رام مندر کا سنگ بنیاد اور ہمارے حکمراں

محمد رمضان زاہد  پير 10 اگست 2020
5 اگست کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنئاد ایک انتہاپسند ہندو کے ہاتھوں رکھ دیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

5 اگست کو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنئاد ایک انتہاپسند ہندو کے ہاتھوں رکھ دیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

5 اگست 2020 کو ہونے والی اس انوکھی تقریب کو دیکھ کر ایک طرف تو بہت صدمہ ہوا۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ایک مندر کی تعمیرات کےلیے سنگ بنیاد رکھ رہا ہے۔ یہ کروڑوں مسلمان، جوکہ اسلامی حمیت اور جذبہ ایمانی رکھتے ہیں ان کےلیے دلخراش اور صدمے والا منظر تھا کہ ایک ہندو شدت پسند شخص اپنی عبادت گاہ کی تعمیر کےلیے اتنا پرجوش نظر آرہا تھا جیسے وہ پوری دنیا کو فتح کرنے چلا ہے۔ بابری مسجد اور رام مندر کی کہانی تو کئی سال پرانی ہے لیکن گزشتہ 90 سال پہلے اس نے جو انگڑائی لی وہ بھی ہوشربا کہانی ہے ۔

یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی نشانی کو ختم کرنے کےلیے ہندو بلوائی 1932 سے کوشش کررہے تھے، لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ یہ دسمبر1992 کی ایک مکروہ گھڑی تھی اور مسلمانان ہند کےلیے ایک بہت بڑا امتحان کہ جب ہزاروں ہندو بلوائی اپنے ہی ملک میں، اپنی ہی حکومت میں، ایک کمزور اور پسی ہوئی اقلیت کی عبادت گاہ کو گرانے کےلیے رام بھگوان کے نعرے لگاتے ہوئے آرہے ہیں۔ گویا کہ مٹھی بھر مسلمانوں نے غیرت اور حمیت دکھاتے ہوئے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن جب مقابلے میں پوری ریاست اور اس کی فوج کی قوت ہو تو پھر چند لوگوں کےلیے ان کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے اس وقت بھی ان مسلمان شیدائیوں پر فخرتھا اور آج بھی کہ انہوں نے ہندوؤں کےلیے یہ کام کچھ نہ کچھ تو مشکل کردیا تھا۔ کئی ہزار مسلمان اس مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے، اپنی پوری مسلمان امت کی طرف سے کفارہ ادا کرتے ہوئے اس تصادم میں اپنے ملک کی فوج اور پولیس کے ہاتھوں شہید کردیے گئے، لیکن دنیا کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔

کئی سال تک اس کا مقدمہ بھارتیہ سپریم کورٹ میں چلا۔ کئی مسلمان رہنماؤں پر جھوٹے مقدمے قائم کیے گئے، کئی بے گناہ مسلمانوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایا گیا اور بہت سے مسلم نوجوانوں کو ماورائے عدالت شہید کردیا گیا۔ بابری مسجد کے تنازعے پر آج بھی ہندوستان کی بہت سی مائیں اپنے بیٹوں کی گھر واپسی کا انتظار کررہی ہیں، جو اس مشرک حکومت نے ماورائے عدالت غائب کردیے یا انہیں شہید کردیا گیا۔

پھر 10 نومبر 2019 کا وہ سیاہ دن بھی آیا جب چیف جسٹس آف ہندوستان کو صدر جمہوریہ بنانے کی بہت بڑی رشوت دے کر قائل کرلیا گیا اور سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کرنے کے باوجود اور ہندوستانی جمہوریت سے انکار کرتے ہوئے ، بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کردیا، جو کہ دنیائے انصاف کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے۔

بھارتی انتہاپسند ہندو کیا کھیل رچا رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ہمیں ہر محاذ پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج کشمیر کی حالت دیکھ کر جہاں دکھ اور صدمہ ہوتا ہے، وہیں اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور بے وقوفیوں کو دیکھ کر بھی دل جل اٹھتا ہے کہ وہاں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے اور ہمارے ہاں کیا گل کھلائے جارہے ہیں۔ جہاں پر غیر ملکی مشیروں اور بے حس وزیروں کی بھرمارہے، حکومتی خزانے کو ایسے بے دردی سے لوٹا جارہا ہے جیسے یہ کفار نے ہمیں گفٹ دیا ہو۔

جب 5 اگست 2019 کو انڈیا نے کشمیر کو ہڑپ کرلیا تھا تو ہمیں ہمارے کپتان نے دھوپ سینکنے کےلیے کھڑا کردیا تھا کہ اس سے کشمیر آزاد ہوگا اور عالمی سطح پر آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی۔ آج ایک سال بعد ہم نے اپنا نقشہ بدل کر نہ صرف ہندوستان سے کشمیر کو آزاد کروا لیا بلکہ ہندوؤں پر بہت ہی کاری وار کردیا ہے۔ ہم ایسے خاموش بیٹھے ہیں کہ جیسے کشمیری ہمارے لیے نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کےلیے جان کی قربانی دے رہے ہیں۔

کیا گھر بیٹھ کر نقشے بنانے سے دشمن ہم سے ڈر جائے گا یا پھر وہ اس نقشہ کو مکمل کرنے کےلیے ہمیں کوئی تحفہ دے گا؟

لیکن دوسری طرف تاریخ کے صفحات پڑھ کر بہت بڑی تسلی ملی کہ جب بھی کفر طاقتور ہوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کو بھی جوش آتا ہے اور پھر اس سوئی ہوئی امت مسلمہ کے مرجھائے ہوئے باغیچوں سے کوئی پھول کھلتا ہے جو پوری دنیا کو مہکا دیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔