عبادات کو دنیاوی تجارت مت بنائیے!

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی  جمعـء 7 اگست 2020
جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے فوٹو : فائل

جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے فوٹو : فائل

ایک انسان کی اپنے خالق و مالک سے جو نسبت ہے، اس میں سب سے اہم نسبت عبدیت اور بندگی کی ہے۔ انسان عبد ہے اور اﷲ تعالیٰ معبود ہیں۔ انسان بندہ ہے اور اﷲ کی ذات بندگی کی مستحق ہے۔ انسان غلام ہے اور اﷲ اس کے آقا ہیں۔ یہ غلامی کی نسبت انسان کے لیے تحقیر نہیں ہے، بل کہ اِس میں اس کی توقیر اور اعزاز و اکرام ہے۔ اسی لیے واقعۂ معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ ﷺ کا ذکر اپنے بندے کے لفظ سے کیا ہے۔ کسی بندے کے لیے اس سے بڑھ کر اعزاز نہیں ہوسکتا کہ خود کائنات کا خالق و مالک اسے ’’بندہ‘‘ کہہ کر اپنے آپ سے اس کی نسبت کو ظاہر کرے۔

انسان اپنی بندگی کا اپنے عمل کے ذریعے اقرار کرے، اسی کو ’’عبادت‘‘ کہتے ہیں اور اﷲ نے انسان و جنّات کی یہ بستی اس لیے بسائی ہے کہ یہ سب خدا کی عبادت کریں۔ ہر نبیؑ نے اپنی تعلیمات میں انسانیت کو اﷲ کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے اور اس کے طریقے بتائے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی شریعت نے عبدیت کو اس کے اوج کمال پر پہنچا دیا۔ ہر عبادت بندگی اور نیاز مندی کا مظہر، جھکاؤ اور بچھاؤ کی کیفیت سے معمور، اﷲ سے مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی کوشش اور انسانی زندگی کے لیے درسِ عبرت سے معمور ہے۔

عبادت کے اصل معنی اﷲ کے سامنے اپنی ذلّت اور کم تری کے اظہار کے ساتھ بے حد جھکاؤ اور آخری درجے کی تواضع اختیار کرنے کے ہیں۔ اس لیے عام طور پر عربی لغت کے ماہرین نے اس کا ترجمہ خضوع اور ذل سے کیا ہے۔ (مفردات القرآن: لسان العرب)

علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ عبادت ایسے افعال کا نام ہے کہ جس سے آخری درجہ معبود کے سامنے اپنی کم تری، عاجزی، جھکاؤ اور نیاز مندی کا اظہار ہو کہ اس عمل سے بڑھ کر کسی اور عمل سے اس جذبے کا اظہار ممکن نہ ہو۔ عبادت میں جہاں اﷲ کے سامنے عجز کا اظہار ضروری ہے، وہیں اﷲ سے حد درجے محبّت اور دل میں اﷲ کی غیر معمولی چاہت کا احساس بھی ضروری ہے۔ اسی لیے علامہ ابن القیّم فرماتے ہیں کہ عبادت ایسے عمل کا نام ہے، جس میں آخری درجے کی محبّت بھی ہو اور آخری درجے کا جھکاؤ بھی۔ لہٰذا وہ اعمال عبادت میں شامل ہیں جو خالصتاً اﷲ کے لیے ہی کیے جاتے ہیں، جس عمل کو کسی بندے کے لیے نہیں کیا جاسکتا، جیسے: نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی، سجدہ وغیرہ۔ جو افعال اﷲ کے لیے بھی کیے جاسکتے ہیں اور انسانوں کے لیے بھی، اگر ان کو بہتر نیّت سے کیا جائے، اﷲ کی رضا اور رسول اﷲ ﷺ کی اتباع مقصود ہو تو ان شاء اﷲ وہ بھی اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ لیکن وہ اصل میں طاعت ہے، حقیقی معنوں میں وہ عبادت نہیں ہے۔

عبادت کا ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ اجر کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ اجرت کے لیے، اس کا بدلہ آخرت ہی میں دیا جاسکتا ہے، دنیا کے بدلے کے لیے اس عمل کو نہیں کیا جاسکتا۔ انبیائے کرامؑ اپنی خاص حیثیت کے اعتبار سے ہر کام اﷲ کے لیے کرتے تھے اور اﷲ کے حکم سے ہی کرتے تھے، اسی لیے قرآن نے مختلف انبیاء کی زبان سے کہلایا: ’’میرا اجر صرف اﷲ ہی پر ہے۔‘‘ جب کوئی کام دنیا میں بدلے کے لیے کیا جائے تو پھر وہ تجارت بن جاتا ہے۔ اسی لیے عبادت کے لیے مخصوص جگہ پر تجارت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مساجد، اﷲ کا گھر ہیں اور اﷲ کی عبادت کے لیے ہی بنائی گئی ہیں، چناں چہ مسجد میں خرید و فروخت اور کاروباری گفت گو سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ کسی کی کوئی چیز گم ہوئی ہو تو وہ مسجد میں اس کا اعلان کرے۔

اسی لیے فقہاء کا عمومی نقطۂ نظر یہ ہے کہ جو افعال مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، تلاوت قرآن، جہاد، ان پر اجرت لینا جائز نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عبادت سے متعلق بعض افعال ایسے ہیں، جن میں عمل کے ساتھ وقت کی بھی ضرورت ہے، جیسے نماز کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اتّفاق سے اگر کسی نے کہیں نماز کی امامت کردی اور ایک جماعت نے اس کے پیچھے نماز ادا کرلی تو اس میں کچھ زیادہ وقت کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کسی کو خاص مسجد میں امام مقرر کیا جائے تو وہ اس وقت کا پابند ہوجاتا ہے، بل کہ بعض اوقات پانچ وقت کی امامت میں انسان کا پورا وقت صَرف ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ایک صورت تو یہ ہے کہ اتفاقاً کوئی آئے اور آپ کے پاس قرآن کی کوئی آیت پڑھ لے، یا اپنے پڑوسی کو چند آیات پڑھا دیں تو اس میں انسان کا وقت اس طرح صَرف نہیں ہوتا کہ وہ کسب ِ معاش کا کوئی اور ذریعہ اختیار نہ کرسکے، اس لیے ایسے اعمال پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مستقل طور پر ایک مدرّس کی حیثیت سے قرآن اور اسلامی علوم کی تعلیم دے، اور مقررہ وقت اس میں لگایا کرے، جس کی پابندی اس پر لازم ہو تو پھر اس کا وقت اس عمل کی وجہ سے مشغول ہوجاتا ہے، اس لیے ایسی صورت میں علمائے اہل سنّت میں سے امام مالکؒ و امام شافعیؒ نے اجرت لینے کی اجازت دی ہے۔

اسی طرح فقہاء نے حج پر اجرت لینے یا جہاد پر اجرت لینے کو منع کیا ہے۔ کیوں کہ یہ سب عبادت ہے اور عبادت خالصتاً توجہ اﷲ ہونی چاہیے۔ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ہجرت بھی اہم عبادت تھی اور آپؐ نے صاف اعلان کردیا کہ جو اﷲ اور رسولؐ کے لیے ہجرت کرے گا، اس کا یہ عمل باعث اجر بنے گا اور جو کسی اور مقصد کے لیے ترکِ وطن کرے گا، وہ ہجرت کے ثواب سے محروم رہے گا۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک خاص رجحان عبادتوں سے تجارتی فوائد اٹھانے کا بنتا جارہا ہے۔ ایصالِ ثواب کا درست ہونا حدیث سے ثابت ہے اور سوائے بعض اہل علم کے علماء اہل سنّت کا اتفاق ہے کہ تلاوتِ قرآن کے ذریعے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، مگر اس پر اجرت کا لینا جائز نہیں۔ مشہور حنفی عالم علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ اگر تلاوتِ قرآن اجرت کے عوض ہوتو اس عمل میں اخلاص باقی نہیں رہا اور جو عمل اخلاص سے خالی ہو وہ کار ثواب نہیں ہوسکتا، تو جب یہ عمل خود لائق ثواب نہیں رہا تو دوسروں کو اس کا ثواب پہنچایا کس طرح جاسکتا ہے؟ اس لیے ایصال ثواب کے لیے تلاوتِ قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرے میں اس کی اجرت متعین کی جاتی ہے اور کہیں تو اس کے لیے گروپ بنے ہوئے ہیں اور وہ باضابطہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں، یہ واضح طور پر عبادت کو تجارت کی شکل دینا ہے۔

تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا ختم کرنا واجب نہیں، سنّت ہے، اب حفاظ کرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑی آسانی سے شہر سے گاؤں تک حفّاظ میسر آجاتے ہیں، اگر تراویح پڑھانے والے کی طرف سے اجرت کا مطالبہ نہ ہو، بل کہ انکار ہو اور اس کی نیّت ایسی خالص ہو کر اگر اس کو کوئی اجرت نہیں ملے، تب بھی وہ نماز پڑھائے گا، اس کے باوجود لوگ اپنی طرف سے ایک حافظ قرآن کی خدمت کی نیّت سے ہدیہ پیش کردیں تو پیش کرنے والوں کے لیے سعادت اور اس حافظ کا قبول کرنا جائز ہے۔ لیکن حافظ کی طرف سے اس کا مطالبہ کرنا اور دونوں فریقوں کا مل کر اجرتِ تراویح طے کرنا یہ یقینا عبادت کو تجارت کے درجے میں لے آنا ہے اور قرآن مجید کے احترام کے منافی ہے۔

ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں مال و متاع کی حرص اور مادیت اس قدر پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ہر کام میں اور ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے عبادتوں کے انجام دینے اور اس کے وسائل فراہم کرنے میں اجر و ثواب کے جذبے کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے اور وہ ایسے مقدس کاموں کو بھی خالصتاً تجارتی مقصد کے تحت انجام دیتے ہیں، نیز لوگوں کے سامنے اپنی تصویر کچھ اس طرح کی پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ دین کے خدمت گذار اور اپنے مسلمان بھائیوں کے پکّے بہی خواہ ہیں، اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ضرورت تو یہ تھی کہ ہم اپنی تجارت کو عبادت بنا لیتے، یعنی اس میں اﷲ کی رضا کا جذبہ شامل رکھتے، کم نفع لیتے، لوگوں کو سہولتیں بہم پہنچاتے، کچھ اجرت حاصل کرتے اور کچھ اجر کے امیدوار رہتے، نہ یہ کہ ہم عبادت کو تجارت کا رنگ دے دیں اور حصولِ اجر و ثواب کے مواقع کو کسبِ معاد کے بہ جائے خالص کسب معاش کا ذریعہ بنالیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔