ہندوستان، ایک آزمودہ دشمن

عبدالقادر حسن  ہفتہ 8 اگست 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میرے جیسے ایک انتہا پسند نے تو اس دن سے ہی اپنا سنبھالا شروع کر دیا تھا جس دن ہم نے بڑے فخر اور کمال بے حیائی کے ساتھ بھارت کو اپنا پسندیدہ ملک قراردیاتھا۔بھارتی لوگ پاکستان اور بھارت کے درمیان جس سرحد کو ’لکیر‘ کہا کرتے تھے اور ہم اس پر سیخ پا ہوجاتے تھے اس لکیر کو ماضی میں مٹانے کی بھر پور کوشش کی گئی یہ تک کہا گیا کہ ہمارا اور ہندو کا رب ایک ہے ہم بھی رب کو مانتے ہیںاور ہندو بھی اسی رب کی پوجا کرتے ہیں۔

قیمتی شالیں بھی تعلقات میں گرم جوشی پیدا نہ کر سکیں اور میٹھے آم بھی بھارتی ہندوؤں کا منہ میٹھا نہ کر سکے اس پر مزید تبصرہ کیا کیا جائے سوائے ماتم کرنے کے اور پاکستان سے اس قدر لاپرواہی کے ۔ بھارت ایک مسلمہ مصدقہ اور آزمودہ دشمن ہے ۔

بھارتی حکمران پاکستان کو ختم کرنے کے مشن پر ہیں اگر اندرا گاندھی سقوط ڈھاکا کو ہزار سالہ غلامی کا بدلہ کہتی تھیں تو موجودہ بھارتی وزیر اعظم جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا اور اب وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھنے کے بعد انھوں نے اپنے مکروہ عزائم کو بڑھاتے ہوئے کشمیر میں مسلمان دشمن ایک نیا قانون نافذ کر دیا جس کی وجہ سے کشمیری مسلمان گزشتہ ایک برس سے محصور ہیں اور بھارتی انتہاء پسند حکومت کا اعلان ہے کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے کسی غیر ہندو کو یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ بھارتی حکمرانوں کا یہ رویہ پاکستانی حکمرانوں کی کمزوری کا نمونہ ہے کہاں وہ زمانہ کہ ہم بھارت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور بھارت کو کاٹ کر ایک ملک بنا لیا مگر بعد میں ہم نے اس ملک کو خود ہی دو ٹکڑے کر دیا۔

ہندو قوم کے ساتھ صدیاں گزارنے کے باوجود ہم اس قوم کو نہیں سمجھ پائے یا ہماری بزدلی اسے سمجھنے نہیں دیتی۔ ہمارے مغل بادشاہ تن تنہا پورے ہندوستان پر حکمرانی کرتے رہے بلکہ ہندوستان کو ایک متحدہ ملک مسلمان حکمرانوں نے ہی بنایا تھا صرف مغل حکمرانوں کی بات کی جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ اکیلے بادشاہ اتنے بڑے ملک پر حکمرانی کرتے تھے یہاں تک کہ پہلا بادشاہ اکبر تو ہندوؤں میں اکبر اعظم کہلاتا تھا۔

یہ ان پڑھ حکمران ڈٹا رہا اور ہندو رعایا کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس کی آیندہ نسل ہندو ناریوں کی مرہون منت رہی۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور مغل شاہی خاندان کمزور پڑ گیا انگریز حکمران بن گئے لیکن سو ڈیڑھ سو سال کے بعد جب یہ لوگ ہندوستان سے واپس روانہ ہوئے تو یہاں کے مسلمانوں نے ہندوستان میں ایک مسلمان ملک بنا لیا جس میں آج تک بدقسمتی سے اس کے حکمران مغل سلطنت کے زوال کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ بھارت کا ہندو ہمیں معاف نہیں کر سکتا البتہ اگر وہ کسی وجہ سے ڈر جاتا ہے تو وہ ہماری ایٹمی طاقت ہے اور جہاد کا جذبہ ہے جس سے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے۔

یہ اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اس وقت مسلمان دشمنوں کے زبردست دباؤ میں ہیں اوردشمن بھی وہ جو انھیں سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ بات چھپاتے بھی نہیں ہیں ۔ اس وقت آپ کو بتانا ہے کہ ہندو حکمرانوں کے مسلمانوں کے بارے میں کیا ارادے ہیں اور دشمنوں کے ان ارادوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی حفاظت کرنی ہے اور بھارت سمیت کشمیر میں آباد مسلمانوں کو بھارتی جبر سے بچانا ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت میں موجود مسلمانوں کی حفاظت ہم پاکستانیوں کی ذمے داری ہے۔

یہ تحریک پاکستان کا حصہ ہے قیام پاکستان کے وقت جب یہ سوال پیدا ہوا کہ بھارت میں آباد مسلمانوں کے تحفظ کا کیا ہوگا تو پاکستان نے اسے اپنے ذمے لے لیا تھا بلکہ بھارت کی جارحیت سے بچنے کے لیے دوسری غیر مسلم قوتوں نے بھی کہا کہ ہمیں بھارت سے پاکستان بچائے گا ۔ جب بھی بھارت کے ان پڑوسی ملکوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا توگفتگو میں ان ملکوں نے ہر بار پاکستان سے اس امید کا ذکر کیا۔ دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال بھی پاکستان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ بہر کیف بھارت کا کوئی پڑوسی بھی اس سے بے فکر نہیں ہے خواہ وہ اس کا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔

جہاں تک پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی بات ہے تو یہ تعلق ہی دشمنی کی بنیاد پر ہے وہی دشمنی جو برصغیر کی تقسیم اورکشمیر پر بھارت کے قبضہ کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی ۔ بھارت کی سرزمین پر قیام پاکستان کے بارے میں ایک بلیغ اشارہ قائد اعظم نے کیا تھا کہ جس بھارتی نے پہلی بار کلمہ پڑھا وہ ہمارا پہلا پاکستانی شہری تھا۔

برصغیر کی سرزمین میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اتنے واضح ہیں اور ان کی تاریخ ایسی ہے کہ یہاں کے ہر مسلمان بچے کو بھی یاد ہے، کسی بھی مسجد کی اذان دن رات ہمارے بچوں کو ان کا مذہب یاد کراتی ہے ۔ برصغیر میں جب مسلمانوں نے جب دو قومی نظریئے کا اعلان کیا تو یہ قیام پاکستان کا اعلان نہیں تھا بلکہ یہ ہر اس مسلم آبادی کے پاکستان کا اعلان تھا جو بعد میں سمٹ کر پاکستان تک محدود ہو گیا۔ بھارتی لیڈر اگر یہ بات بھول گئے ہیں تو انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان آبادی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے ۔ ہمارے علماء کے بقول تو مسلمانوں کا پورا ہندوستان تھا جس پر انگریزوں نے قبضہ کیا تھا علماء کا موقف یہ تھا کہ پاکستان وہ پورا مسلمان ہندوستان نہیں ہے جو مسلمانوں کی ملکیت تھا۔ پاکستان کو اس وسیع وعریض مسلم ہندوستان کا صرف ایک حصہ سمجھیں جس پر ہمارے آباؤ اجداد کی عملداری تھی ۔

بھارت کے ہندو حکمران آج کے کمزور مسلمانوں کو تنگ نہ کریں بلکہ ذہن میں رکھیں کہ مسلمانوں کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے اور ہندو افواج اس کی میدان جنگ میں برتری کی شاہد بھی ہیں اور سونے پہ سہاگہ اس فوج کے پاس بہترین ایٹم بم بھی ہے جس کی جدید ٹیکنالوجی کو دنیا تسلیم کرتی ہے میرے خیال میں تو جہاد کے جذبے سے سرشار جوانوں اور ایٹم بم سے لیس فوج کا کوئی مقابلہ کر سکتا ہے مجھے علم نہیںمگرکم ازکم بھارت تو نہیں کر سکتا۔ ہاں وہ اپنے ہاں آباد مجبور مسلمانوں کو تنگ ضرور کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کو حد سے زیادہ خبردار اور چوکنا رہنا ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ بھارت نے ہمارے اندر تخریبی کارروائیاں کس حد تک پھیلا دی ہیں اس وقت اگر ملک کو سنبھالنے کے لیے کوئی ادارہ سرگرم اور ہر وقت خبردار ہے تو وہ فوج ہے جو پاکستان کی بقاء کی ضامن ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔