معلومات کا یکطرفہ بہاؤ، امریکا اور ٹک ٹاک

وقار کنول  منگل 11 اگست 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

1964 میں امریکی میڈیا اسکالر وِلبر شرائم نے لکھا کہ خبروں اور معلومات کا بہاؤ ترقی یافتہ ملکوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو بہت کم۔ یہاں تک کہ اہم ترین واقعات نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور سچائی مسخ کردی جاتی ہے۔

1970 میں اس طرح کے کئی معاملات غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے اجلاس میں زیر بحث آئے اور پھر یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو میں بھی زیر بحث آیا۔ اس کے بعد غیر وابستہ تحریک کے اجلاس میں 1973 کو الجیریا، 1976 میں تیونس اور بعد ازاں نیو دہلی میں بھی وجہ بحث بنا اور پہلی مرتبہ ’’نیو ورلڈ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن آرڈر‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ تیونس کے وزیر اطلاعات مصطفیٰ مسمودی نے باقاعدہ مسودہ پیش کیا، جسے بعد ازاں میک برائیڈ کمیشن میں بھی پیش کیا گیا۔ یہ 16 رکنی کمیشن میک برائیڈ جو نوبل انعام یافتہ اسکالر تھے، کی سربراہی میں یونیسکو نے قائم کیا تھا۔ مصطفیٰ مسمودی کے مسودے کو باقاعدہ ماس میڈیا ڈیکلیریشن کا نام دیا گیا۔

1980 میں میک برائیڈ کمیشن نے بالآخر اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ معلومات پہنچانا اور جواباً معلومات حاصل کرنا جدید معاشروں کی اہم ضرورت ہے۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ معلومات کا بہاؤ یکطرفہ نہ ہو بلکہ دو طرفہ ہو اور ہر ملک معلومات حاصل کرنے اور فراہم کرنے کےلیے آزاد ہو۔ یعنی خبروں، انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے دو طرفہ اور برابری کے ابلاغ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کےلیے کمیشن نے کچھ تجاویزات پیش کیں۔

1- ابلاغ کو بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔
2- خبروں اور معلومات کے یکطرفہ بہاؤ کے درمیان عدم توازن کو کم کیا جائے۔
3- مواصلات کےلیے ایک عالمی طریقہ کار وضع کیا جائے، جو ثقافتی شناخت اور فرد واحد کی آزادی کا احترام کرے۔
4- ترقی کے جدید دور میں مربوط اور دیرپا قومی مواصلات کو فروغ دیا جائے۔
5- نیو انٹرنیشنل اکنامک آرڈر کو بہتر بنانے میں نیو ورلڈ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن آرڈر کس طرح مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ٹک ٹاک پر الزام لگا چکے ہیں کہ ٹک ٹاک کمپنی امریکی صارفین کا ڈیٹا چین کی کمیونسٹ پارٹی کو فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ ٹک ٹاک انتظامیہ اس امر کی کئی بار سختی سے تردید کرچکی ہے کہ ٹک ٹاک ایک آزاد ایپ ہے جو کسی کو بھی اپنے صارفین کا ڈیٹا فراہم نہ کرنے پر سختی سے کاربند ہے۔

ڈانس بائٹ کمپنی کی ملکیت ٹک ٹاک ایپ کو امریکی کمپنی مائیکروسافٹ بھی خریدنے کا عندیہ دے چکی ہے لیکن چین ایسا ہرگز نہیں چاہے گا۔

ٹک ٹاک کے درج ذیل دو جرائم ہیں۔

1- ٹک ٹاک نے معلومات اور ٹیکنالوجی کےلیے مرکز کا درجہ رکھنے والی امریکی کمپنیوں کو پہلی بار ٹکر دی ہے اور امریکی اجارہ داری کو للکارا ہے، جو اب تک فیس بک، ٹویٹر، گوگل اور واٹس ایپ سمیت تمام امریکی کمپنیوں کی دنیا بھر میں پذیرائی کی بنا پر امریکا کو حاصل ہے۔ ٹک ٹاک پندرہ سیکنڈ کی ویڈیوز اور ذاتی ابلاغ کی کشش کی بدولت فیس بک سمیت کئی سوشل سائٹس کےلیے بڑا چیلنج ہے اور یہ امریکی اجارہ داری کو ہواوے فائیو جی پراجیکٹ کے بعد دوسری بڑی ٹکر ہے۔

ٹک ٹاک نے بہت تیزی سے امریکی نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی ہے، جن میں سے اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کو ناپسند کرتی ہے۔ جون میں سیکڑوں ٹک ٹاکر نوجوانوں نے اوکلاہوما میں ٹرمپ کی مہم کے ٹکٹ خریدے اور وہاں نہ جاکر ٹرمپ کی ریلی کو ناکام بنایا۔ صدر ٹرمپ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں ان سے زیادہ محتاط رہنا چاہتے ہیں۔

اس تناظر میں چین پر تنقید کی جاتی ہے کہ چین نے فیس بک اور گوگل و یوٹیوب پر پابندی لگا رکھی ہے۔ لیکن کیا ان کمپنیز نے چین کے مقامی قوانین کی پیروی کی؟ ایغور مسلمانوں اور دوسرے کئی معاملات میں چین نے شر انگیز ویڈیوز اور پوسٹس ہٹانے کی درخواست دی، جسے فیس بک و سوشل سائٹس نے مسترد کردیا۔ یوں چین نے اپنے مقامی سوشل میڈیا کی ترویج کی۔ لیکن اس کے مقابلے میں ٹک ٹاک نے تمام امریکی قوانین کی پیروی کی ہے اور کرنے کو تیار ہے۔ اس کے باوجود اگر ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہوتی ہے تو ’امریکا سب کےلیے‘ اور لبرل جمہوری اقدار کی بدترین نفی ہوگی۔

2016 کے امریکی الیکشن میں فیس بک کا کردار بہت زیادہ متنازعہ رہا ہے۔ ہلیری کلنٹن کا ای میل اسکینڈل بھی منظرعام پر آیا۔ اور بھی کئی ایسے الزامات ہیں جو فیس بک سمیت کئی ویب سائٹس پر لگتے ہیں کہ امریکا ان معلومات کو حاصل کرتا ہے۔ تو ایسے میں محض خود ہی الزام لگا کر ٹک ٹاک پر پابندی واضح طور پر امریکی اجارہ داری کی مثال ہے۔

معلومات کے منصفانہ بہاؤ کے بجائے یکطرفہ بہاؤ کی پالیسی نے مغربی انفارمیشن سامراجیت قائم کر رکھی ہے۔ اس میڈیائی سامراجیت کو ہواوے کے بعد ٹک ٹاک سے خطرہ درپیش ہے اور ان پر پابندیاں امریکا اور چین کی سرد جنگ میں اہم کردار ادا کریں گی۔

فری مارکیٹ اور سرمائے کے آزادانہ ہونے کے نعرے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔ مغرب نے ایک صدی کی محنت سے فاشسٹ، کمیونزم سمیت جن نظریوں کو لبرل تھیوری کی لچک سے شکست دی تھی اب وہی لبرل تھیوری مغرب کو بے نقاب کررہی ہے۔ کیونکہ لبرل ازم تھیوری کی حد تک ایک معقول اور کامیاب ماڈل ہے لیکن ملکوں کے مفادات اور جنگ میں ’سب جائز‘ کی پالیسی لبرل قوانین کا سرعام تماشا بنارہے ہیں۔

یہ جنگ اجارہ داری اور میڈیائی سامراجیت کی جنگ ہے اور کافی عرصے بعد مغرب کو ٹکر دینے والا کوئی پیدا ہوا ہے۔ اس سب میں لبرل جمہوریت کے بھیس میں چھپی مغربی سامراجیت بھی عیاں ہورہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار کنول

وقار کنول

بلاگر ایم فل ماس کمیونی کیشن کے طالب علم ہیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے بھی کیا ہوا ہے۔ مشاغل میں پڑھنا، فلمیں دیکھنا اور بالخصوص ادبی مطالعہ شامل ہیں۔ ان سے فیس بُک آئی ڈی waqar.kanwal.184 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔