سیاسی دور اندیشی کے تقاضے

ایڈیٹوریل  اتوار 9 اگست 2020
پاکستان عالمی، علاقائی اور خطے کی صورتحال اور قومی مفادات کی روشنی میں ایک مستحکم اسٹرٹیجیکل پالیسی کو بروئے کار لائے۔ فوٹو: فائل

پاکستان عالمی، علاقائی اور خطے کی صورتحال اور قومی مفادات کی روشنی میں ایک مستحکم اسٹرٹیجیکل پالیسی کو بروئے کار لائے۔ فوٹو: فائل

عالمی بینک کے سبکدوش ہونے والے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر الانگو پتھامتھو نے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات پر سیاسی مفاہمت کے بغیر پاکستان شرح نمو میں دیرپا اضافہ نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں پانچ سال تک کام کرنے والے الانگو پتھامتھو نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے آئی پی پیز کو مشورہ دیا کہ وہ گردشی قرضوں میں کمی کیلیے اقدامات کریں کیوں کہ توانائی کے شعبے کو مالی طور پر قابل عمل بنانے کیلیے گردشی قرضوں میں کمی نہایت ضروری ہے، تحریک انصاف کی دو سالہ حکومت کے دوران بجلی کے نرخوں میں چار بار اضافوں سے گردشی قرضے دو گنا ہو کر 2.2 ٹریلین روپے تک جا پہنچے ہیں، دیگر عالمی ماہرین اور سفارتکاروں کے برعکس الانگو پاکستان کے حکومتی حلقوں میں زیادہ رسائی رکھتے ہیں۔

بلاشبہ عالمی بینک کے اعلیٰ عہدیدار نے ملک کو درست اقتصادی سمت دینے کی بات کی ہے اور اس کے لیے اقتصادی اصلاحات کرتے ہوئے گردشی قرضوں کے سدباب کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی ہم آہنگی کا جو فقدان موجودہ سیاسی سسٹم کے تسلسل میں نظر آتا ہے اس نے معاشی سرگرمیوں پر یقینا قدغن سی لگا دی ہے کوئی پالیسی مربوط شکل میں نہیں ملتی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی بات مختلف پیرائے میں مختلف ذمے دار لوگ میڈیا کے ذریعے بیان کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عدم مطابقت اور کنفیوژن نے ملکی معاشی صورتحال کو منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دیا حالانکہ ان دو سالوں میں اقتصادی سفر کی سمت اور حکومت کی غیر متزلزل معاشی پالیسیوں کے ثمرات کی ابتدا ہوجانی چاہیے تھی۔

بہر حال عوام کی امنگوں کی ترجمانی ایک مربوط، مستحکم اور مفید اقتصادی پیشرفت کے ساتھ سامنے آنی چاہیے تاکہ حکومت کے لیے مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ قوم کو وعدہ کے مطابق ایک آزاد، منصفانہ اور عادلانہ معاشی پروگرام دے کر مطمئن کیا جائے، بنیادی اقتصادی پالیسی اور سمت سازی کے لیے وقت ابھی ختم نہیں ہوا البتہ ضایع ضرور ہوا ہے جس کے لیے معاشی مسیحاؤں کو اب دوراندیشی کا ثبوت دینا ہوگا۔

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بتایا تھا کہ عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی وزیر اعظم عمران خان تک براہ راست رسائی ہے، حماد اظہر نے انھیں وفاقی کابینہ کا رکن بھی قرار دیا تھا، ان کی موجودہ تعیناتی امریکا کے جنوب ایشیا ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر برائے اسٹریٹیجک منصوبہ بندی ہے، ان کی جگہ نیجے بین ہسینے نے پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی ذمے داری سنبھالی ہے، عالمی بینک کے اس وقت پاکستان میں 11 بلین ڈالر کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔

الانگو پتھامتھو نے کہا کہ معاشی معاملات پر مکالمہ بہت ضروری ہے تاہم معاشی فیصلہ سازی بالآخر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے کرنا ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ پانچ سال قبل جب وہ پاکستان آئے تو انھیں کہا گیا کہ پاکستان ایک سخت گیر ملک ہے تاہم میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان ہر گز سخت گیر ملک نہیں بلکہ چیلنجنگ ضرور ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی ہم آہنگی، اشتراک عمل اور مفاہمانہ تعلقات کار کی جمہوری روایتوں کی پاسداری ممکن بھی ہے یا الانگو کے انداز نظر کو بھی پذیرائی ملنا مشکل ہوگا کیونکہ سیاسی محاذ آرائی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، بد قسمتی سے برہمی ملکی سیاست کی رگوں میں داخل ہوچکی ہے جب کہ سیاست کا اضطراب ختم کیے بغیر اقتصادی کایا پلٹ ایک خواب ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دو سال تک این آر او والوں (اپوزیشن) نے روکے رکھا، ہر چیز پر شور مچاتے تھے، این آر او دو تو ایف اے ٹی ایف بل پاس کرینگے، کشمیر پر سپورٹ کرینگے، وزیر اعظم نے کہا کہ اب کشتیاں جلا دی ہیں، آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔ گزشتہ روز یہاں ’’راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے لاہور کو فوکس کیا اور کہا کہ ایک وقت لاہور باغوں اور پھولوں کا شہر کہلاتا تھا جس کی خوبصورتی اور حسن اس شہر کو دوبالا کرتا تھا۔

شہر کے اطراف باغات ہوا کرتے تھے، لوگ نلکوں سے میٹھا پانی پیتے تھے، آلودگی کا کوئی تصور نہیں تھا، لوگ صاف ستھرے شہر میں صحتمند زندگی گزار رہے تھے، لوگ سردیوں میں زمان پارک میں جا کر دھوپ سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ شہر پھیلتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اور آلودگی اور گندگی نے باغوں اور خوبصورتی کی جگہ لے لی، پانی نیچے چلا گیا۔

آلودگی خطرناک ترین سطح سے بھی اوپر جاچکی ہے، نومبر میں آپ کو سورج کی روشنی نظر نہیں آتی۔ پانی 800 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ لاہور سے سرسبز علاقے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور یہ بغیر منصوبہ بندی کے پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ نئے شہر آباد کیے جائیں۔ اس پراجیکٹ کے تحت 60 لاکھ درخت لگائے جائیں گے، ایک علاقہ صرف جنگل کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ماڈرن شہر بنانے اور اس میں ماڈرن شہر کی تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب لاہور پھیلے گا نہیں بلکہ اسے ماڈرن شہروں کی طرح اوپر کی جانب بڑھایا جائے گا کیونکہ اس صورت میں تمام سہولیات کی فراہمی آسان ہوتی ہے۔ شہر جس قدر پھیلتا جائے گا گندگی اور کچرا اٹھانے کا انفرااسٹرکچر اسی قدر مشکلات سے دو چار ہوجائے گا۔ راوی سٹی اسلام آباد کے بعد پاکستان کا دوسرا منصوبہ بندی والا شہر ہوگا جس میں ایک کلو میٹر وسیع اور 46 کلو میٹر لمبی جھیل بھی شامل ہوگی، یہ پراجیکٹ 1لاکھ 10ہزار ایکڑ پر محیط ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایک مشکل منصوبہ ہے جس کے لیے بڑی محنت درکار ہے۔

بلاشبہ فائل یا کاغذات میں مذکورہ منصوبوں کی خوشنمائی اور دلفریبی میں کوئی شک نہیں مگر اصل کام عملدرآمد اور وسائل کے شفافیت کے ساتھ استعمال کی ہے، منصوبہ وقت پر مکمل ہوں، اور عوام کو اطمینان ہو کہ لاہور اور کراچی کے تقابل کا وزیر اعظم نے صرف حوالہ ہی نہیں دیا بلکہ شہریوں کے سامنے ملک کے دو بڑے شہروں کی قسمت جاگ اٹھی۔

جمعہ کو وزیر اعظم کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کا اجلاس بھی ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تعمیرات سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہر قسم کی آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس شعبے میں دی جانیوالی مراعات سے مستفید ہوں، آن لائن پورٹل کے اجرا سے اس میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے صوبہ پنجاب کے سول افسران بشمول سیکریٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ریجنل پولیس افسران سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب بھی کیا۔

حقیت یہ ہے کہ ارباب اختیار کو قومی ایشوز اور عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے خطے میں بدلتی صورتحال کا بھی گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے، مسائل بیشمار ہیں، کورونا کی بتدریج واپسی خوش آئند تو ہے تاہم ابھی کچھ سخت مراحل درپیش ہیں، یوم آزادی اور محرم کے دوران عوم کو ایس او پیز پر مکمل عمل کرنا ہوگا، کورونا ضدی وبا ہے، اس میں آخری لمحے تک محتاط رہنے کی ضرورت ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ ایس او پیز پورے پاکستان میں یکساں نافذ ہونگے۔

ادھر بل گیٹس نے دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ بیشتر امریکی کورونا ٹیسٹنگ کٹس کوڑے میں پھینکنے کے قابل ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے عروج پر ارباب اختیار اور صحت کے عالمی ادارہ نے کورونا کی لہر اور اس کے اسباب پر جو تشہیری مہم چلائی اب ضرورت ہے کہ کورونا کی واپسی اور گراف کے گرنے کے بنیادی اسباب بھی قوم کو بتائیں جائیں۔ دریں اثنا مقبوضہ جموں و کشمیر ایک بار پھر عالمی ایجنڈا پر آگیا ہے، یوم استحصال کشمیر منانے کے نتائج پر سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی آرا گردش میں ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے لیے ایک منظم اسٹریٹجیکل سفارتی اور اطلاعاتی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر کے لیے کثیر جہتی جنگ کے داخلی یا مقامی میدان پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ کشمیر کی جنگ اب عالمی سفارتکارانہ فہم و فراست کے ساتھ لڑی جانی چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق برس ہا برس بعد ملکی خارجہ پالیسی بدلی ہے، چین عالمی طاقت بننے جا رہا ہے، امریکا کے اندر تقسیم شروع ہوگئی ہے، دنیا میں تغیرات کا ایک طوفان آیا ہے، پاکستان نے ایک ارب ڈالر چین سے لے کر سعودی عرب کو واپس کر دیے ہیں جب کہ سعودی عرب ایک ہزار ارب ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے اس لیے ایک ارب ڈالر کی رقم کی کوئی حیثیت نہیں۔

تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ عرب ممالک امریکا سے مل گئے، پاکستان نے چین کو ترجیح دی ہے، اب پاکستان عربوں سے دور ہوتا جائیگا تاہم سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کیا جائیگا، بتایا گیا کہ چین اور روس کثیر مقدار میں سونا خرید رہے ہیں اس لیے عالمی مارکیٹ میں سونا کے دام بڑھ رہے ہیں۔ ادھر آرام کو نے بھارت میں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ملکی سیاست میں بھی تبدیلی کی ایک لہر آئی ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے او آئی سی اور ایک برادر ملک کے بارے میں دیے گئے بیان پر سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بحث جاری ہے، وزیر خارجہ نے صورتحال کا بروقت ادراک کرتے ہوئے اپنا صائب ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات خوشگوار اور شاندار ہیں، ذرائع کے مطابق جلد ایک سفارتی وفد سعودی عرب جائیگا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان عالمی، علاقائی اور خطے کی صورتحال اور قومی مفادات کی روشنی میں ایک مستحکم اسٹرٹیجیکل پالیسی کو بروئے کار لائے اور بھارت کے بچھائے گئے جال سے خبردار رہے۔ اس وقت ضرورت کثیر جہتی اور نتیجہ خیز سفارت کاری اور سیاسی دور اندیشی کی ہے۔ میر کا شعر ہے

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔