سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  جمعرات 6 اگست 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

بچے کہتے کہ بکروں کو چھریاں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

بچپن میں ہماری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ بقرعید سے بہت دن پہلے بکرا ہمارے گھر آجائے۔۔۔ تاکہ ہم اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دن گزار سکیں۔۔۔ لیکن اکثر دو، تین یا چار دن پہلے ہی یہ مرحلہ طے ہو پاتا تھا۔۔۔ اور تب تک گھر میں ابو سے ہر وقت اس معاملے پر گفتگو رہتی کہ بکرا کب اور کیسے لائیں گے۔۔۔؟ اور جس روز جانور آنا ہوتا تھا، تو اس وقت اضطراب بھی عجیب ہوتا تھا۔۔۔

رات کو ابو منڈی جاتے تھے، تو ہم گن گن کر یہ گھڑیاں گزارتے، بیچ رات کو بھی اگر آنکھ کھلتی، تو اٹھ اٹھ کر دیکھتے کہ شاید بکرا آگیا ہو۔۔۔ کبھی صبح ہونے پر آنکھ کھلتی تو ادھ کھلی آنکھوں سے دوڑ کر برآمدے میں جھانکتے، گھر کی آنگنائی دیکھتے یا پھر ڈیوڑھی کا رخ کرتے کہ جہاں متوقع طور پر بکرا موجود ہوتا، تو سمجھیے، اصل خوشی اور ’عید‘ تو اسی وقت ہوجاتی، لیکن کبھی مایوسی بھی ہوتی، پتا چلتا بکرا نہیں مل سکا، اب ابو کل دوبارہ جائیں گے۔۔۔ ہم دل مسوس کر رہ جاتے کہ لو بھئی، چار دن میں سے بھی ایک دن اور گھٹ گیا۔۔۔

پھر جب گھر میں قربانی کے یہ ’’مہمان‘‘ آجاتے، تو پھر گویا دن اور رات سبھی پلٹ جاتے۔۔۔ بس بکرا ہوتا اور ہم ہوتے۔۔۔ بقول امی کے کہ ہم بکرے کے ساتھ خود بکرے بن جاتے! اس کے کھانے پینے اور صفائی کا تو خیال رکھنا ہی ہوتا، ساتھ ہی اسے دیگر ہم جولیوں کے ساتھ مل کر گھمانا پھرانا۔۔۔ اس کے پاس رہنا، اسے پیار کرنا، اس کے لاڈ اٹھانا، اُسے چمکارنا، اس کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کر اسے زور سے بھینچ لینا۔۔۔ ساری دنیا ایک طرف اور ہمارا بکرا ایک طرف۔۔۔ کھانا کھانے کے لیے بھی اس کے پاس سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ ہمارے اٹھتے ہی ’میں، میں‘ کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا۔۔۔ شاید ہی کبھی ایسا بکرا ملا ہو، جس نے بخوشی تخلیہ گوارا کیا ہو، جب کہ ہم پاس پڑوس میں دوسروں کے بکروں کو دیکھتے تھے۔

اکیلے ہونے کے باوجود بہت سے بکرے چیخ پکار نہیں کرتے تھے، جب کہ ہمارے ہاں ماجرا یہ ہوتا تھا کہ کبھی ہماری خالہ کے بکرے بھی ساتھ بندھے ہوں، تب بھی ہمارے ہٹنے کے بعد ’میں، میں‘ شروع ہوجاتی۔۔۔ سو، دن میں تو یہ ایک ’خوش گوار‘ مجبوری بن جاتی کہ ہم اس کے پاس ہی بیٹھے رہیں، لیکن اصل مسئلہ رات کے وقت پیدا ہوتا، اب ہم ظاہر ہے، اس کے ساتھ تو اپنا بستر لگانے سے رہے۔۔۔ چاروناچار ہمیں اسے اکیلا چھوڑنا ہی پڑتا۔۔۔ لیکن بستر پر لیٹنے کے بعد بھی جب ہمارے کانوں میں اِس کی ’پُکار‘ پہنچتی تو عجیب بے کلی سی رہتی، ایک عجیب احساسِ جرم ہوتا کہ بے زبان جانور ہمارے دور ہونے سے پریشان ہو رہا ہے، ہمارے لیے اس فکر میں نیند آنا بھی دوبھر ہوتا۔۔۔ اس لیے کئی بار اٹھ اٹھ کر اس کے پاس جاتے، اسے ’حوصلہ‘ دیتے کہ ’ہم یہیں ہیں۔۔۔ پریشان نہ ہوِ، خود بھی سو جاؤ اور ہمیں بھی سونے دو!‘ مگر یہ سب بے سود رہتا، پھر کسی نہ کسی طرح ہماری آنکھ بھی لگ جاتی اور پھر صبح اٹھتے کے ساتھ ہی منہ ہاتھ دھونے سے پہلے پانی لیے اس کے پاس جاتے۔۔۔ صفائی کرتے اور پھر اس کے کھانے کا انتظام۔۔۔

اب بکرے سے اتنے ’قریبی‘ تعلق رکھنے کے باعث ظاہر ہے ہمیں یہ احساس ہوتا کہ گھر میں جائیں، تو کم ازکم منہ ہاتھ دھو کر لازمی کپڑے بدل لیں۔۔۔ ویسے بھی بعض اوقات آپ اگر جانور سے دور دور بھی رہنا چاہیں، تب بھی جانور تو جانور ہے، کوئی چھینٹیں چھانٹیں کپڑوں پر پڑ ہی جاتیں، کچھ نہیں تو ’موصوف‘ اچانک چھینک دیے، تو ظاہر ہے نہ ان کے پاس رومال ہے اور نہ وہ منہ پر ہاتھ رکھ سکتے ہیں، ایسے میں آپ کے ’متاثر‘ ہونے کے کافی خدشات ہوتے ہیں، ہم بطور خاص ان چیزوں کا بھی دھیان رکھتے۔

بکرے کی ’مہمان نوازی‘ کے ان تین چار دنوں میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش یہ وقت بہت دیر کے لیے رک جائے۔۔۔ مگر وقت کہاں رکا ہے بھئی۔۔۔ سو الٹی گنتی چلتی، چار، تین، دو اور ایک کے بعد پھر صفر، یعنی ’بقر عید‘ کا دن آجاتا۔۔۔! اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا جائے، تو معصوم جانور کو دیکھ کر ایسی فکرمندی ہوتی کہ کچھ دیر بعد چھُری اس کے نہیں، بلکہ ہمارے گلے پر پِھرنا ہے۔۔۔ اور پتا نہیں ایسے کیوں ہوتا تھا کہ ’بقرعید‘ کے پاس بہت سے جانوروں کی آنکھوں سے آنسو بہے ہوئے ہوتے تھے، کبھی ہمارے بکرے کی آنکھوں سے بھی پانی نکلا ہوا ہوتا تھا۔۔۔ بچے لوگوں میں یہ بہت مشہور تھا کہ انہیں بقرعید سے پہلے آخری رات کو چھُریاں نظر آتی ہیں۔۔۔ کوئی یہ کہتا کہ انہیں یہ چُھریاں اِس رات آسمان پر دکھائی دیتی ہیں۔۔۔

اب اللہ جانے کہ بچوں میں یہ بات کیوں اور کیسے مشہور ہوئی۔۔۔ بہرحال ہم بوجھل دل کے ساتھ عیدالاضحیٰ کی نماز کے لیے جاتے ہوئے نئے کپڑے اور نئی جوتی پہنتے۔۔۔ لیکن رہ رہ کر ہمارا دل وہیں اپنے بکرے میں اٹکا رہتا۔۔۔ ہم سوچتے اِس بے چارے کو کیا پتا ہے کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔

پھر عید کی نماز بھی پڑھ آتے اور پھر بالآخر وہ وقت آن پہنچتا، جب اُسے اللہ کے حضور قربان کر دیا جاتا۔۔۔ یہ مرحلہ ہم کافی تکلیف کے ساتھ جھیلتے اور کئی بار کوشش کی کہ اس مرحلے پر دانستہ دائیں بائیں ہو جائیں۔۔۔! اب تو ہم خیر سے بچّے نہیں رہے، لیکن اپنے ہاتھ کے کھلائے پلائے جانور کے ذبح ہونے کا مرحلہ اب بھی آسان محسوس نہیں کرتے۔ البتہ یہ خواہش ضرور رہی ہے کہ کم ازکم اسے ذبح ہوتے ہوئے جانوروں اورخون وغیرہ سے دور رکھا جائے، اس کی نگاہ ایسے کسی منظر پر نہ پڑے، جو واقعی غیرمناسب ہے۔ حکم بھی یہ ہے کہ جانور سے چُھریاں اور اس طرح کے اوزار وغیرہ بھی چھپا کر رکھے جائیں۔۔۔ لیکن اب لوگ اس کی احتیاط کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔۔۔ اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

۔۔۔

دادا ابو بہت کم مسکراتے تھے

وریشا ذوالفقار

شہرقائد کے سب سے بڑے ضلعے، ضلع ’وسطی‘ کو شہر کے مشرقی حصے سے علاحدہ کرنے والے ’لسبیلہ چوک‘ سے پل اترتے ہی گولی مار (گل بہار) کی جانب بڑھیں، تو بائیں جانب جاتی سب ہی گلیاں میری نانی کے آشیانے کا پتا دیتی ہیں۔۔۔ میں اپنی مما کا ہاتھ پکڑ کر خوشی خوشی سڑک پار کرتے وہاں کی مشہور زمانہ ’پیتل گلی‘ اور ’پھول والی گلی‘ سمیت کسی بھی گلی سے گزر کے ہم اپنی نانی کے گھر پہنچ جاتے، وہاں کوئی آسائش نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ خوشیاں اور سکون ہوتا تھا۔ نانی دیکھتے ہی مسکراتی اور کہتیں آگئی میری بچی اور فوراً دوسرا سوال کیا کھائے گی ہوتا تھا۔ نانا، نانی کی موجودگی تک اس گھر میں کبھی کوئی مہمان یا محلے دار بنا کسی خاطر مدارت کے نہیں لوٹتا تھا۔

وہ گھر جہاں نانی جان چھڑکتی تھیں، خالائیں خیال رکھتی تھیں۔ نانا ابو کہانی سناتے سناتے زندگی کا صحیح غلط سمجھایا کرتے، وہاں جاکر نہ اسکول کے ’ہوم ورک‘ کی فکر ہوتی تھی، نہ سپارہ پڑھنے جانے کی، اس لیے وہاں قدم رکھتے ہی سکون کا ایسا احساس ہوتا تھا، جو آج شاید دنیا کے مہنگے ترین سیاحتی مقام پر جا کے بھی نہ ملے۔ دن بھر کھیل کود کے بعد جب رات کو گھر جانے کا وقت آتا تو ہم جھوٹ موٹ سونے کا ناٹک کرتے اور امی ہمیں ماموں کی بائیک پر لاد کر زبردستی گھر لے آتیں۔

دوسری طرف ہمارے دادا کا گھر ملیر، سعود آباد میں ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے، جب وہاں جاتے تو دادا ابو پہلا سوال بھی یہی کرتے کہ ’کہو بھئی، کتنے دن کا ویزا ملا ہے۔۔۔؟‘ بچپن میں ہم وہاں ناشتے میں مشہور اسٹوڈنٹ بیکری کے پاپے بہت شوق سے کھاتے تھے۔ اس وقت نیند بھی تو کتنے کمال کی آتی تھی، رات کو آنکھ کھلے تو پانی پینے کے لیے جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا، وہاں رات نو بجے کے بعد جاگنا ایک معرکہ ہوتا تھا۔ صبح اسکول کے لیے اٹھنے اور وین آنے تک گھر میں جو ہل چل رہتی تھی، وہ الگ ہی ماجرا ہے۔ ایک بھائی اسامہ کو ڈانٹ پڑنا، اور دوسرے بھائی مانی کو اسکول جانے کا بہت شوق ہونا اور میرا اسکول کے وین کے انتظار تک سائیکل چلانا۔

آج بچے جب بڑے ہونے کی خواہش کرتے ہیں، تو میں سوچتی ہوں کہ ہم بھی کبھی ایسی دعا کرتے تھے اور آج بڑے ہوگئے۔ وقت گویا پر لگا کر اڑگیا اور اب بس زندگی شاید واپسی کا سفر طے کر رہی ہے، بہت تیزی سے دن سے رات اور رات سے دن بدلتے جا رہے ہیں۔ دادا ابو، نانا، نانی وہ پیارے لمحے اور باتیں سب ماضی ہوگئے ہیں۔ ہمارا دادی کے گھر جانا بھی ایک اہم مرحلہ ہوتا تھا، خاص طور پر اگر پاپا کے ساتھ جانا ہو، پہلے سب بچوں کے کپڑے منتخب ہوتے۔ ہمیں سکون ہوتا تھا کہ پاپا خوب لاڈ اٹھائیں گے۔ یعنی ٹیکسی میں لے کر جائیں گے، ورنہ مما تو ہمیں بسوں میں لے کر جاتی تھیں ناں، پھر پورے راستے پاپا یہ سمجھاتے ہوئے جاتے کہ وہاں گھر میں داخل ہوتے ہی سب کو سلام کرنا، بہت تمیز سے رہنا وغیرہ۔ ویسے ہم تینوں بہن بھائی زیادہ شرارتی تھے بھی نہیں۔

نانا ابو جتنے دوستانہ ماحول میں رہتے تھے اور پیار کا اظہار کرتے رہتے تھے، دادا ابو اس کے برعکس ظاہراً غصہ دکھاتے، پر اندر سے اپنے گھر میں بچوں کی رونق دیکھ کر انہیں بھی خوشی ہوتی تھی۔

ہمارے دادا ابو بہت کم مسکراتے تھے، لیکن آج بھی چشم تصور میں ان کی مسکراہٹ موجود ہے۔ دادا ابو کا ’اسٹور روم‘ گھر کی چھت پر تھا، جو انہیں اپنی ’خواب گاہ‘ سے بھی زیادہ عزیز تھا اور ہم وہاں گھس کر مختلف چیزیں دیکھ کر ایسے خوش ہوتے تھے جیسے کوئی خزانہ ہمارے ہاتھ لگ گیا ہو۔ ہمارے اسٹور میں جانے پر ہمیں خوب ڈانٹ بھی پڑتی تھی، سب کزن مل کر تایا ابو کے ڈرائنگ روم میں جا کر کمار سانو کے گانے سنتے تھے۔

سب مل کے گرمی کی چھٹیوں میں کیماڑی سے منوڑہ جاتے تھے، یہ پاپا کا پسندیدہ پکنک پوائنٹ تھا، وہاں جا کر آم کھانا بھی ہماری ایک روایت بنی ہوئی تھی۔۔۔ ایسے پُرلطف لمحے ہوتے تھے کہ ہم دعا کرتے تھے آج کے دن وقت ہی نہ گزرے اور پھر گھر جانے کا وقت آ ہی جاتا تھا۔ کبھی ’سند باد‘ جانا ہوتا، تو یہ ایسا ہوتا تھا، جیسے امریکا کے ڈزنی لینڈ آگئے ہوں۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں زندگی کو حسین بنا دیتی تھیں، پیسہ کیا ہوتا ہے، کہاں سے آتا ہے، کیوں کماتے ہیں نہیں پتا تھا۔۔۔ مگر اب زندگی آگے بڑھ چکی ہے۔

۔۔۔

’’شعرا کی غزلوں پر تالیوں کی جگہ داد دی جائے!‘‘

صبا اکبر آبادی

راول پنڈی میں میرے ایک دوست سمت پرکاش جین ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لگے ہوئے تھے۔ جین ہونے کے باوجود اردو زبان اور شعر کے عاشق دل دادہ تھے۔ راول پنڈی اور نواح کے تمام اردو شاعروں سے ان کے گہرے مراسم تھے، جن میں عبدالعزیز فطرت، تلوک چند محروم، فیض احمد فیض نمایاں تھے۔ راول پنڈی کے کمشنر نے وار فنڈ (war fund) کے سلسلے میں ایک ’کل ہند‘ مشاعرے کا اہتمام کیا، وہاں جگر، سیماب، صوفی تبسم، ساغر نظامی، عابد علی، تلوک چند محروم نے بھی شرکت فرمائی۔ حفیظ ہوشیار پوری ریڈیو کی جانب سے غالباً مشاعرے کی کارروائی ریکارڈ کرانے کے لیے تشریف لائے تھے۔

اس لیے کلام نہیں سنایا۔ مشاعرہ ایک سینما ہال میں منعقد ہوا تھا۔ اگلی صف میں ایک جانب انگریز اور دیگر افسران کی کرسیاں تھیں، تو دوسری جانب عمائدین شہر کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ مشاعرے کے آغاز میں سمت پرکاش جین نے ’سپاس نامہ‘ پڑھا اور بتایا کہ اس مشاعرے کی تمام آمدنی ’جنگی فنڈ‘ میں دی جائے گی۔ حسرت موہانی نے اپنے خطبۂ صدارت میں انگریزوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم لوگ آپ سے بحیثیت قوم اور انسان عداوت نہیں رکھتے، بلکہ اس طرز حکومت کے خلاف ہیں جو آپ نے ہندوستان میں قائم کر رکھی ہے اور جس کا ڈھلتا سورج ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ ہم اس مشاعرے میں آپ کی محبت میں نہیں، بلکہ نازی ازم اور فاشزم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے جمع ہوئے ہیں۔

مولانا کی پرجوش تقریر پر سامعین تالیاں بجا کر ان کی تائید کر رہے تھے۔ گورے افسران بھی گاہ گاہ تالیاں بجا دیتے تھے۔ آخر میں مولانا نے سامعین کو مخاطب کر کے کہا اب میں آپ سے عرض کروں گا کہ شعرا کی غزلوں پر تالیوں کی جگہ داد دی جائے یا خاموشی اختیار کی جائے کیوں کہ مشاعرے کے آداب یہی ہیں۔

۔۔۔

’’حاملِ ہٰذا کو مطالبے پر ادا کرے گا‘‘

مرسلہ: سارہ یحییٰ، کراچی

ہمارے استاد نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا کہ کرنسی نوٹوں پر لکھی ہوئی اس تحریر ’’حامل ہٰذا کو مطالبے پر ادا کرے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی حکومت آپ کے مطالبے پر اس نوٹ کے برابر سونا ادا کرنے کی پابند ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح جسے ’انفلیشن‘ یا ’افراطِ زر‘ کہتے ہیں، اس کا صرف سو سال پرانا ہے، کیوں کہ پچھلی ایک صدی کے دوران کاغذی کرنسی کی قیمت کئی سو گنا گر چکی ہے۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ آج غربت اور افلاس کی سب سے بڑی وجہ ہی کاغذی کرنسی اور اس پر دیا جانے والا سود ہے۔ جب ہم ’آئی ایم ایف‘ سے قرض لیتے ہیں، تو اصل میں ڈالر ہمارے پاس منتقل نہیں ہوتے، بلکہ امریکا میں ہی کسی بینک میں موجود ایک اکاؤنٹ میں صرف کمپیوٹر کے ذریعے ’ٹرانزیکشن‘ ہوتی ہے۔ اس اکاؤنٹ میں بھی ڈالرز منتقل نہیں ہوتے۔ آج تک دنیا میں موجود ڈالرز کا صرف تین فی صد چھاپا گیا ہے۔

باقی 97 فی صد ڈالر صرف کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس میں محفوظ ہیں۔۔۔! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے کسی بھی ملک کی جانب سے سونے چاندی کی کرنسی جاری کرنے کی راہ میں مزاحم ہے، اور لیبیا کے مشہور حکم راں کرنل معمر قذافی کے ’جرائم‘ میں ایک بات یہ بھی شمار کی جاتی ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے تھے۔۔۔ اس لیے انہیں اپنے ہی ملک میں باغیوں کے ہجوم سے مروا دیا گیا۔ دوسری طرف سعودی عرب سے ایران تک تمام پیٹرول برآمد کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ پیٹرول صرف ڈالروں کے بدلے بیچا جائے، نہ کہ بیچنے یا خریدنے والے ملک کی کرنسی میں۔۔۔ حقوق اور اصولوں کے شور میں یہ تمام باتیں کچھ سمجھ میں نہیں آتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔