سوشل میڈیا کی شتر بے مہاری کا کیا علاج ؟

مزمل سہروردی  جمعرات 6 اگست 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سوشل میڈیا کے حوالے سے پاکستان میں بحث جاری ہے۔ ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے بھی سوشل میڈیا پر سخت اظہار ناراضی کیا ہے۔

حکومت بھی سوشل میڈیا سے خوش نہیں ہے لیکن پھر بھی سوشل میڈیا کو بند کرنے کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔سوشل میڈیا کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ سوشل میڈیا شتر بے مہار بن گیا ہے، ویسے توحکومت کی مین اسٹریم میڈیا کے حوالے سے بھی یہی رائے ہے ۔

پاکستان کے ریاستی و قانونی ادارے بھی سوشل میڈیا سے سخت ناراض ہیں۔ جن صحافیوں نے سوشل میڈیا کو صحافت کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، ان کے بارے میں بھی یہ رائے بن رہی ہے کہ یہ نہ صرف ریڈ لائن کراس کرتے ہیں بلکہ کسی قانون اور ضابطے کے ماتحت بھی نہیں ہیں۔ یہ اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک رائے ہے کہ جو حضرات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سخت قواعد و ضوابط کی وجہ سے اسے چھوڑ گئے ہیں کیونکہ الیکٹرانک اورخصوصاً پرنٹ میڈیا میں پگڑیاں اچھالنا ممکن نہیں، اس لیے سوشل میڈیا کو اس کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو بات مین اسٹریم میڈیا پر کہنا ممکن نہیں، اسے سوشل میڈیا پر باآسانی کہی جاسکتی ہے۔ ایک رائے یہ بھی موقف ہے کہ مین اسٹریم میڈیا پر اتنا دباؤ آگیا ہے کہ اب آزادانہ اظہار رائے کے لیے سوشل میڈیا کے سوا کوئی آپشن باقی ہی نہیں ہے۔ عوام تک سچ پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا ہی واحد آپشن ہے۔

سوشل میڈیا صرف پاکستان میں ہی تنازعہ کا شکار نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں تنازعات کا شکار ہے۔ صرف پاکستان کے حکمران اور ادارے ہی سوشل میڈیا سے نالاں نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں حکمران طبقہ اور سرکاری ادارے سوشل میڈیا سے ناراض نظر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک بھی سوشل میڈیا کے جن کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں یہ رائے بھی بن رہی ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو شتر بے مہار سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا کو کھا جائے گا۔

الیکٹرانک میڈیا قوانین کا پابند ہے۔ سوشل میڈیا کسی ادارے کے ماتحت نہیں ہے۔ پرنٹ میڈیا کے لیے بھی قواعد موجود ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ دنیاکے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں ہر قسم کے میڈیا کو صرف ہتک عزت کے ایک قانون نے کنٹرول کیا ہے۔

پاکستان میں بھی یہ قانون تو موجود ہے لیکن بدقسمتی سے یہ فعال نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دنیا نے اس ایک قانون کو فعال کر کے نہ صرف صحافت کو ٹھیک کیا ہے بلکہ سیاست کو بھی ٹھیک کیا ہے۔ دشنام درازی صرف صحافت میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاست کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جھوٹے الزمات صرف سوشل میڈیا سے ہی نہیں آرہے بلکہ ہمارے سیاستدان بھی ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات کی انتہا کر دیتے ہیں۔ اس طرح جھوٹے الزامات کی وجہ سے صرف پاکستان کی صحافت ہی نہیں بلکہ سیاست بھی آلودہ ہے۔ جھوٹ کی آزادی نے پورے معاشرے کو بھی آلودہ کیا ہے اور ایک ماحول بن گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ بڑھ گیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے نبٹنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا مین اسٹریم میڈیا یا سوشل میڈیا پر پابندی اس سے نبٹنے کا درست طریقہ ہے؟ میرا خیال ہے، نہیں۔ اسی طرح سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر بے سروپا اور جھوٹے الزامات کی بنا پر سیاست پر پابندی بھی جائز نہیں۔ کسی بھی شعبہ پر پابندی مسئلہ کا حل نہیں۔ ہم نے ماضی میں سنسر شپ لگا کر دیکھی ، اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ا ٓج بھی میڈیا کو بالواسطہ کنٹرول کرنے کی کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے بلکہ اس کا منفی ردعمل ہی سامنے آرہا ہے۔ سوشل میڈیا کو بھی غیرمعمولی قوانین سے کنٹرول کرنے کا بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملے گا۔ بلکہ مساوی اور منصفانہ قوانین کے ذریعے ہی سوشل میڈیا کی شتر بے مہا ری ختم کی جا سکتی ہے۔

آج کل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے بھی سوشل میڈیا درد سر بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بھی پراپیگنڈا ہورہا ہے۔ ان پر کرپشن اور اقرباء پروری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مین اسٹریم میڈیا پر کسی کے خلاف یک طرفہ خبریں نشر کرنا یا چھاپنا ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں ایک ذمے دار مینجمنٹ اور ادارتی پالیسی ہوتی ہے جو کسی بھی حال میں یک طرفہ اور ایجنڈا خبریں چلانے یا چھاپنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر آپ نہ صرف یک طرفہ ایجنڈا خبریں چلا سکتے ہیں بلکہ جتنا چاہیں کسی کے خلاف یک طرفہ پراپیگنڈہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی فرق سوشل میڈیا کو متنازعہ اور لوگوں کے لیے باعث اذیت بنا رہا ہے۔

ریاست کو سوشل میڈیا کی شتر بے مہاری کا بظاہر کوئی علاج نظر نہیں آرہا۔ اس لیے مبینہ ایسے اقدمات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے، جن کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کی غیر قانونی شتر بے مہاری کا قانونی علاج ڈھونڈنا مشکل نظر آرہا ہے۔ سوشل میڈیا میں سب سے بڑا مسئلہ سرحدی حدود کا بھی ہے۔ کہاں کس پر کس ملک کا قانون لگے گا، اس نے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔ لوگ بیرون ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

بہرحال بات وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہو رہی تھی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پراپنے خلاف ہونے والی باتوں کا جواب دینے کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی شتر بے مہاری ختم کرنے لیے قانون کا سہارا لینا ہی درست راستہ ہے۔ غیر قانونی راستے سے درست نتیجے کی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ پہلے بھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دو افراد کو لیگل نوٹس بھیج رکھے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جانب سے قانون کا راستہ اپنانا مثبت بات ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ہتک عزت کے مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے لیے لائحہ عمل بنائے اور ایسے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا قانون بنا دیا جائے۔ اگر ہم ہتک عزت کے مقدمات کے جلد اور بروقت فیصلوں کو یقینی بنا لیں تو سوشل میڈیا کی شتر بے مہاری کیا ، پورے معاشرے سے جھوٹ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جہاں تک سوشل میڈیا کے ان لوگوں کا تعلق ہے جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستان پر بات کرتے ہیںاور خود کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے بھی کوئی قانونی راستہ تلاش ہی کرنا ہوگا۔ اسی میں سب کی بہتری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔