اقتدار کی حقیقت

سید شاہوار کاکاخیل  جمعـء 31 جولائی 2020
ہر اقتدار کے سورج کو ایک دن غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔  (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر اقتدار کے سورج کو ایک دن غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دارا اعظم فارس کا ایک مشہور حکمران گزرا ہے۔ جس کے اقتدارکا عرصہ 522 تا 486 قبل مسیح پر محیط ہے۔ اس کو اعظم کا لقب تاریخ دانوں نے دیا، کیونکہ وہ ایک عظیم فاتح بننے کے خبط میں مبتلا تھا۔ اس نے فارس کی سلطنت میں وسطی ایشیا، موجودہ پاکستان کے دریائے سندھ کے علاقے اور مغرب میں مصر، سوڈان اور لیبیا تک کے علاقے فتح کرکے شامل کیے۔

دنیا کو فتح کرنے کے خواب میں ایک رکاوٹ آگئی۔ 490 قبل مسیح میں یونان کی ریاستوں کے اتحاد نے مراتھون کی لڑائی میں اپنے سے تعداد میں زیادہ فارس کی فوج کو شکست فاش دی۔ اس شکست کے بعد دارا زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا اور چار سال زندہ رہنے کے بعد بڑھاپے کے ہاتھوں وفات پاگیا۔ مراتھون کی لڑائی میں دارا خود تو موجود نہ تھا، اس کا داماد فوج کی کمان کر رہا تھا۔ مرنے سے پہلے دارا نے اس شکست کا بدلہ لینے کےلیے ایک عظیم الشان فوج تیار کرنی شروع کردی اور اس کی کمان اور اپنا خواب اپنے بیٹے اخسویرس کے حوالے کردیا۔ بیٹا بھی باپ کا خواب پورا کرنے میں پوری تندہی سے جت گیا اور چار سال تک فوج کو ہر لحاظ سے تیار کرتا رہا۔ مؤرخ ہیروڈوٹس کے مطابق اخسویرس سترہ لاکھ فوج لے کر آیا تھا اور اتنی عظیم الشان فوج دنیا کی تاریخ میں اس وقت تک کسی نے اکٹھی نہیں کی تھی۔ جدید دور کے مؤرخین سترہ لاکھ کی تعداد کو مبالغہ سمجھتے ہیں اور تین لاکھ کی تعداد پر متفق ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، دنیا نے اس سے پہلے اتنی شاندار اور سازوسامان سے لیس فوج کبھی نہیں دیکھی تھی۔

مؤرخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ باسفورس کے کنارے اخسویرس نے جب اپنے سفید تخت سے اپنی فوج کو دیکھا تو خود بھی دنگ رہ گیا۔ پوری آبنائے کشتیوں سے بھری تھی اور زمین جہاں تک نگاہ پڑتی سپاہ سے بھری ہوئی تھی۔ بقول ہیروڈوٹس عظیم دارا کے بیٹے کا سر فخر سے بلند ہوگیا اور اس نے خود کو اتنا عظیم شہنشاہ ہونے پر مبارکباد دی، لیکن چند لمحوں بعد شہنشاہ کے مصاحبین نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ اخسویرس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اخسویرس کا چچا یہ دیکھ کر ہمت کرکے آگے بڑھا اور رونے کی وجہ دریافت کی کہ بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں۔ اخسویرس کا جواب ہر طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا شخص کو ضرور یاد رکھنا چاہيے۔

اخسویرس بولا ’’دنیا کا طاقتور ترین انسان ہوکر بھی مجھے ابھی اندازہ ہوا کہ انسان فانی ہے اور صرف سو سال بعد اس پورے عظیم الشان لشکر میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوگا اور یہ ہے انسان کی طاقت اور فانی زندگی کی حقیقت‘‘۔ شاید اسے آنے والے وقت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس نے بھی اپنے باپ کی طرح 480 قبل مسیح میں شکست کھائی اور اپنے باپ کے خواب سمیت تاریخ کے صفحات میں گم ہوگیا۔ کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ سب سے پہلے اخسویرس نے ایک ایسی سلطنت قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس میں کبھی سورج غروب نہ ہو۔

طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا تمام انسانوں کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ انسان چاہے کتنا ہی طاقتور ہوجائے وہ فانی ہے اور صرف اس کے اچھے اعمال ہی اس کے کام آسکتے ہیں۔ ہمارے حکمران نے بھی چند ہفتے پہلے ’’میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے‘‘ کا جملہ بولا۔ کاش اس کو کوئی اخسویرس کا کہا پہنچا دے کہ انسان فانی ہے اور ہر اقتدار کے سورج کو ایک دن غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔ تاج و تخت اگر انسانوں کو محکوم بنانے کےلیے استعمال کیا جائے تو تاریخ کا سبق یہ ہے کہ وہ شخص مٹ جاتا ہے۔ جبکہ جوانی میں کپل وستو کی ریاست کی بادشاہت کو ٹھکرانے والا شہزادہ سدھارتھ تاریخ میں گوتم بدھ کے نام سے امر ہوگیا۔ اس نے تلوار کے ذریعے سے انسانوں کو زیر کرنے کی جگہ نروان اور انسانیت سے محبت کے راستے کو چنا۔ آج چین، جاپان، تھائی لینڈ، سری لنکا اور کوریا میں کروڑوں پیروکار موجود ہیں اور اس کے نام کی مالا جپتے ہیں۔

تاریخ میں اخسویرس اور گوتم بدھ جیسے کرداروں کی زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ وہ تمام فاتحین جو لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کرکے اپنی سلطنت رہتی دنیا تک قائم رکھنا چاہتے تھے وہ سب ناکام ٹھہرے اور آج لوگ ان کا نام بھی نفرت سے لیتے ہیں۔ جبکہ گوتم بدھ جیسے محبت کا پرچار کرنے والے دنیا والوں سے عزت و احترام کے حقدار ٹھہرے۔ ہم میں سے ہر شخص کے پاس کسی نہ کسی درجہ کا اختیار ہے۔ کوئی کنبے کا سربراہ ہے تو کوئی پورے ملک کا۔ سبق مگر یہ ہے کہ جس نے کسی بھی سطح پر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھلائی کی وہ دوام پاگیا اور جس نے قوت کا ناجائز استعمال کیا، اس نے اول و آخر زوال پذیر اور نامراد ہونا ہی ہے۔ تاریخ کا مگر سب سے بڑا سبق ہی یہ ہے کہ تاریخ سے بالعموم لوگ سبق نہیں لیتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید شاہوار کاکاخیل

سید شاہوار کاکاخیل

بلاگر لندن میں مقیم ہیں اور ایک درآمداتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ تاریخ اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ہیں جبکہ پاکستانی اورمغربی معاشروں کا تقابلی جائزہ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔