انسانی حقوق اور کشمیری خواتین

ڈاکٹر زمرد اعوان  جمعـء 7 اگست 2020
بھارتی فوجیوں کو کشمیری خواتین کی عصمت دری کا باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

بھارتی فوجیوں کو کشمیری خواتین کی عصمت دری کا باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

5 اگست کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’یوم استحصال کشمیر‘ کے طور پر منایا گیا۔ گزشتہ برس اسی دن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ علاقے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود سے منسلک کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے تحت اس علاقے میں ہندوستان گزشتہ چھ ہفتوں سے پچیس ہزار ہندوستانی شہریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس رویے کی بنیادی وجہ تو 2014 میں نریندر مودی کے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی آئین کے دو اہم نکات، آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا نعرہ تھا۔ یہ دونوں نکات ماضی میں مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ان کے خاتمے کے بعد کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری، جائیداد، مستقل رہائش، تعلیم اور روزگار کے حصول کو ممکن بنادیا گیا ہے۔ جو نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 47، 51، 80، 96، 98، 122 اور 126 قرارداد کی خلاف ورزی ہے، بلکہ کشمیریوں کے حقوق کے بھی منافی ہے۔ اس ساری صورت حال میں نہ صرف کشمیری مرد بلکہ خواتین اور بچے بھی تین نسلوں سے اپنے ساتھ روا ستم کو نہتے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

اگرچہ جنگی جرائم کی متعدد اقسام ہوتی ہیں، لیکن سب سے بدترین صنفی بنیاد پر خواتین پر ظلم ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2001 سے لے کر اب تک کم از کم 671 کشمیری خواتین بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ممالک میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے، چاہے وہ وبا کی صورت میں ہو یا پھر جنگ کی، اس میں سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔

جنگی صورت حال میں خواتین کے مسائل قدرے بڑھ جاتے ہیں۔ پہلا مسئلہ تو ہجرت ہے۔ چونکہ عورتوں کا زیادہ وقت گھر میں گزرتا ہے، تو جب ان کو ہجرت کرنی پڑے تو انہیں مردوں کی نسبت جسمانی و ذہنی الم بھی قدرے زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا مسئلہ جنگ کے دوران اُن کا بطور ہتھیار استعمال ہونا ہے۔ چونکہ وہ جسمانی طور پر مردوں سے کمزور ہوتی ہیں، اس وجہ سے آسانی سے دشمن کے مذموم عزائم کا شکار بن جاتی ہیں۔ جیسے کشمیری خواتین کے ساتھ بھارتی دہشت گردی کی صورت میں ہورہا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہیومن رائٹس واچ کی 1993 اور 1996 میں شایع ہونے والی دونوں رپورٹیں کرتی ہیں۔

اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کشمیری عورتوں پر ظلم و ستم پر مشہور لکھاری سیما قاضی کہتی ہیں کہ ’’کشمیر میں عصمت دری جنگ کا ثقافتی ہتھیار ہے، جو ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کشمیری مردوں کو جدوجہد آزادی سے روکنے کی ناکام کوشش ہے۔ فوجیوں کے اعترافی بیانات کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ انھیں کشمیری خواتین سے عصمت دری کرنے کا باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ اس کی ایک مثال جنوری 2018 میں 8 سالہ مسلمان لڑکی (جس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا) کے ساتھ عصمت دری اور قتل کا واقعہ ہے۔ جس میں سات ہندو (جن میں چار پولیس اہلکار اور ایک مندر کا پجاری بھی شامل تھا) ملوث تھے۔ ملزموں کی گرفتاری کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو وزرا کی قیادت میں مظاہرے کیے گئے۔ بالآخر تمام ملزمان رہا ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس بھیانک جرم کا نوٹس لیا۔ یہ واقعہ ’’کٹھوعہ عصمت دری کیس‘‘ کے نام سے مشہورہے۔

اس واقعے کی طرف بین الاقوامی توجہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر کشمیری عوام بشمول خواتین کے ساتھ ظلم کو اجاگر کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس زیادتی کا مداوا نہیں ہوپارہا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقوام عالم میں طاقتور ممالک انسانی حقوق کی پامالی نہ صرف خود کررہے ہیں بلکہ بین الاقوامی عدل و انصاف کے اداروں کی بھی آواز دبانے میں مصروف ہیں۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ جس کی مثال افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش پر امریکا کی اقوام متحدہ کی عدالت عدل و انصاف کو دھمکی ہے۔

جب ممالک اپنے ہاں ہونے والے ظلم پر نہ خود کارروائی کریں اور نہ سزا دیں، بلکہ بین الاقوامی اداروں کو بھی روک دیں، تو حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ جیسا کہ کشمیر میں ہورہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ 1990 کا خصوصی اختیارات تفویض کردہ ایکٹ ہے، جس کی دفعہ 7 میں حکومت ہند کی پیشگی منظوری کے بغیر سیکیورٹی عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے پر پابندی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت بھارتی افواج اپنے متشدد عمل کےلیے جوابدہ نہیں ہیں۔

تشدد کی ’ریاستی سرپرستی‘ دراصل کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 30 سال میں میڈیا کے ذریعے تشدد اور قتل کے متعدد واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود کسی ایک بھارتی افسر کو کبھی نہ تو عدالت میں کسی مقدمے میں پیش ہونا پڑا اور نہ ہی کبھی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس طرف مسلسل توجہ مبذول کروا رہے ہیں، لیکن بین الاقوامی دباؤ نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی حکومت کا ظلم جاری ہے۔ یہی رویہ بھارت نے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اپنانے کی کوشش کی، لیکن یہاں اسے دھوکا ہوا اور چین کے ساتھ جھڑپ میں اسے منہ کی کھانی پڑی اور جگ ہنسائی علیحدہ ہوئی۔ اب تک بھارت کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ہر جگہ ظالمانہ رویہ نہیں چل سکتا۔

اس ضمن میں اگرچہ پاکستان مسلسل دیگر بین الاقوامی انصاف کے اداروں میں کشمیریوں کے حقوق کےلیے آواز بلند کر رہا ہے، لیکن بین الاقوامی طاقتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر بنیادی حقوق کی اس سنگین پامالی کےلیے مثبت اقدامات کریں۔ ورنہ تاریخ ہمیشہ اس جبر میں ان ممالک کو برابر کا حصہ دار ہی رقم کرے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔