جنسی تعلیم میں علما اور والدین کا کردار

محمد عمران چوہدری  جمعرات 6 اگست 2020
ہمیں حدود وقیود کے ساتھ جنسی تعلیم کی اجازت دینا ہوگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمیں حدود وقیود کے ساتھ جنسی تعلیم کی اجازت دینا ہوگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بات کرتے کرتے وہ اچانک رکے اور بولے کہ عمران میاں مختصر بات یہ ہے کہ داعی بن جاؤ وگرنہ مدعو بن جاؤ گے۔ میں نے نہ سمجھنے کے انداز میں ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے ’’اگر آپ داعی نہیں بنو گے تو مدعو بن جاؤ گے۔ اس لیے ہر جگہ، ہر موقع پر، ہر کسی کو دعوت دو۔ اگر آپ دوسرے کو دعوت نہیں دو گے تو وہ آپ کو دعوت دے گا۔ یہی تبلیغ کا سادہ اصول ہے۔‘‘ جی ضرور کہہ کر میں نے اجازت چاہی اور گھر کی راہ لی۔

یہ 2014 کا واقعہ ہے۔ میں ان دنوں شارجہ میں نیا تھا۔ میرے ایک دوست مجھے عاصم صاحب سے ملوانے لے گئے۔ عاصم صاحب تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی وقت گزارتے ہیں۔ ابتدائی گفتگو کے بعد انہوں نے تبلیغ کے کام کی نوعیت اور طریقہ کار کے متعلق (اپنے تجربے کی روشنی میں) بات کرتے ہوئے مندرجہ بالا گفتگو کی، جو زندگی کی بھاگ دوڑ میں میرے دماغ سے محو ہوگئی۔ کیونکہ پردیسی جانتے ہیں کہ دیارِ غیر میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ اگر نیند ہی پوری ہوجائے تو غنیمت ہے۔

مختلف اوقات میں جنسی تعلیم کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو سن کر مجھے عاصم صاحب یاد آگئے۔ آج نہیں تو کل ہمیں اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے ہماری موجودہ نسل غیروں کی دعوت لینے والی بن جائے، ہمیں خود ان کو اپنی اقدار کی طرف دعوت دینا ہوگی۔ کیونکہ سال 2018 میں گوگل کی جانب سے ایک سروے میں پاکستان کو فحش ویب سائٹس دیکھنے والے ملکوں میں سرفہرست قرار دیا گیا۔

ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسطاً ایک ہزار سے زائد بچے بچیاں اغوا کرلیے جاتے ہیں۔ ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم لڑکے لڑکیوں کی اوسط تعداد بھی ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے سرگرم ایک تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2017 کے مقابلے میں 2018 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔ 2017 میں ایسے واقعات کی تعداد 3445 تھی جبکہ 2018 میں یہ بڑھ کر 3836 ہوگئی۔ اسی طرح گزشتہ سال ہر روز دس بچے کسی بھی زیادتی کا نشانہ بنے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، حکومت، علما اور والدین کو مل کر ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ یا تو ہمیں حدود وقیود کے ساتھ جنسی تعلیم کی اجازت دینا ہوگی یا پھر بہترین حل یہ ہے کہ حکومت ملک میں اسلامی تعزیرات کا نفاذ کردے۔ انشاء اللہ ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں نہ صرف زیادتی کے واقعات بلکہ دیگر جرائم کی شرح ایک دم سے زیرو پر آجائے گی۔

والدین اپنے اوقات فارغ کرکے بچوں کو شرم و حیا سکھائیں۔ بچوں کی اوائل عمری سے ہی ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت کریں۔ بچوں کے لباس کا ان معاملات میں بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ آپ بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی حجاب اور پردے پر راغب کریں۔ بچوں کی دوستی اور مجلس کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی کن اور کس عمر کے بچوں کے ساتھ بیٹھ اور کھیل رہا ہے۔ جب آپ گھر سے بچے کی تربیت نہیں کریں گے تو باہر سے اس کی تربیت ہوگی۔ مگر وہ تربیت نہ صرف اس کے بلکہ آپ کے حق میں بھی اچھی نہیں ہوگی۔ بچوں کو محرم اور غیرمحرم کا نظریہ سمجھا دیں گے تو بہت سی دیگر چیزیں سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بچوں کو گھر میں دوستانہ ماحول فراہم کریں۔ اگر بچے کو گھر میں لڑائی جھگڑے اور چیخ و پکار کا ماحول ملے گا تو وہ اس سے فرار چاہے گا اور اس کا اس کی تعلیم و تربیت پر بہت برا پڑے گا۔

اور آخر میں علما سے انتہائی ادب اور لجاجت سے گزارش ہے کہ منبر و محراب سے لوگوں میں شوق پیدا کیا جائے کہ وہ علما سے طہارت اور جنسی تعلیم کے متعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگہی حاصل کریں، نہ کہ گوگل سے۔

اگر حکومت، والدین اور علما نے اپنا کردار ادا کیا تو امید ہے کہ جنسی تعلیم کے متعلق اٹھنے والی آوازیں خودبخود خاموش ہوجائیں گی۔ بصورت دیگر ہماری کوتاہیوں کی بدولت یہ غلاظت ہمارے گھر میں خاموشی سے داخل ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔