پاکستان، چین اورشہباز شریف

مزمل سہروردی  پير 10 اگست 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

چین پاکستان کا دوست ہے۔ چین نے کبھی پاکستان کے مفاد کے خلاف کام نہیں کیا ہے۔ چین نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ کشمیر سے لے کر ہر عالمی فورم پر چین پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے لے کر فیٹف میں چین پاکستان کے ساتھ کھلے عام کھڑا نظر آتا ہے۔

چین نے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے۔ جس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔آج چین اور امریکا کے درمیان جو محاذآرائی نظر آرہی ہے اس میں بھی پاکستان مشکل صورتحال کا شکار ہے ۔حکومت کی خارجہ پالیسی میں نا تجربہ کاری پاکستان کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک ایسا منظر نامہ بن رہا ہے۔ جہاں چین کے علاوہ کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نظر نہیں آرہا۔ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی میں متعدد یوٹرن نے بعض دوست ممالک کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ امریکا پر تو بھروسہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ آج ہم عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یہ کیا خارجہ پالیسی ہے۔ چین کے ساتھ بھی ہم نے کیا کیا ہے۔

عمران خان کی حکومت نے ابتدائی دو سال ن لیگ کی نفرت میں سی پیک کو سرد خانہ میں ڈالے رکھا۔ طے شدہ منصوبوں کو تاخیر کا شکار کیا۔ سی پیک کے خلاف بیانات دیے۔چین کو بھی ناراض کیا۔ لیکن چین نے تحمل کا مظاہرہ کیا، اور اب عمران خان دوبارہ چین کی طر ف رجوع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوبارہ سی پیک کو شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن دو سال عمران حکومت نے چین اور سی پیک کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ اس طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔

میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کی حکومت میں سی پیک کی کامیابی میں شہباز شریف کا کلیدی کردار تھا۔ ن لیگ کی حکومت میں بھی ایسی قوتیں موجود تھیں جو سی پیک کو ناکام اور سبوتاژ کرنا چاہتی تھیں لیکن شہباز شریف نے ان تمام قوتوں کو نہ صرف ناکام کیا بلکہ تن تنہا سی پیک کے منصوبوں کو بھی کامیاب کیا۔

اسی لیے ن لیگ کی حکومت میں ایک تاثر یہ بھی بنا کہ سی پیک میں سارا کام پنجاب میں ہو رہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں تھا ۔ دراصل شہباز شریف کے کام اور ان کی کام کی رفتار نے سی پیک کے لیے ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ پنجاب سی پیک کا محور بن گیا تھا۔ شہباز شریف نے پنجاب کے سی پیک کے منصوبے اس قدر برق رفتاری سے مکمل کیے کہ چینی بھی حیران رہ گئے۔ اسی لیے اس برق رفتاری کو شہباز اسپیڈ کا نام دیا گیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کے جانے کے بعد منصوبوں میں سے شہباز اسپیڈ ختم ہو گئی بلکہ غائب ہی ہوگئی۔ اور اب تک سی پیک پر جو کام شروع بھی کیا گیا ہے ان میں بھی شہباز اسپیڈ نظر نہیں آرہی ہے۔

عمران حکومت اب کوشش کر رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چین کے ساتھ ماضی کی غلطیوں سے درگزر کروا لیا جائے اور تعلقات کو اسی نہج پر لے آیا جائے جیسے ن لیگ کے دور میں تھے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے ایک جعلی ماحول بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سی پیک دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔

بلکہ سوشل میڈیا پر ایک خبر کا شوشا بھی چھوڑا گیا ہے کہ جلد ہی چین کے صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ چینی سفارتخانہ کے ذرایع کے مطابق ابھی چینی صدر کے دورہ پاکستان کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اس ضمن میں ابھی تک کوئی شیڈول طے نہیں ہوا ہے۔ لیکن حکومت نے ایک ماحول بنانا شروع کر دیا ہے۔ لیکن کیا یہ سفارتی آداب کے مطابق ہے۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف جب کورونا کا شکار ہوئے تو چین کے پاکستانی سفارتخانہ اور چینی دفتر خارجہ نے شہباز شریف کو چین میں سرکاری طور پر علاج کی دعوت دی۔ یہ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے شہباز شریف کے لیے غیر معمولی محبت کا اظہار ہے۔ چینی سفارتی پالیسی میں ایسا بہت کم کیا جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ چینی سفارتکاری میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ چین اور امریکی سفارتکاری میںیہ فرق ہمیشہ واضح رہا ہے۔ تاہم چین نے شہباز شریف کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے، یہ اپنی مثال آپ ہیں۔

اسی تسلسل میں شہباز شریف کی صحتیابی کے بعد چینی سفیر نے شہباز شریف کو چینی سفارتخانہ میں آنے کی دعوت دی ہے۔ شہباز شریف کا اس ماحول میں چینی سفارتخانہ جانا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقعے پر چین کی جانب سے سی پیک کے لیے شہباز شریف کی خدمات کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ شہباز شریف کے ساتھ چین کی دوستی کا بھی اعادہ کیا گیا۔ اس موقعے پر جب حکومت روزانہ شہباز شریف کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کر رہی ہے چینی سفیر کی جانب سے شہباز شریف کو چینی سفارتخانہ کی دعوت کافی معنی خیز بھی ہے۔ جو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

شہباز شریف پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ وہ روایتی  اپوزیشن نہیں کر رہے ہیں۔ وہ مفاہمت کی سیاست کر رہے ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف کے بطور قائد حزب اختلاف کردار کو پاکستان کے دوست ممالک بھی مثبت دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے دوست، پاکستان میں سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کے دشمنوں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے۔

اس لیے نہ کبھی ماضی میں اور نہ اب چین نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ دیگر قوتیں اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کو اکثر سیاسی عدم استحکام کا شکار کرتی رہی ہیں۔ تاہم شہباز شریف کی جانب سے ایک نئے انداز کی اپوزیشن نے پاکستان کے دوستوں کی نظر میں بھی شہباز شریف کے مثبت امیج میں اضافہ کیا ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کے اندر شہباز شریف پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے دوست سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف پاکستان کے مفاد میں ایک مثبت قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ ایک ایسا ماحول بنا لیا ہوا ہے جہاں ایک دوسرے سے ملاقات اور بات چیت بھی ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ اگر حکومت اپوزیشن کے ساتھ تعاون کے راستے بنائے تواس میں پاکستان کا مفاد ہے۔ چین کے ساتھ شہباز شریف کے دیرینہ تعلقات کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے شہباز شریف پر اعتماد کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ سی پیک پر چین کے اعتماد کو دوبارہ اس سطح پر بحال کرنے کے لیے جہاں یہ پہلے تھا شہباز شریف کی معاونت ناگزیر ہے۔ شاید شہباز شریف کے بغیر یہ نا ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔