منافقت کی یونیورسٹی

راضیہ سید  جمعرات 6 اگست 2020
منافقت یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

منافقت یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’اوہو خیر تو ہے! آپ جیسا ایماندار آدمی نذیر صاحب جیسے کھڑوس اور بددماغ باس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ اسماعیل یار تم سے ایسی توقع تو نہ تھی۔ کم ازکم تم تو ایسا نہ کرتے۔ میٹنگ میں تم ان کی ہاں میں ہاں ملائے جارہے تھے جب کہ ان کے کچھ پوائنٹس تو بالکل ناقابل عمل اور کافی حد تک غلط بھی تھے۔ آخر ایسا بھی کیا؟‘‘ سلیم نے اپنے جگری دوست اسماعیل کو لتاڑا تو آنسو اسماعیل کا چہرہ بھگونے لگے۔

’’بس کیا بتاؤں یار! اب 15 ہزار سیلری میں گزارا نہیں ہوتا۔ ایک طرف مالک مکان نے مکان کا کرایہ بڑھا دیا، دوسری طرف فیملی کے خرچے۔ میں اتنا پریشان ہوچکا ہوں کہ اب سوچ رہا ہوں کہ کچھ منافقت ہی سیکھ لوں۔ جب کمپنی کا مالک ہی خوش نہیں ہوگا، ہم اس کے کہنے پر نہیں چلیں گے تو تنخواہ کیا خاک بڑھے گی؟ کیا بونس ملنے کا کوئی امکان باقی رہے گا؟ تم خود بتاؤ ایک غریب، بے کس اور مجبور باپ کیا کرے؟ کس طرح اپنا اور اپنے بچوں کا دل مارے؟ کس طرح اپنے خاندان والوں کی کفالت کرے؟ بس چھوڑ دی میں نے اپنی ایمانداری، ختم کردی اپنی عزت نفس، کرلیا سودا اپنے ضمیر کا۔ جب پیٹ خالی ہو ناں تو بڑے بڑے سپنے دیکھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔‘‘

اسماعیل پر گزرنے والی داستاں جگہ جگہ بکھری پڑی ہے۔ ملازم اپنی نوکری کے ہاتھوں مجبور ہر جائز و ناجائز کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہر خاندان بھی اس منافقت سے محفوظ نہیں۔ ساس ہے تو بہو کے منہ پر کچھ کہتی ہے اور بیٹے کو کچھ بتاتی ہے۔ بہو ہے وہ شوہر کو کچھ اور ساس کو کچھ کہتی ہے۔ اس طرح ہر کسی کے دماغ میں ایک نئی کہانی چلتی رہتی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کھچڑی پکتی رہتی ہے۔

اساتذہ کلاس میں بچوں کو توجہ نہیں دیتے۔ جواباً بچے عزت و احترام نہیں کرتے۔ وہی اساتذہ جنہیں کلاس میں 80، 80بچوں کو پڑھانا آزار لگتا ہے، وہی ٹیوشن پڑھنے والے اپنے طالب علموں کو امتیازی نمبروں سے پاس بھی کرتے ہیں، ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کو دیکھ لیجئے۔ سرکاری اسپتالوں میں ناک بھوں چڑھائیں گے اور کلینک میں مریضوں کا خوب استقبال کیا جائے گا۔

رشتے دار ساتھ گلی میں رہتے ہوں گے، آپ کا حال نہیں پوچھیں گے۔ ہاں سوشل میڈیا پر آپ کے حوالے سے تعریفی جملے اور اسٹیٹس لگا دیں گے۔ ایسا ظاہر کریں گے کہ ان جیسا خیر خواہ کوئی ہے ہی نہیں۔ رشتے دار تو چلو کم ہی لوگوں کے اچھے ہوتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو آج کل تو دوستی کا رشتہ بھی ختم ہوگیا، کیونکہ وہ بھی منافقت سے پُر ہے۔ وہ زمانہ گیا جب دوست ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ الطاف حسین حالی کا شعر تھا
آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

لیکن اب بالکل اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب دوست بھی برادران یوسف بن چکے ہیں۔ ایسا آپ کی پیٹھ میں خنجر گھونپیں گے کہ اللہ کی پناہ۔ آپ کبھی یقین بھی نہیں کریں گے کہ آپ کا ایسا مخلص دوست یا مددگار کولیگ آپ کے ساتھ ایسی ناانصافی کرسکتا ہے۔ ایسی منافقت کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوگا کہ دور ہی ایسا ہے، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔

مجھے اس بات سے پہلے بہت چڑ تھی کہ لوگ منافق کیوں ہوتے ہیں اور کم از کم مجھے منافق نہیں ہونا چاہیے۔ دوسروں کے ساتھ مخلص رہنا چاہیے۔ لیکن زندگی کے پے در پے تجربات نے مجھے یہ سکھادیا کہ میں غلط تھی۔ کیونکہ جو ہمارے حکمران ہیں وہ منافق ہیں۔ بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ روٹی، کپڑا، مکان ملے گا، نیا پاکستان بنے گا، مدینہ کی ریاست بنے گی۔ یہ ہوگا وہ ہوگا۔ لیکن ہے منافقت۔ ہم ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کریں گے پھر منافقت سے نماز بھی پڑھ لیں گے۔ کسی کو بھی توہین رسالت اور کسی اور مذہبی ایشو پر قتل کردیں گے، حالانکہ عدالتوں کو فیصلے کا اختیار ہے لیکن ہم سکون سے اللہ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔

نالائق افراد کو ان کے تعلقات اور اثرورسوخ کی بنا پر آگے لائیں گے اور رونا پیٹنا سسٹم پر ڈال دیں گے۔ حق دار کا حق ماریں گے، زنا کریں گے، چوری کریں گے، دھوکے بازی، مکاری کریں گے اور پاک صاف ہوجائیں گے۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ لیکن نہیں یہ منافقت نہیں۔ اس لیے کہ منافق بندہ کبھی اپنی منافقت کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اسے مصلحت کا نام دیتا ہے۔ صاف گو انسان کی اس معاشرے میں نہ تو کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ ہی جگہ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ مار ہی کھاتا ہے چاہے دفتر ہو یا گھر۔

ہم ساری زندگی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ وہاں علم حاصل کرنے کےلیے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ لیکن منافقت نہیں سیکھتے۔ آخر کیوں؟ جبکہ عام زندگی میں تو بی اے، ایم اے کی ڈگری کام نہیں آنی۔ کیونکہ ایک مڈل پاس بندہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو چونا لگا کر چلا جاتا ہے اور آپ سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کرسکتے۔

جب یہ ڈگریاں، یہ اخلاقیات، خلوص، محبت، روداری ہمارے کام نہیں آنی تو ایک ایسی یوینورسٹی تو کھولنی چاہیے ناں جو منافقت یونیورسٹی ہو۔ جو ہمیں چہرے پر معصومانہ مسکراہٹ اور دل میں بغض پیدا کرنا سکھائے۔ اب اس منافقت یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔