یکساں نظام تعلیم کا چیلنج

ایڈیٹوریل  جمعرات 30 جولائی 2020
حکومت ملک میں یکساں نصاب تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کو تعلیم سے مشروط کرنے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے فوٹوفائل

حکومت ملک میں یکساں نصاب تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کو تعلیم سے مشروط کرنے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے فوٹوفائل

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں یکساں نصاب تعلیم، بنیادی سہولتوں اور تعلیم کے خلا کو پر کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو تعلیم سے مشروط کرنے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور اس کام کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ بات انھوں نے منگل کو 2020 گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ(GEM) رپورٹ کے اجرا کے موقع پر اپنے خطاب میں کہی جس کا اہتمام ادارہ تعلیم وآگہی نے یونیسکو نیشنل کے ورچوئل رپورٹ کے شعبوں، پیشہ ورانہ تربیت اور بین الاقوامی ترقی کے ادارہ کے اشتراک سے کیا۔

رپورٹ کی تیاری میں متعدد تعلیمی ماہرین، دانشوروں اور مبصرین نے معاونت کی، ماہرین نے پاکستان کی نئی نسل کی تعلیمی عمل میں شمولیت اور دیگر تعلیمی امور پر تفصیلی بحث کی ہے، ملک میں تعلیمی عدم مساوات، نصابی ضرورتوں اور معیار تعلیم کے زوال سمیت اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی ہے کہ معیاری تعلیم تک رسائی ہر پاکستانی کے لیے یقینی بنائی جائے، رپورٹ میں اس نکتہ کو تعلیم کی بنیاد قرار دیا گیا۔ رپورٹ کی تیاری میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ بچوں کی تعلیم پر مکمل توجہ دی جانی چاہیے، اس میں بلاتفریق رنگ و نسل، زبان، عقیدہ، صنف اور صلاحیت کسی کے سماجی پس منظر کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بمشکل کوئی دیہی عورت اور اسکول میں زیر تعلیم لڑکی ثانوی تعلیم مکمل کرتی ہے اگرچہ 2030 کے تعلیمی مقاصد کی لازمی تکمیل ایک عالمگیر ٹارگٹ کے طور پر تسلیم کی گئی ہے، تاہم اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ لڑکوں کو بالعمر گھر والوں کی طرف سے لڑکیوں کے مقابلہ میں زیادہ سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں، رپورٹ میں نیشنل پالیسی برائے معذوراں 2002 کی روشنی میں معذور بچوں کی تعلیم کے لیے اہم اقدامات تجویز کیے گئے، رپورٹ کے مطابق دس فیصد ملکوں میں تعلیمی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے کے قوانین رائج ہیں اور تعلیم حاصل کرنے سے گریز پر سخت قوانین بھی موجود ہیں۔

بہر کیف جیم رپورٹ ایک سنجیدہ کوشش ہے جو ماضی میں تعلیمی پالیسی رپورٹوں کے انبار میں ایک اور رپورٹ کا اضافہ ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے حکومت ایک معنی خیز بریک تھرو کرے تو قوم پر احسان ہوگا۔ حقیقت میں کورونا کے اس عہد میں جہاں زندگی کے تمام شعبے بری طرح متاثر ہوئے، ملکی معیشت جمود کا شکار ہے، ملک قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے، سیاسی عدم استحکام کے مظاہر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، پر تشدد سماجی ماحول نے عوام کے لیے مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں۔

گڈگورننس کے لیے ارباب اختیار کو فرصت نہیں، دو سال سے اوپر ہوچکے مگر تناؤ میں کمی کا کوئی امکان نہیں، حکمرانوں کی مستقل برہمی اور ٹکراؤ کے اندیشہ نے عوام کو ریلیف اور آسودگی سے محروم کر رکھا ہے، ریاستی اور حکومتی ادارے اپنی سمت درست نہیں کرسکے، حکومت بہت سے چیلنجوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔

خطے کی صورتحال پر خطر ہے، کورونا نے صحت انفراسٹرکچر کو بے نقاب کر دیا ہے، قوم منتظر ہے کہ حکومت کوئی ٹھوس تبدیلی پروگرام لے آئے تاکہ عوام جدید دور کی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ لیکن اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو ان تمام محاذوں سے تبدیلی اور انقلاب کی ایک لہر درکار ہے جو ان کی حکومت نے خود اٹھانی ہے، قوم سے انھوں نے بڑے وعدے کیے ہیں۔ انھیں پورا بھی کرنا ہے۔ تاہم وقت کسی بڑی تبدیلی کے بغیر گزرتا جا رہا ہے اور عوام میں فرسٹریشن کی ایک وجہ حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی اور الزام تراشی کا تسلسل ہے جو کورونا سے نمٹنے کی جنگ میں بھی ختم نہیں ہوسکا۔ قوم مصالحت اور مفاہمت کو ترس رہی ہے، مہنگائی اور بیروزگاری کی صورتحال پر کوئی دو طرفہ دوستانہ مکالمہ ہوتا نظر نہیںآتا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوںگے

وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعتراف کیا کہ کورونا وائرس کے باعث اسکولوں، کالجز، جامعات اور مدرسہ سمیت دیگر تعلیمی اداروں کی بندش سے تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس قومی نقصان کے پیش نظر حکومت کو تعلیم سے متعلق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا ہے، انھوں نے یقین ظاہر کیا کہ مذکورہ رپورٹ مفید ثابت ہوگی اور قومی تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم کا بیڑا اٹھایا، طبقاتی تعلیم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے سنگ میل کو عبور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

یہ غیرمعمولی مشن ہے، حکومت کو اندازہ ہے کہ نظام تعلیم ممنوعہ شجر رہا ہے، کسی حکومت نے تعلیم کو اہمیت نہیں دی، پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کا جنازہ نکل گیا ہے، ڈگریوں کی بے توقیری ہوچکی، امتحانات کی شفافیت نے دم توڑ دیا، کرپشن کے ناسور نے نظام تعلیم کو بھی نہیں بخشا، ماہرین تعلیم نے نصاب کی تیاری کے لیے جتنے تجربات کیے ضیا حکومت کے ایک ہتھوڑے سے علمی روایات اور تعلیمی تقدس کے کئی مینار زمیں بوس ہوئے، تعلیم کو اسلامیانے کی کوشش میں تاریخ سے کھلواڑ شروع ہوا۔

لفظ کی حرمت مجروح ہوئی، حکومت یکساں نظام تعلیم ضرور لائے مگر اس حقیقت کو فراموش نہ کرے کہ لارڈ میکالے کے ذہنی غلاموں نے ابھی آزادی کی شفاف جمہوری فضا میں سانس لینے کی فطری صلاحیت پیدا نہیں کی، ہماری بیوروکریسی کو فکری غلامی سے آزاد کرنا ایک شرط ہے، اس ملک میں ابھی تک اردو زبان سرکاری سطح پر نافذ نہیں ہوسکی، انگریزی زبان سے تعصب کی کوئی بات نہیں، انگریزی زبان دنیا سے رابطے کا موثر وسیلہ ہے لیکن مادری زبانوں اور علاقائی زبانوں نے کیا قصور کیا ہے؟ قومی یکجہتی کے لیے نظام تعلیم کی یکسانیت ایک اہم قدم ہے۔

واضح رہے وفاقی وزیر تعلیم نے8 جولائی کو بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں اسکول، کالج اور جامعات کو ستمبر کے پہلے ہفتے میں کھولنے پر اتفاق کیا تھا، کورونا وائرس کوویڈ 19 کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے مسئلے پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس ہوئی تھی جس میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزرائے تعلیم ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے ساتھ امتحانات لینے کی بھی اجازت ہوگی۔ اجلاس میں تجویزدی گئی کہ یکم ستمبر سے پہلے اسکول نہ کھولے جائیں اور اگست کے آخری ہفتے حتمی فیصلے کیلیے بلایا جائے۔

جب کہ یونیورسٹیز 15ستمبر سے کھولنے کی تجویز دی گئی۔ تعلیمی ادارے کھولنے سے قبل کورونا صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی ادارے کھولنے سے قبل کوویڈ 19کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یکم ستمبر سے پہلے 2 بار بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس بلائی جائے گی جس میں اس حوالے سے مزید تفصیلات طے کی جائیں گی۔ کورونا کی شدت کے تناظر میں تاریخوں میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔

صوبوں سے مشاورت کے بعد تجاویز قومی رابطہ کمیٹی کو بھجوائی جائیں گی۔ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن نے اسلام آباد میں ایسوسی ایشن کے ہنگامی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سخت ایس او پیز کے تحت تعلیمی ادارے فوری کھولے جائیں۔ کورونا وائرس کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش سے ہزاروں اساتذہ اور عملہ بے روزگار ہوگیا ہے۔

بلاشبہ حکومت کے لیے یکساں نظام تعلیم کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں کو کھولنا بھی ایک چیلنج ہے، حکومت ڈیجیٹلائزیشن اور آن لائن ایجوکیشن کا پروگرام بھی رکھتی ہے، اس پر عمل بھی ہو رہا ہے، لیکن ملک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، کراچی کو شدید لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے، انٹرنیٹ تک ملک کے متعدد دور افتادہ علاقوں کی رسائی حاصل نہیں، آن لائن اسکولنگ کیلیے بجلی کی بلا تعطل فراہمی ناگزیر ہے، صوبائی حکومتوں کو ادراک ہے کہ تعلیمی نظام کو کورونا نے شدید متاثر کیا ہے، غربت اور بیروزگاری صرف دیہاڑی دار مزدوروں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ملک بھر میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں، کوچنگ سینٹرز اور دیگر تدریسی اداروں میں اساتذہ اور معمولی تنخواہوں پر کام کرنے والی ہزاروں لیڈی ٹیچرز اور اساتذہ گزشتہ پانچ ماہ سے بیروزگار ہیں، تدریس ایک مستقل فکری اور ذہنی عمل ہے، اسکول بند ہونے سے بچوں کی تعلیم کا جو حشر نشر ہوا ہے اس نے متوسط طبقوں کو زیادہ متاثر کیا ہے، اس کا ازالہ بھی ہونا ہے۔

کورونا کے بارے میں ماہرین اور مسیحاؤں کا کہنا ہے کہ ماسک نے انسانی چہرہ کی شناخت ختم کر دی ہے، بچوں کے لیے ماسک پہننا خوشگوار تجربہ نہیں بلکہ ایک مشکل اور اذیت ناک مشق ہے لیکن گھر کے اندر بچوں کی تدریس کا عمل جس بڑے پیمانہ پر منتشر ہوا ہے اس کی ازسر نو ترتیب بھی ضروری ہے۔ حکومت اسکول اور کالجز و جامعات کی تدریس کے لیے منظم حکمت عملی وضع کرے، اسکولز دورانیے کی جنگ سے جتنی جلد نجات حاصل کرلیں اتنا ہی بہتر ہوگا، کورونا کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر یہ بات حکومت کے لیے صائب ہے کہ وہ اگست، ستمبر کی تاریخوں پر اپنا ذہن صاف کرلے اور کورونا کے تسلسل کو غیر ملکی امداد اور دیگر مالیاتی مفادات کی خواہش سے الگ کرنا نئی نسل کے بہترین مفاد میں ہوگا۔

وفاقی وزیر تعلیم نے یکساں نظام تعلیم کا جو بگل بجایا ہے وہ طبقاتی تعلیم کے خاتمہ کا طبل جنگ ہے، ملک ایک تعلیمی پیش قدمی کی طرف بڑھ رہا ہے، اس میں ثابت قدمی ناگزیر ہے، مشکلات ہیں، حکومت اپنے انداز کار سے ماورا مکمل تعلیمی پیش رفت کو یقینی بنائے، اسکول جب بھی کھلیں قوم کو یہ یقین ہوکہ حکومت اس پر کوئی یو ٹرن نہیں لے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔