خامہ بہ جوش‘ روشنی اور پرچھائیاں

نسیم انجم  بدھ 11 دسمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بات اتنی سی ہے کہ تمام پولیس والے ایک سے نہیں ہوتے ہیں جس طرح ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہیں اسی طرح دنیا کے تمام انسان اپنی عادات و خصلت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ مذکورہ محکمے میں بھی بے شمار اہلکار اور افسران اپنے ہی جیسے لوگوں سے غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن کچھ بہت اچھے لائق فائق بھی ہیں۔ اور وقت و حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علم و آگہی کے چراغ سر راہ روشن کرنے کی سعی میں مصروف ہیں کہ شاید کوئی بھٹکا ہوا مسافر ان راہوں پر آ جائے اور پھر وہ راہ مستقیم کا انتخاب کر لے۔

ایسے ہی اچھے لوگوں میں پشاور سے تشریف لانے والے فصیح الدین بھی ہیں جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور جو بلا مبالغہ علم والے ہیں، وسیع مطالعہ ان کی تحریروں میں جھلکتا ہے، حال ہی میں ان کی کتاب جو کہ کالموں کا مجموعہ ہے عنوان ہے ’’خامہ بہ جوش‘‘ کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آئی ہے ان کے مضامین کے بارے میں بعد میں بات کریں گے، پہلے ایک اہم ترین محفل کا ذکر ہو جائے۔ اس تقریب کی اہمیت یہ تھی کہ اسے ’’تحریک نفاذ اردو‘‘ کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا یہ ایک باقاعدہ تحریک ہے اور اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مستقل کام کیا جا رہا ہے، ڈاکٹر سید مبین اختر اس انجمن کے سرپرست اعلیٰ ہیں اور میر واصف علی صدر ہیں۔ ان کے ساتھی اردو زبان کی اشاعت و ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں، اردو بولیے، اردو لکھیے، اردو پڑھیے یہ ہماری قومی زبان ہے، یہی ان کا آدرش اور نعرہ ہے، اسی حوالے سے یہ ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔

105 ویں شام اردو میں صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کر رہے تھے جو کہ ان دنوں ضیا الدین میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور وہ کسی تعارف کے بھی محتاج نہیں ہیں، ممتاز و منفرد لہجے کے شاعر غالب عرفان کے چوتھے مجموعہ کلام ’’روشنی اور پرچھائیاں‘‘ کی تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اپنی زبان سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر تھا جو ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی مدلل گفتگو اور غالب عرفان کی خوبصورت شاعری سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جمال نقوی نے اپنی تقریر میں کہا کہ غالب عرفان کے دونوں مجموعوں کے عنوانات میں روشنی شامل ہے جو امید اور روشن خیالی کا استعارہ ہے۔ احمد صغیر صدیقی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ غالب عرفان اگر شاعر نہ ہوتے تو فلسفی ہوتے۔ انھوں نے صاحب کتاب کا یہ شعر بھی پڑھا:

میں ذہن و دل کے تصادم میں ٹوٹ جاتا ہوں

عمل سے جب فکر کا راستہ نہیں ملتا

بزرگ شاعر تشنہؔ بریلوی نے شاعر کے بارے میں فرمایا کہ غالب عرفان تغزل اور ترنم کے ساتھ غزل کہتے ہیں انھوں نے ایک قطعہ بھی غالب عرفان کے حوالے سے نذر سامعین کیا۔ تحریک کے صدر جناب میر واصف علی نے مختصر اور جامع تقریر کی جو ان کی علمیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

غالب عرفان نے تقریب کے ناظم نجیب عمر کی دعوت پر اپنا کلام بھی سنایا:

ذہن میں تشنگی مسلسل ہے

میری تخلیق نامکمل ہے

طلسم دار طرح دار چھوڑ آیا تھا

میں شہر خوف میں دستار چھوڑ آیا تھا

مقررین میں راقم السطور کا نام بھی شامل تھا، جناب صدر محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو اسٹیج پر مدعو کرنے سے پہلے ان کے دو مقبول اشعار نجیب عمر نے پڑھے۔

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں

جو سوچتا بھی نہیں‘ خواب دیکھتا بھی نہیں

……

شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی

صاحب اختیار ہو‘ آگ لگا دیا کرو

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج قومی یکجہتی کا بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن یہ اردو کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور تحریک نفاذ اردو کا ساتھ دینا چاہیے اور جہاں تک غالب عرفان کا تعلق ہے انھیں پذیرائی کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنا مقام حاصل کر چکے ہیں، البتہ پذیرائی اور ستائش کی ہمیں ضرورت ہے کہ ان کے اشعار سے ہم جینے کا حوصلہ پیدا کریں، ایک زندہ معاشرے کی طرح ہمیں اپنے ادیب و شاعر کی قدر کرنی چاہیے۔

اب آتے ہیں ’’خامہ بہ جوش‘‘ کی طرف۔ یہ کتاب چار سو دس صفحات پر مشتمل ہے اور یقینا یہ تحریریں پڑھی اور پڑھائی جانے کے قابل ہیں اس کی وجہ اس کی پر اثر مضامین ہیں، معاشرے اور معاشرتی رویوں کی عکاسی بے حد دل پذیر انداز میں کی گئی ہے اس کی وجہ مصنف کثیر المطالعہ علمی و فکری بصیرت سے مالا مال ہیں انھیں کئی زبانوں پر مکمل طور پر عبور حاصل ہے۔ ان کے مضامین میں جا بجا عربی و فارسی کے الفاظ ملتے ہیں لیکن تحریر کی روانی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا ہے بلکہ وہ مزید وقیع ہو جاتی ہے وہ اپنے نام کے اعتبار سے اسم بامسمی ہیں۔ فصاحت و بلاغت ان کے کالموں کی شان بان ہے۔

کسی بھی مصنف کے افسانے، کالم، مضامین و ناول پڑھنے کے بعد اس کی شخصیت، عادات و اخلاق کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے، نیز یہ کہ وہ کس طرح سوچتا ہے، اس کے لوگوں کے بارے میں کیا تاثرات ہیں اپنی قابلیت کے اعتبار سے اس نے کتنے علمی دریاؤں کا پانی پیا ہے وغیرہ۔

کتاب کھولنے کے بعد سب سے پہلے قاری کی نگاہ انتساب پر پڑتے ہی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل عقیدت و محبت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ ابتدائی صفحات میں کالم نگار نے اپنا مختصر سا تعارف بھی کروایا ہے جو کچھ ادھورا سا معلوم ہوتا ہے وہ اپنے کالموں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اے میرے عزیز! یہ کالم صرف کالم نہیں اس میں میرا اور آپ کا بھی قصہ ہے اور اس میں ناقہ زمام کو سوئے قطار لانے کا اقبالی جرم بھی ہے، ایک اقبال پر کیا موقوف اس ملک میں ہزاروں اقبال تڑپ تڑپ کر ڈوبتے رہتے ہیں دکھیاری مینا کماری نے خامہ بہ جوش کے لیے کہا تھا۔

پھر کوئی آبلہ پا دشت میں آیا ہو گا

ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہو گا

بے شک اس قدر محنت اور لگن سے لکھے گئے کالم آندھی میں دیا جلانے کے مترادف ہیں، آج حالات ایسے ہیں کہ ہر سو اندھیرے کی دبیز چادر پھیلی ہوئی ہے، گولہ بارود کا دھواں، انسانی گوشت کی بو اور سربریدہ و سوختہ لاشوں سے یہ ملک اور شہر پٹا ہوا ہے۔ جہاں دیکھو انسانی ابدان اور خون اپنے اوپر خنجر کے چلنے کی داستان صاحب اقتدار و اختیار کو سنا رہا ہے کہ اللہ نے تو کسی بھی ملک کے حکمران کو اپنی عوام کا خلیفہ بنایا ہے اور اس کے تحفظ کی مکمل ذمے داری سونپی ہے لیکن یہ کیا کہ نہ گھروں میں تحفظ اور نہ شاہراہوں پر، سڑکوں پر بسوں کو روک کر فائرنگ کر دی جاتی ہے اکثر اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ قطار بنا کر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔

مصنف کے کئی کالم ایسی ہی سفاک کہانیوں اور واقعات سے پر نظر آتے ہیں۔ کالم نویس نے ’’میں کون میں‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس میں فرماتے ہیں کہ اقبال نے حسب معمول گلہ کیا ہے ’’کہ من کیستم تو کیستی عالم کجا است؟‘‘ یعنی میں کون تو کون اور یہ دنیا کیسی ہے؟ پھر ان کا مضمون پڑھتے جائیے اور علم کی روشنی سے اپنا آپ منور کرنے کی صورت نکل آئے گی۔ بہرحال خامہ بہ جوش قاری کے لیے بہت سے معلومات کے در وا کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔