ماں تے آخر ماں ہوندی اے…

شیریں حیدر  اتوار 9 اگست 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بارش تیز ہوا تے بدل، سب دی اپنی تھاں ہوندی اے

دھپ وی پانویں چنکی لگے، چھاں تے آخر چھاں ہوندی اے

بھین بھرا ، ابا یا پتر، سارے ای رشتے ودھیا نیں

پوری دنیا گھم کے ڈٹھا، ماں تے آخر ماں ہوندی اے

( شاکر شجاع آبادی)

ماں محبت کا دوسرا نام ہے… وہ محبت کہ جس محبت سے اللہ تعالی کی محبت کو تشبیہ دی جاتی ہے۔ماں ایک جبلت کا نام ہے،ایسی بے لوث محبت کا نام ہے کہ وہ انسان ہو یا جانور،ماں بن کروہ اولاد کی ڈھال بن جاتی ہے،اسے ہر سرد اور گرم سے بچاتی ہے۔ ماں کی کوکھ،ماں کی گود،ماں کی انگلی،ماں کا آنچل ،ماں کا دامن،ماں کے ہاتھ،ماں کا کندھا،ماں کے پاؤں…دنیا میں آنے سے پہلے سے لے کر مرتے دم تک اولاد کے لیے یہی کائنات ہے۔

ماں جیسی ہستی دنیا میں کوئی اور نہیں اور ماں جیسا بے لوث پیار بھی کسی اور رشتے میں نہیں ہے۔اپنی اولاد کے لیے مشقت کرتی،اس کی پرورش کرتی اور اس کی خاطر قربانیاں دیتی ہوئی،اس کی تکلیف اور بیماری میں تڑپ اٹھنے اور راتوں کو سرحدوں پر ہشیار پہرے داروں کی طرح جاگنے والی ماں ،اسے پیٹ بھر کر کھلانے کے لیے اپنا پیٹ کاٹنے والی۔اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں اپنی ضروریات کو پس پشت ڈالتی ہوئی ہستی، ماں کے سوا اور کون ہو سکتی ہے!!

یہ اور بات ہے کہ ہمیں اپنے ماں اور باپ کی قربانیوں کا اس وقت تک ادراک نہیں ہوتا جب تک کہ ہم خود ماں باپ نہیں بنتے اور ہمیں اپنی اولاد کی محبت بتاتی ہے کہ ہمارے ماں باپ نے بھی ہم سے ایسی ہی محبت کی ہو گی۔پانی کی طرح،محبت کا دریا بھی نیچے ہی کی طرف بہتا ہے۔ جیسی محبت ہمارے ماں باپ ہم سے کرتے ہیں،ہم ان سے ویسی محبت نہیں کر سکتے،ویسی محبت ،ہمیں اپنی اولاد سے ہوتی ہے ۔یہی قانون فطرت ہے،لیکن ماں باپ کی ساری محبتوں کا خراج یہی ہوتا ہے کہ ہم اسے تسلیم کریں،ان کی محبت اور قربانیوں کی قدر کریں ۔

میری یادداشت میں بہت سالوں سے ماؤں کے حوالے سے ایک واقعہ یوں نصب تھا کہ کبھی بھولتا ہی نہیں تھا۔یہ واقعہ میرے سسرالی گھر کے تقریبا پڑوس میں واقع گھر کا ہے ،جب بھی میں گاؤں جاتی اور اس گھر کے سامنے سے گزرتی تھی تو میں سوچتی تھی کہ یہ کیسے بد قسمت آدمی کا گھر ہے ۔ مجھے اس گھر کے بارے میں میری ساس امی نے بتایا کہ اس گھر کا نوجوان بیٹا،(جو کہ اس وقت پچانوے سال یا شاید اس سے بھی زیادہ عمر کا ہے )بہت اکھڑ اور بد تمیز ہوتا تھا،اس قدر کہ غصے میں اپنی ماں کے سامنے مغلظات بکتاتھا اور بات بے بات اسے ماں بہن کی گالیاں دیتا تھا۔

ساس بہو کے بیچ جھگڑا ہوتا اور گھر داخل ہوتے ہی اس نوجوان کی بیوی شکایات کا دفتر کھول دیتیاور وہ غصے میں سانڈ بن جاتا اور اس کی ساری مغلظات اور بکواس اس کی ماں کے لیے ہوتی تھی۔ اس قدر بلند آواز میں وہ اپنی بد تمیزی کے مظاہرے کرتا تھا کہ سارا محلہ سنتا تھا اور سارا گاؤں اس کی کرتوتوں سے واقف تھا۔گاؤں کے معتبر لوگ اور اڑوس پڑوس والے جب اسے سمجھاتے تو وہ اور بھی غصے میں آجاتا اور نتیجتا ساری سختی اس کی ماں کی آتی،اسی وجہ سے لوگوں نے اسے کہنا چھوڑ دیا کہ ان کے سمجھانے کے باعث وہ بھلی مانس عورت خواہ مخواہ اس کے غیض و غضب کا شکار ہو گی۔

پہلے پہل تو وہ خالی بد کلامی اور بد تمیزی کرتا تھا مگر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس نے حد پار کر دی اور اپنی ماں کو زبانی گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ،اپنے ٹھڈوں ، تھپڑوں اور گھونسوں پر رکھ لیا۔جب تھک ہار گیا اور اس کی بیوی کو بھی سکون مل گیا اور وہ اندر کمرے میں جا کر سو گئی تو یہ نوجوان بھی جا کر برآمدے میں بچھی اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ماں اپنے چور چور وجود کو سمیٹ کر اٹھی اور ایک کٹورادودھ گرم کیا،اس میںہلدی ڈالی،بیٹے کی چارپائی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ جاگ ہی رہا تھا،سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا،’’ اٹھ میرے لال،غصہ تھوک دے، مجھے مارنے سے تیرے ہاتھ اور پاؤں تھک گئے ہوں گے،ہلدی والا دودھ بنا کر لائی ہوں تیرے لیے،اٹھ کر پی لے میرے بچے!! ‘‘ماں کی یہ بات سن کر اسے اسی وقت شر م سے مرجانا چاہیے تھا مگر وہ آج تک زندہ ہے ۔

میں اس واقعے کو ابھی تک نہیں بھولی تھی اور اسی ہفتے اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ جو کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہواہے، اس نے اس واقعے کی یاد کو پھر تازہ کردیا ہے اور میں نے اسے آپ کے ساتھ شئیر کر دیا ہے ۔

راولپنڈی کے علاقے رحمان آباد کے ایک نوجوان اور اس کی بیوی نے مل کر سفاکی کی وہ مثال قائم کی ہے کہ عہد حاضر میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ہو۔یہ واقعہ اس دنیا یا ہمارے ملک کی واحد مثال نہیں ہے مگر تف ہے ایسی اولاد پر اور دنیا اور آخرت کی خرابی ۔ بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ اپنے علیحدہ گھر میں رہتا ہے اور اپنی ماں سے ملنے اس گھر میں آیا ہوا تھا جہاں ماں ،اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے ۔نند اور بھاوج کے بیچ کسی بات پر اختلاف ہوا اور بات بڑھ گئی،ممکن ہے کہ بہو کی غلطی ہو،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیٹی غلط ہو،یقینا ماں نے بیٹی کی طرف داری کی ہو گی۔

بیٹا اپنی بیوی کی طرفداری میں اس حد تک گر گیا کہ اس نے ناخلفی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور ماں پر تشدد اور گالی گلوچ کیا۔اس گھر میں موجود کسی فرد نے اس سارے واقعے کی وڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا ، اس پر مختلف لوگوں کی طرف سے شدید رد عمل آیا اوراس نوجوان اور اس کی بیوی کو گرفتار کرنے کا حکم جاری ہوا۔وہ دونوں مفرور ہیں اور پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی کہ ماں نے بیٹے اور بہو کی عبوری ضمانت پر رہائی کی درخواست کی،جسے منظور کر لیا گیا ہے اور ان دونوں کو چھ اگست تک گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری ہوا ۔

عدالت نے دونوں کو پچاس پچاس ہزا ر کے مچلکے زر ضمانت کے طور پرجمع کروانے کا حکم دیا ۔یہ بھی شنید ہے کہ بیٹا اب گرفتاری سے بچنے،ضمانت منسوخ نہ ہونے یا سزا پانے کے ڈر سے ماں کی منت سماجت پر اتر آیا ہے۔وہ نہ بھی ایسا کرے تو اس کی ماں خود ہی یہ سب کچھ کر لے گی۔ذرا وہ ماں کو مارنے کے بعد وہاں رکتا تو ماں اسے گرم دودھ میں ہلدی ڈال کر بھی پینے کو دیتی اور کہتی،’’ بیٹا مجھے مار مار کر تیرے ہاتھ تھک گئے ہوں گے،گالیاں دے دے کر حلق سوکھ گیا ہو گا،لے یہ دودھ پی لے!!‘‘

کیا بدقسمتی ہے ان اولادوں کی کہ جن کو اللہ تعالی نے ماں جیسی لازوال نعمت دی ہوئی ہے اور وہ اس کی خدمت کرنے کے قابل نہیںبھی ہیں تو کم از کم اس کی عزت کریں،عزت نہیں کر سکتے تو بے عزتی نہ کریں۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بار ہا والدین کی اطاعت اور خدمت کا حکم دیا ہے اور واضع طور پر حکم دیا ہے کہ والدین کے سامنے’’ اف‘‘تک نہ کریں اور ان کی ہر معاملے میں اطاعت کریں ،ماسوائے اس کے کہ وہ آپ کو شرک کرنے کو کہیں۔

اولاد کی تربیت میں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ اولاد اور بالخصوص بیٹوں کی جن غلطیوں کو آپ بچپن میں ان کی بھولی بھالی بد تمیزیاں سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں،وہی آگے چل کر ان کی شخصیت کے وہ منفی پہلو بن جاتے ہیں جنھیں اس عمر میں بدلنا ممکن نہیں رہتا ۔بالکل اسی طرح جس طرح کہ کسی دیوار کی بنیاد کی ایک اینٹ ٹیڑھی پڑ جائے تو وہ دیوار کبھی سیدھی نہیں بن سکتی یا کسی پودے کی کوئی شاخ ٹیڑھی ہو تو وہ تناور درخت بھی ٹیڑھے تنے والا ہی بنتا ہے…اس وقت اسے سیدھا کیا جانا ممکن نہیں ہوتا۔اللہ ہم سب کو ہدایت عطا کرے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔