باتیں جنگ کی اور خواہش امن کی !!

سارہ لیاقت  جمعـء 13 دسمبر 2013

بھارت میں جوں جوں عام انتخابات کے دن نزدیک آرہے ہیں پاکستان مخالف بیانات میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ان کی پاکستان دشمنی اور جنگ کی خواہش بھی کافی کھل کے سامنے آرہی ہے ۔ چند دن قبل بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جنگ کے حوالے سے جو یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان بھارت سے جنگ میں کبھی نہیں جیت سکتا اس نے اچھا خاصا پاک بھارت تعلقات پر جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے اور یہ حقیقت ایک دفعہ پھر کھل کے ہمارے سامنے آگئی ہے کہ دنیا کے سامنے امن اور بھائی چارے کی بات کرنے والا بھارت اندر سے کیا سوچ اور عزائم رکھتا ہے ۔ یہاں جتنی بھی امن کی امیدیں جلا لی جائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہاں آج بھی ووٹ پاکستان دشمنی اور پاکستان کے خلاف بیان دے کر ہی حاصل کیے جاتے ہیں ۔

جب سے موجودہ حکومت آئی ہے اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح سے بھی بھارت سے معاملات جلد ازجلد دوستی اور محبت کی طرف لے جائے جائیں اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے امن کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا جاسکے۔ پاک بھارت تعلقات کو معمول کی طرف لانے کے لیے موجودہ حکومت کئی کوششیں کر بھی چکی ہے۔ جب کہ دوسری طرف بھارت کا یہ حال ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے وہ مسلسل پاکستان کی سرحدوں کی خلا ف ورزی کر رہا ہے اور اس کی جانب سے کنٹرول لائن پر بار بار کی بلا اشتعال فائرنگ کی زد میں آ کر اب تک کئی بے گناہ لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔

بھارت کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کئی دہائیوں سے جاری ہیں اور ہر بار بات مذاکرات کی میز سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتی،امن کی امید اور اس جیسے کئی ڈھونگ ، یہ سب باتیں صرف دنیا کو دکھلاوے کے لیے ہیں ، اصل میں حقیقت بہت مختلف ہے ۔ اگر ہم نگاہ دوڑائیں تو بھارت کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بھارت نے ہر ہر موقعے پر جب جب بھی اس کو موقع ملا ہے اپنی دشمنی کا ثبوت دیا ہے ۔کبھی الزامات کی بوچھاڑ کر کے اور کبھی ہمارے پانیوں پہ بند بنا کر ہماری زمینوں کو بنجرکر کے ،کبھی اپنے میڈیا کے ذریعے منفی پراپیگنڈہ کر کے اور کبھی ہمارے فنکاروں کی تذلیل کر کے ۔

بھارت جو ساری دنیا کے سامنے اپنا ترقی اور امن پسند چہرہ دکھا کر ایشین ٹائیگر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اس کی اصلیت بہت افسوسناک ہے۔ بھارت کی کئی دہائیوں سے کشمیر میں ڈھائی جانے والی ریاستی دہشت گردی سے وہاں کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جو متاثر نہ ہوا ہو، کشمیر میں آج نہ ماں، بہن ،بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہیں اور نہ ہی باپ ، بھائی ، بیٹوں کی جانیں ۔ ان کی زندگی کا ہر دن ایک نئی آزمائش ایک نیا امتحان لے کر آتا ہے اور ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کا حق مانگتے ہیں ۔

دوسری طرف بھارت جانے والے عام پاکستانیوں کی زندگیاں اتنی ہی غیر محفوظ ہیں جتنی کسی جنگل میں آدم خور جانوروں کے سامنے کھڑے انسانوں کی ۔ اپنے رشتے داروں سے ملنے ،کاروباری یا کسی بھی غرض سے وہاں گئے پاکستانیوں کو یہ پتہ نہیں کہ کب ، کہیں، کسی جگہ بھی بے وجہ ہی وہ دہشت گرد یا آئی ایس آئی کا جاسوس بنا کر جیلوں میں قید کردیے جائیں اور ان کے پیاروں کی آنکھیں ان کی راہ تکتے تکتے پتھرا جائیں ۔ بھارت کی جیلوں میں آج بھی نہ جانے کتنے بے گناہ معصوم پاکستانی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ جن کو ان کا پاکستانی ہونے کے جرم کی سزا دی جا رہی ہے کبھی دہشت گرد کا لیبل لگا کر اورکبھی جاسوس کا ،ان میں سے کچھ کی تشدد زدہ لاشیں وطن پہنچ جاتی ہیں اور کچھ کی بے نام قبریں ہمیشہ کے لیے گمنام ہی رہ جاتی ہیں ۔

ہندوؤں کی سرشت میں ہی لومڑی جیسی مکاری بھری ہوئی ہے ۔چانکیہ ان کا گرو تھا جس کے قول گیتا کے اشلوکوں میں یہ جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں۔ چانکیہ کا ایک قول یا نصیحت یہ بھی ہے کہ اگر تمہارا دشمن تم سے کمزور ہے تو جھپٹ کے اسے زیرکر لو اور اگر وہ تم سے تگڑا ہے تو اس کے سامنے بھیگی بلی بن جاؤ اور جونہی وہ تمہاری طرف سے ذرا سا غافل ہو تو پیچھے سے اس پر وار کرو ۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام اسی کا دیا ہوا درس ہے جسے ہندو اپنا مذہبی فرض جان کر آج تک عمل کر رہے ہیں ۔

پاکستان اور بھارت کے آپس کے تعلقات اچھے ہوں یہ خواہش اس خطے کے تمام باسی اپنے دل میں رکھتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ضرورت یہ ہے کہ پہلے وہ تمام مسائل جو آج تک ان دونوں ممالک کے درمیان حل طلب ہیں اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کو حل کیا جائے اس کے لیے بھارت کو پہلے اپنا جارحانہ رویہ بد لنا ہوگا اور پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیانات ، بے بنیاد الزامات اور اپنے جنگی جنون سے کنارہ ہوکر تمام معاملات پر سنجیدگی دکھانی ہو گی کیونکہ جنگ کی باتوں کے ساتھ ، امن کی خواہش رکھنا بے معنی ہے اور ہماری موجو دہ حکومت کو بھی یہ سمجھ لینا چاہے کہ بھارت کی جب تک تمام معاملات کو حل کرنے میں نیک نیت نہیں شامل ہو گی تب تک یک طرفہ محبت کے گن گانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ بیک ڈور ڈپلومیسی اور بار بار کے بے مقصد اور بے نتیجہ مذاکرات سے ہمارے ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا۔ البتہ بھارت کو دنیا دکھاوے کا بے وجہ موقع ضرور مل جائے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔