اندازِ نظر

امجد اسلام امجد  منگل 4 اگست 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کالم عنائت علی خان صاحب کی یادوں کی نذر ہوگیا کہ یہ اُن کا حق اور ہم پیچھے رہ جانے والوں کا فرض تھا، پھر درمیان میں بڑی عید یعنی عیدالاضحی آگئی جو اپنے مختلف پہلوؤں کی وجہ سے کالم طلب تھی لیکن جب میں نے اندازِ نظر کے بقیہ اسباق پر نظر ڈالی تو محسوس ہوا کہ ان میں بھی قدرے مختلف انداز میں  قربانی ہی کا علامتی ذکر ہے، سو ان کا ذکر بھی موزوں رہے گا۔

اس خیال کو مزید تقویت اس دوران میں ملنے والے مختلف پیغامات سے ملی جس سے اندازہ ہوا کہ آپ کو عمومی طور پر یہ سلسلہ بہت اچھا لگا ہے، سو مناسب یہی لگتا ہے کہ پہلے اس سلسلے کو مکمل کیا جائے جو شائد ایک اور کالم کا متقاضی ہوگا اور اس کے بعد کسی اور بات کی طرف توجہ دی جائے ۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس منظر نامے میں ایک ایسے پروفیسر صاحب  ہیں جو مروّجہ طریقوں سے ہٹ کر کچھ بظاہر انوکھی مثالوں سے کوئی سبق اپنے طلبہ کے ذہن نشین کراتے ہیں اور یوں بظاہر  absurd باتوں سے ایسے  concrete نتائج نکالتے ہیں کہ دماغ جیسے ایک دم روشن سا ہوجاتا ہے تو آیئے ہم سبق نمبر 5 سے آغاز کرتے ہیں۔

’’آج ہم نہیں پڑھیں گے‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا، آپ دو دن ٹماٹروں کے تھیلے اٹھائے تھک گئے ہوں گے، اس لیے آج آپ کے لیے چائے کافی میری طرف سے!

اس دوران لیکچر ہال میں کالج کا چپڑاسی داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں کافی کے دو بڑے بڑے جگ تھے، ساتھ ہی بہت سے کپ تھے ، پورسلین کے کپ، پلاسٹک کے کپ، شیشے کے کپ ان میں سے بعض سادہ سے کپ تھے اور بعض نہائت قیمتی خوبصورت اور نفیس۔ پروفیسر نے تمام طلبہ سے کہا کہ سب اپنی مدد آپ کے تحت گرما گرم کافی یا چائے خود لے لیں ۔ جب تمام طالب علموں نے اپنی چائے اور کافی کے کپ ہاتھوں میں لے لیے تو پروفیسرصاحب گویا ہوئے!

آپ لوگ غور کریں تمام نفیس ، قیمتی اور دیکھنے میں حسین کافی کے کپ اُٹھالیے گئے ہیں جب کہ سادہ سستے کپوں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ یوں ہی رکھے ہوئے ہیں ۔

اس کا کیا مطلب ہے سر؟ ایک طالب علم نے پوچھا،’’گویہ عام سی بات ہے کہ آپ اپنے لیے سب سے بہترین کا انتخاب کرتے ہیں لیکن یہی سوچ آپ کے کئی مسائل اور ذہنی دباؤ کی جڑ بھی ہے‘‘۔سارے طالب علم چونک اُٹھے ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں سر، اچھی چیز کا انتخاب تو اعلیٰ ذوق کی علامت ہے مسائل کی جڑ کیسے؟‘‘

پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا، آپ سب کو حقیقت میں جس چیز کی طلب تھی وہ چائے یا کافی تھی نہ کہ کپ لیکن آپ سب نے دانستہ طور پر بہترکپوں کے لیے ہاتھ بڑھایا!

میرے بچو، نوجوانو، یاد رکھو زندگی کا اصل حسن باطن سے پھوٹنے والی خوشیوں کی وجہ سے ہے۔  عالی شان بنگلہ ، قیمتی گاڑی ، دائیں بائیں ملازمین، دولت کی چمک دمک کی وجہ سے بننے و الے دوست ، یہ سب قیمتی کپ کی طرح ہیں، اگر اس قیمتی کپ میں کافی یا چائے بدمزہ ہو تو کیا آپ اسے پیئیں گے؟ اصل اہمیت ، زندگی ، صحت اور آپ کے اعلیٰ کردار کی ہے باقی سب کانچ کے بنے ہوئے نازک برتن ہیں ۔

ذرا سی ٹھیس لگنے سے یہ برتن ٹوٹ جائیں گے یا ان میں کریک آجائے گا، یاد رکھیئے دنیا کی ظاہری چمک دمک کی خاطر اپنے آپ کو مت گرا یئے بلکہ زندگی کے اصل جوہر کو ابھا ریئے تمام تر توجہ صرف کپ پر مرکوز کرنے سے ہم اُس میں موجود کافی یعنی زندگی سے لطف اندوزہونے سے محروم رہ جاتے ہیں لہٰذا کپوں کو اپنے ذہن کا بوجھ نہ بنائیں اس کے بجائے کافی سے لطف اندوز ہوں۔

پروفیسر صاحب کی ان باتوں کا طلبہ پر تو جو اثر ہوا ہوگا وہ اپنی جگہ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم سب بھی اس وقت اُسی کلاس کا حصہ ہیں!

تو آیئے اب چھٹے سبق کی طرف چلتے ہیں کہ اس میں بھی کئی ا یسی حیرتیں ہماری منتظر ہیں جن سے ملنا اور جن کے رُوبر وہونا بہت ضروری ہے ۔

پروفیسر صاحب نے کلاس کا آغا ز کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک پینسل نکالی اور تمام طلبہ کو دکھاتے ہوئے کہا،’’آج کا سبق آپ اس پنسل سے سیکھیں گے ! پنسل میں پانچ ایسی باتیں ہیں جو ہم سب کے لیے جاننا ضروری ہیں‘‘

’’وہ کیا سر؟‘‘ سب نے تجسس سے پوچھا۔’’پہلی بات یہ پنسل عمدہ اور عظیم کام کرنے کے قابل اس صورت میں ہوسکتی ہے جب وہ خود کو کسی ہنر مند ہاتھ میں تھامنے کی اجازت دے!

دوسری بات یہ کہ ایک بہترین پنسل بننے کے لیے وہ بار بار تراشے جانے کے عمل سے گزرتی ہے ۔ تیسری بات وہ اُن غلطیوںکو درست کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جو اُس سے سرزد ہوسکتی ہیں ، چوتھی بات پنسل کا سب سے اہم حصہ ہمیشہ وہ ہوگا جو اس کے اندر یعنی اس کے باطن میں ہوتا ہے اور پا نچویں بات یہ کہ پنسل کو جس سطح پر بھی استعمال کیا جائے وہ لازمی اس پر اپنا نشاں رکھتی ہے چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

اب اس پنسل کی جگہ آپ اپنے آپ کو لے لیں آپ بھی عمدہ اورعظیم کام کرنے کے قابل اُسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب آپ خود کو اپنے استاد یا رہنما کے ہاتھوں میں تھامے رکھنے کی اجازت دیں، دوسری بات آپ کو بار بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گزر نا ہوگا، یہ مراحل دنیا میں زندگی کے مختلف مسائل کی شکل میں آپ کے سامنے آئیں گے، ایک مضبوط فرد بننے کے لیے آپ کو ان مسائل کا اچھے طریقے سے سامنا کرنا پڑے گا۔ تیسری بات یہ کہ اپنے آپ کو ان غلطیوں کو درست کرنے کے قابل بنائیں جو آپ سے سرزد ہوسکتی ہیں۔

چوتھی بات ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے اندر ہے ، ہمارا باطن ہے، ہمیں اسے کثافتوں اور آلائشوں سے بچانا ہے اور پانچویں بات یہ کہ آپ جس سطح پر سے بھی گزر کر جائیں آپ اپنے نشان ضرور چھوڑجائیں، چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں!اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اس دنیا کو آپ کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی شئے بھی فضول اور بے مقصد نہیں ہوتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔