکستان کے حاکم جا رہے ہیں۔

کراچی آئے دن ان عذابوں سے گزرتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک لاوارث شہر ہے۔ عوامی سطح پر پچھلی صوبائی حکومتوں نے پورے شہر میں انڈر پاس، اوور ہیڈ برج، فلائی اوور کا جال بچھا کر اور تمام کٹ بند کرکے گویا میدان مار لیا اور شہر کو سگنل فری بناکر جیسے عوام پر کوئی ایسا احسان عظیم کردیا کہ ٹریفک کے حوالے سے اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ یہی فلائی اوورز اور کٹ بند کرنا ہی اس عذاب کا باعث بن گئے ہیں۔ آئے دن پٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی قیمتیں بڑھنے سے نہ صرف رکشہ، ٹیکسیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ مسلسل ہوتا رہتا ہے بلکہ اسکوٹر، کاریں، رکشہ، ٹیکسیاں اور اس شہر پر عذاب کی صورت میں نازل ہونے والے چنگچی رکشہ سمیت کوئی بھی دو طرفہ ٹریفک کی پابندی نہیں کرتا۔ آنے اور جانے کے لیے الگ الگ سڑکوں پہ نہایت ڈھٹائی سے دو طرفہ ٹریفک کو آتے جاتے شہر کی کسی بھی معروف اور غیر معروف سڑک پر دیکھا جاسکتا ہے۔ بالخصوص وہاں یہ مناظر زیادہ نظر آئیں گے جہاں فلائی اوورز، اوور ہیڈ برج بنے ہوئے ہیں۔

کٹ بند ہونے سے ایک نقصان تو یہ ہوا کہ تمام ٹریفک سگنل اور چورنگیوں پہ جمع ہونے لگا۔ دوسرا یہ کہ کٹ بند ہونے سے اب لوگ لمبا چکر کاٹ کر یوٹرن لینے کے بجائے اسی سڑک پہ آنے جانے لگے۔ اس طرح اب کراچی کی ہر سڑک پہ دو طرفہ ٹریفک چلتا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی ساری توجہ اپنی جیبیں بھرنے پر رہتی ہے، یہ اہلکار چورنگیوں اور سگنلوں کے قریب چھپ کر اپنے شکار کا انتظار کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا کنڈیکٹر تو انھیں برملا گالیاں دے کر 20 روپے کا نوٹ پکڑا کر اپنی لین سے باآسانی نکل جاتا ہے۔ لیکن بے چارے موٹرسائیکل سوار مسلسل ان کا نشانہ بنتے ہیں۔ بلدیاتی نمایندوں نے فلائی اوور بناتے وقت نہ تو پیدل چلنے والوں کا خیال رکھا اور نہ یہ سوچا کہ سارے کٹ بند کرکے ٹریفک کا جو لوڈ آپ شاہراہوں اور سگنلوں کی طرف لا رہے ہیں وہ کتنا بڑا عذاب بن جائے گا۔۔۔۔صفائی کے حوالے سے دیکھیں تو یہ شہر صرف اگالدان بن گیا ہے۔ اگالدان ایک تہذیب کا نمایندہ ہے۔

پان کھانے والے مہذب لوگ پان کی پیک اگالدان میں تھوکتے تھے۔ لیکن اب یہ شہر مدتوں سے اگالدان بنا ہوا ہے۔ جہاں پان، گٹکا اور نسوار تو جی بھر کے کھائی جاتی ہے۔ لیکن اس کو تھوکنے کے لیے شہر کی دیواریں دستیاب ہیں۔ فلائی اوورز بننے کے بعد پورا شہر کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آپ کسی بھی فلائی اوور کے نیچے کا خالی حصہ دیکھیں وہاں یا تو وہ خانہ بدوش نظر آئیں گے جو اپنے ننگ دھڑنگ اور گندے وجودوں کے ساتھ پوری پوری برادری کے ساتھ یہاں قابض ہیں، وہ یہیں رہتے ہیں، یہیں کھاتے پکاتے اور بچے پیدا کرتے ہیں۔ پولیس کی مٹھی گرم کرکے وارداتیں بھی کرتے ہیں اور بچوں کو اغوا کرکے کراچی سے باہر لے جا کر فروخت بھی کرتے ہیں۔ پلوں کے نیچے بنی ان کچرا کنڈیوں کی کبھی صفائی نہیں ہوتی۔ یہ کوڑا کرکٹ نہ صرف آلودگی پیدا کر رہا ہے بلکہ سانس اور گلے کی بے شمار بیماریاں بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس طرح توجہ کون دے؟ یہ شہر یوں تو سب کا ہے کہ یہاں سے سیٹیں ملتی ہیں، رزق ملتا ہے، بھتہ ملتا ہے، لیکن یہ ایک یتیم ویسیر لاوارث شہر ہے جو پورے پاکستان کے مافیاز کی پناہ گاہ ہے۔

بڑے بڑے بزنس ٹائیکوناس شہر سے کروڑوں کما رہے ہیں مگر  پانچ فیصد بھی اس شہر کی صفائی پہ خرچ کرنے کو تیار نہیں۔۔۔۔کیونکہ یہ شہر محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہے جو پاکستان بنانے کی غلطی کر بیٹھے تھے۔!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔