تحفظ بنیاد اسلام بل پر اعتراضات کیوں؟

ضیا الرحمٰن ضیا  بدھ 5 اگست 2020
بل میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بل میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی کوششوں سے پنجاب اسمبلی نے تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اسپیکر سمیت بل کی حمایت کرنے والے تمام اراکین پنجاب اسمبلی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اس بل کے تحت اللہ تعالیٰ، خاتم النبیین محمد مصطفیؐ، تمام انبیائے کرام علیہم السلام، خلفائے راشدین، امہات المومنین، اہل بیت اطہار، تمام اصحاب رسول رضی اللہ عنہم، تمام آسمانی کتابوں، تمام فرشتوں کی توہین کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس بل کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے نفاذ کے بعد صوبہ پنجاب میں نہ تو متنازعہ اور گستاخانہ مواد پر مشتمل کوئی کتاب چھپ سکے گی اور نہ ہی کوئی لٹریچر شائع ہوسکے گا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اس بل کو دین اسلام کی حفاظت اور سربلندی کےلیے سنگ میل قرار دیا ہے۔

بلاشبہ یہ بل اراکین پنجاب اسمبلی بالخصوص وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے ملک میں دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کےلیے اہم کردار ادا کیا ہے جسے تمام کے تمام دینی حلقوں اور عوام کی طرف سے سراہا جارہا ہے۔ پنجاب میں بہت سی ایسی کتب پر پابندی لگادی گئی ہے جن میں گستاخانہ مواد موجود تھا۔ ان کتب میں صرف دین اور مسلمانوں کی نمایاں شخصیات ہی نہیں بلکہ وطن عزیز پاکستان کے خلاف بھی بہت سی قابل اعتراض باتیں شامل تھیں۔ اس حوالے سے پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی رائے منظور ناصر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی 10 ہزار کتابوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس کام کےلیے 30 کمیٹیاں کام کررہی ہیں اور فوری طور پر بورڈ نے 100 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان کتب میں جو صریح غلطیاں کی گئی تھیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 31 پبلشرز کی ان 100کتب میں سے کسی کتاب میں قائداعظم اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش غلط درج ہے، کسی کتاب میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، کسی کتاب میں آزاد کشمیر کو انڈیا کے نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ جبکہ ایک کتاب میں مہاتما گاندھی کے قول کو شائع کیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کا موازنہ کرتے ہوئے بھارت کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

یہ وہ قابل اعتراض مواد تھا جس کے ذریعے وطن کے نونہالوں کی ذہنیت کو خراب کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ ایسی کتب پر بہت پہلے پابندی عائد ہونے کے ساتھ آئندہ ان کی اشاعت پر پابندی کےلیے قانون سازی ہوجانی چاہیے تھی لیکن اب بھی اگر یہ عظیم اور انتہائی اہم کام ہوگیا تو بھی بہت غنیمت ہے۔ عوام اور علما نے بہت بڑے پیمانے پر اس قانون کا خیر مقدم کیا اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تعریف کی۔ اس قانون میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے فرقہ واریت کو ہوا ملے یا کسی کی دل آزاری ہو۔ اس کے باوجود گنتی کے چند افراد کی طرف سے اس پر تنقید کی جارہی ہے اور وہ اسے رکوانے کےلیے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور دیگر اہم عہدیداران سے رابطے کررہے ہیں اور طرح طرح کی بے تکی دلیلیں دے کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کے چند اعتراضات یہ ہیں کہ توہین مذہب اور پیغمبر اسلامؐ کی شان اقدس میں توہین کا قانون پہلے سے ہی آئین میں موجود ہے تو اس قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پہلے سے موجود قانون پر جب آپ کو اعتراض نہیں ہے تو اب اس قانون پر کیوں اعتراض کررہے ہیں؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ اسی کو مزید پختہ کیا جارہا ہے یا اس بھولے ہوئے سبق کی یاد دہانی ہے۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 19، 20 اور 227 کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کا آئین ہر مسلک، فرقے اور مذہب کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ملک کا آئین ہی تو توہین آمیز مواد کی اشاعت اور اسلام کی عظیم شخصیات کی توہین سے بھی منع کرتا ہے اور اس بل میں بھی تو یہی کہا گیا ہے۔ لہٰذا یہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔

تیسرا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ اس سے بیرون ممالک سے علمی کتب کی درآمد بند ہوجائے گی اور عوام جدید علوم اور دنیا کے تحقیقی لٹریچر سے محروم ہوجائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قانون کے تحت صرف اسلامیات کی کتب، وہ بھی جن میں گستاخانہ اور غلط مواد شامل ہو، ان کی درآمد پر بلکہ ملک میں بھی شائع ہونے پر پابندی عائد ہوئی ہے۔ باقی کسی سائنسی اور جدید علوم پر مبنی کتب کی درآمد پر پابندی کی بات کرنا صرف آپ کا تعصب اور عوام کا ذہن خراب کرنے کی کوشش ہے۔ باقی اس قانون میں ایسی کوئی بات نہیں۔

چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس قانون سے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوں گے کیونکہ اس بل میں انسانی سوچ اور فکر پر قدغن عائد کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحت کہیں بھی انسانی فکر اور سوچ کو اس حد تک آزادی حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کے جذبات بالخصوص مذہبی جذبات مجروح کرنے کا باعث بنے۔ بلکہ دوسروں کو اس بات سے روکا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کی قدر کریں اور اس حد تک نہ بڑھیں کہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور یہ بات نزاع کا باعث بنے۔ اس بل میں بھی فقط مذہبی شخصیات کی توہین اور ان کا احترام کرنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ کوئی مواد ملک کی غالب بلکہ اغلب آبادی کے جذبات مجروح کرنے کا باعث نہ بنے۔

یہ بل بنیادی طور پر ملک کی بہت بڑی آبادی کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ لہٰذا ملک کی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اب گورنر پنجاب کو چاہیے کہ وہ اس بل کو منظور کرنے میں دیر نہ کریں اور اس پر دستخط کرکے فوری طور پر نافذ کردیں۔ اس طرح عوام اور دینی حلقوں میں تو آپ کا مقام بلند ہوگا لیکن عوام آپ کو اس کا اجر نہیں دے سکتے بلکہ اس کا اجر اللہ رب العزت ہی دے گا اور اس کا دیا ہوا اجر و انعام بہت ہی عظیم ہوگا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا تھا، تو آج کوئی چاہے ان سے کتنا بھی سیاسی اختلاف رکھتا ہو لیکن جب ختم نبوت کا مسئلہ آتا ہے تو وہاں ذوالفقار علی بھٹو کا نام احترام سے لیا جاتا ہے اور انہیں تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ اب آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک موقع عطا کیا ہے کہ آپ اس کے برگزیدہ بندوں کی ناموس کے تحفظ کا عظیم کارنامہ سرانجام دے کر اس کی بارگاہ میں سرخرو ہوں اور کسی کے دباؤ میں آئے بغیر اس بل کو منظور کرکے فوراً نافذ کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔