کورونا۔۔۔کچھ اہم سوالوں کے جواب

میگزین رپورٹ  منگل 11 اگست 2020
دو ماہرین صحت عامہ سے ایکسپریس کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

دو ماہرین صحت عامہ سے ایکسپریس کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

ماہرین: ڈاکٹرعائشہ زاہدی، ڈاکٹرمیشا اقبال

سوال نمبر1۔ ڈاکٹر صاحبہ! آپ سے سب سے پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ کورونا وبا کے دوران حاملہ ہونے والی خواتین کس طرح محفوظ طبی معاونت حاصل کرسکتی ہیں؟

ڈاکٹر عائشہ زاہدی: یہ یقیناً بہت اہم سوال ہے اور تمام حاملہ خواتین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دوران حمل معمول کے طبی معائنے کا جاری رہنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے لازم ہے البتہ وبا سے محفوظ رہنے کے لیے ڈاکٹر اور دیگر طبی عملے سے زیادہ تر مشاورت آن لائن ذرائع سے کی جاسکتی ہے۔ البتہ لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کے لیے ایس او پیز یعنی متعین کردہ احتیاطی تدابیر مثلاً ماسک، دستانے، حفاظتی گاؤن وغیرہ کے استعمال کے ساتھ خاتون کو خود جانا ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بھی اہم ہے کہ حاملہ خاتون کے ساتھ ایک سے زیادہ شخص نہ ہو اور اگر اسپتال کے عملے کی طرف سے اجازت نہ دی جائے تو خاتون اکیلے ہی اندر جائیں تاکہ کم سے کم لوگ اسپتال میں موجود ہوں اور ’’سماجی دوری‘‘ کو یقینی بنایا جاسکے۔

ڈاکٹر میشا اقبال: میں یہاں یہ کہنا چاہوں گی کہ اگر حاملہ خاتون خود کورونا میں مبتلا ہیں تو اسپتال آنے سے پہلے وہ عملے سے رجوع ضرور کریں تاکہ اگر یہ ہونے کی صورت میں ضروری معائنہ محفوظ طریقے سے عمل میں لایا جائے اور اسپتال کا عملہ اور دیگر مریض محفوظ رہ سکیں۔

سوال نمبر2۔ کیا کورونا سے متاثرہ ماں بچے کو دودھ پلا سکتی ہے؟

ڈاکٹر عائشہ زاہدی: اب تک ایسی کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی ہے جو ماں کے دودھ میں کورونا وائرس کی موجودگی ثابت کرسکے جبکہ ماں کے دودھ کے فوائد بچے کے لیے ثابت شدہ ہیں چنانچہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق کورونا سے متاثرہ ماں کو بچے کو دودھ پلانے سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے البتہ ہر بار بچے کو چھونے سے پہلے ہاتھ دھونا، ماسک لگانا اور معمول کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال بھی مفید ہے۔

سوال نمبر3۔ جہاں ماں اور بچے کے بارے میں بات ہو رہی ہے ہم اپنے قارئین کے لیے جاننا چاہیں گے کہ کیا اس وبا کے زمانے میں جب کہ اسپتال مرض کا مرکز بن گئے ہیں بچوں کو معمول کے حفاظتی ٹیکے شیڈول کے مطابق لگوانے چاہییں یا اس میں تاخیر کی جاسکتی ہے؟

ڈاکٹر میشا اقبال: میں یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے کچھ خاص جراثیمی امراض سے بچانے کے لیے لگائے جاتے ہیں، ٹیکوں سے محروم رہ جانے والی آبادیوں میں یہ جراثیمی امراض وبا کی صورت میں پھوٹ پڑتے ہیں اور ہم چونکہ پہلے ہی ایک عالم گیر مسئلے سے دوچار ہیں اس لیے دیگر امراض کو قابو میں رکھنا ازحد ضروری ہے۔ بچے کو ٹیکے لگنے کی تاریخ آگئی ہے تو اس میں تاخیر ہرگز مت کریں۔ البتہ تمام ضروری احتیاطی تدابیر بروئے کار لا کر اور اسپتال کے عمل سے مشاورت کے بعد وقت طے کرکے بچے کو ٹیکے لگوانے کے مرکز پر لے جائیں۔ آج کل کئی مراکز پر عملہ بچوں کو الگ الگ وقت پر بلوا رہا ہے تاکہ بہ یک وقت زیادہ افراد کا ہجوم نہ ہونے پائے۔ اس لیے اسپتال یا طبی مرکز کے عملے سے تعاون کو ضرور یقینی بنائیے۔

سوال نمبر 4۔ ڈاکٹر صاحبہ! آپ نے حفاظتی ماسک کا ذکر کیا، آپ مختلف اقسام کے ماسکوں کی افادیت کے بارے میں قارئین کو بتائیں؟

ڈاکٹر میشا اقبال: بنیادی طور پر 3 اقسام کے ماسک استعمال کیے جا رہے ہیں، یعنی N95 ماسک، سرجیکل ماسک اور کپڑے سے گھر میں بنائے ہوئے ماسک۔ ان میں سے N95 ماسک سب سے زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بنیادی طور پر ان لوگوں کو ان کا استعمال کرنا چاہیے جو براہ راست مریضوں سے رابطے میں آ رہے ہیں مثلاً طبی عملہ، ایمبولینس میں موجود افراد یا پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور وغیرہ۔ باقی افراد کو سرجیکل ماسک ضروری حفاظت فراہم کرتا ہے۔ البتہ کپڑے کا ماسک آپ کو جراثیم لگنے سے نہیں بچا پائے گا البتہ اگر آپ خود کورونا میں مبتلا ہیں تو دوسرے لوگوں کے لیے کسی حد تک رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ زاہدی: اس کے علاوہ ماسک پہننا اس وقت ہی مفید ہے جب بالخصوص ہاتھوں کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔ ماسک پہننے اور اتارنے سے پہلے ہاتھ ضرور دھو لیں اور استعمال کے بعد احتیاط سے کچرے کے بند ڈبے میں ڈال دیں۔

سوال نمبر 5۔ کیا یہ بات درست ہے کہ کسی کو ایک بار کورونا ہو جائے تو آیندہ کے لیے وہ مرض سے محفوظ ہو جاتا ہے؟

ڈاکٹر میشا اقبال: کسی مرض کے ایک بار حملے کے بعد آیندہ اس سے محفوظ ہونے کے لیے جسم میں مخصوص جرثومے کے خلاف اینٹی باڈیز بننا ضروری ہے۔ کورونا کے بارے میں اب تک جتنی تحقیق ہوئی ہے اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمام متاثرہ افراد میں اینٹی باڈیز نہیں بن سکی ہیں، چنانچہ کورونا سے صحت یاب ہو جانے والے افراد کو بھی معمول کی احتیاط دیگر افراد کی طرح جاری رکھنی چاہئیں۔

سوال نمبر6۔ سودا سلف اور گوشت کی دکانیں ایسی جگہیں ہیں جہاں عام آدمی کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ہجوم کی وجہ سے وہاں کام کرنے والے افراد بھی خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ آپ ان کو کیا مشورہ دیں گی؟

ڈاکٹر عائشہ زاہدی: یہ بہت اہم ہے کہ دکانوں کے مالکان اور منتظمین اپنی اور اپنے ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہاتھ دھونے کی جگہیں مقرر کریں اور جگہ جگہ صاف پانی، صابن یا کم ازکم ہینڈ سینیٹائزر کی سہولت مہیا کی جائے، دکان داروں اور گاہکوں سب کے بیچ کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے زمین پر نشان بنائے جاسکتے ہیں۔ دکانوں کی وقفے وقفے سے جراثیم کش ادویات سے صفائی کو معمول بنا لیا جائے۔ گوشت وغیرہ کی دکانوں پر بالخصوص سب اپنے اپنے چاقو چھریاں اور اوزار استعمال کریں اور ان کو صاف کرتے رہیں۔ کسی ملازم یا اس کے گھر کے کسی فرد میں کورونا تشخیص ہو تو اس کو مخصوص مدت کے لیے چھٹی ضرور دیں اور جہاں تک ممکن ہو مالی اور طبی سہولیات فراہم کریں کیونکہ صرف باہمی تعاون کے ذریعے ہی اس مرض کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

سوال نمبر7۔ عوام میں کورونا سے بچاؤ کے بارے میں طرح طرح کی جڑی بوٹیوں اور قدرتی اشیا کے بارے میں باتیں پھیل رہی ہیں۔ حکمت اور طب نبویؐ میں بھی اس کا علاج ڈھونڈا جا رہا ہے آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گی؟

ڈاکٹر میشا اقبال: ایک میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ناتے ہم صرف ایلوپیتھک ادویات اور طریقہ علاج کے بارے میں ہی رائے دے سکتے ہیں۔ ایک مسلمان کے طور پر قرآن و احادیث میں بیان کردہ اشیا مثلاً شہد اور کلونجی کی افادیت پر ہم سب ہی ایمان رکھتے ہیں اور عام حالات میں بھی اچھی صحت اور بہتر قوت مدافعت کے لیے ان کا استعمال یقینا مفید ہے تاہم خاص کورونا کے علاج کے لیے ان تمام قدرتی اشیا کی افادیت پر تحقیق کی جانی چاہیے۔

ڈاکٹر عائشہ زاہدی: بالکل، اور میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ معلومات کے لیے انتہائی مستند ذرائع پر انحصار کرنا چاہیے۔ گورنمنٹ کی کورونا ویب سائٹ یا لائسنس یافتہ طبی ماہرین کی رائے پر انحصار کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ لاعلمی میں مریض کو علاج میں تاخیر یا سنگین غلطیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ بروقت اور درست سمت میں رہنمائی بہت سی جانوں کو بچا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔