یہ وبا کے دن ہیں۔۔۔ ذرا فاصلے سے ملا کرو!

ابنِ صابر  منگل 11 اگست 2020
ویکسین کی تیاری کے بعد درکار تعداد میں اس کی تیاری بڑا امتحان ہوگی۔ فوٹو : فائل

ویکسین کی تیاری کے بعد درکار تعداد میں اس کی تیاری بڑا امتحان ہوگی۔ فوٹو : فائل

معروف شاعر بشیر بدر رومانوی شاعری اور ’سہلِ مُمتنع‘ کے باعث عوام میں کافی مقبول ہیں، ان کے اشعار زبان زدِ عام ہیں اور کچھ اشعار تو ضرب المثل بن گئے ہیں۔

ایک اچھے شاعر کی یہ نشانی بھی ہوتی ہے کہ ان کے اشعار بعد کے زمانے کے عکاس ہوں اور اگلے زمانے کے قاری کو محسوس ہو کہ یہ تو موجودہ حالات پہ ہی کہے گئے ہیں۔ اب بشیر بدر کے اسی شعر کو دیکھیے۔

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

ویسے تو اس شعر میں بشیر بدر شہر ناقدرے کا تذکرہ کر رہے ہیں، جدید دنیا کے بے روشن پہلو کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں کوئی کسی غرض کے بغیر نہیں ملتا، لیکن ہم ٹھیرے عاشق بشیر بدر اس لیے ہمیں اس شعر میں بھی ’’ذرا فاصلے سے ملا کرو‘‘ اور ضمناً ’’کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا‘‘ کورونا کی وبا کے دنوں کی احتیاطیں ہی معلوم ہوتی ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں جب چین کے صوبے ووہان میں لوگ ایک پُراسرار بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو رہے تھے اور ایک کے بعد ایک مریض ایک ہی جیسی علامات کے ساتھ اسپتال میں داخل ہو رہے تھے، تو کسی کو اندازہ نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ستاروں پر کمند ڈالنے والی دنیا کا پہیا ایک ننھا وائرس جام کر کے رکھ دے گا۔

طبی ماہرین اس بن بلائے مہمان کی نہ تو شکل سے واقف تھے اور نہ ہی اس مہلک وائرس کا کوئی تعارف تھا، لیکن جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے اس وائرس کی ہول ناکی اور ہلاکت خیزی ظاہر ہوتی گئی۔ ’سارس‘ وائرس جیسی علامتیں ہونے کے باعث اسے کووڈ-19 کے نام سے موسوم کیا گیا۔

یہ پھیپھڑے ہی ہوتے ہیں، جو خون میں آکسیجن کی منتقلی اور مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خون سے علاحدہ کر کے جسم سے باہر نکال پھینکتے ہیں۔ یہ پُراسرار وائرس انسان کے نظام تنفس پر حملہ آور ہوتا اور پھیپھڑوں کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے، جس سے مریض کو سانس لینے میں دقت کا سامنا ہوتا اور جیسے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ ’’ہر سانس کی آزار ہے‘‘ کی کیفیت ہو جاتی ہے۔

خدانخواستہ جب پھیپھڑے ناکارہ ہو جائیں، تو خون میں آکسیجن کی کمی پیدا ہوتی ہے، جس سے جسم کے اہم اعضا آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے اپنے افعال انجام دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں اور یوں دل کے اچانک بند ہو جانے یا دماغ کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے سے فوری موت واقع ہو سکتی ہے۔

وائرس تیزی سے ووہان میں پھیل رہا تھا اور نہ تو دشمن وائرس کا چہرہ دکھائی دیتا تھا اور نہ طریقۂ واردات واضح تھی، سائنس دانوں اور طبی ماہرین نے مشترکہ طور پر لیکن الگ الگ محاذ پر کام کرنا شروع کیا، وائرس کی ساخت کا مطالعہ کیا گیا اور ٹیسٹنگ کٹس ایجاد کی گئیں۔ اس کی علامتیں وضع کی گئیں اور احتیاطی تدابیر طے کی گئیں۔

چین نے اس وائرس کو ووہان تک محدود رکھنے کے لیے نہایت سخت اقدامات اْٹھائے اور وائرس کے پھیلاؤ کو محدود رکھا، جس کی وجہ سے وائرس ووہان سے چین کے کسی دوسرے صوبے میں نہ پہنچ سکا، تاہم عالمی فضائی آپریشن بند نہ ہونے یا کم از کم ایئرپورٹس پر اسکریننگ کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے وائرس امریکا اور یورپ پہنچ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں اپنی ہیبت بٹھا دی۔

چین نے عالمی ادارۂ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کو وائرس سے متعلق جو معلومات فراہم کیں، ان کی بنیاد پر ’ایس او پیز‘ مرتب کیے گئے، جس میں ہاتھ نہ ملانے، میل جول اور گفت و شنید کے دوران ایک دوسرے سے چھے فٹ کا فاصلہ رکھنے اور ہجوم سے اجتناب برتنا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’ماسک‘ کے استعمال کو لازمی قرار دیا گیا اور طبی عملے کو ان کے علاوہ حفاظتی لباس، فیس شیلڈ وغیرہ کے استعمال کی ترغیب بھی دی گئی۔

اس وائرس سے جنگ کے لیے ہراول دستہ طبی عملہ تھا، یہ اس فضا میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، جہاں وائرس کی موجودگی سو فی صد یقینی تھی اور ایسے مریضوں کا علاج کر رہے تھے، جو اس وائرس کی وجہ سے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس لیے ضروری تھا طبی عملے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے، چناں چہ چین، امریکا، یورپی ممالک اور پاکستان میں بھی اپنے ان ہیروز کو سلام تحسین پیش کیا گیا۔

کورونا کی وبا پر چین کے برعکس عالمی طاقتوں نے قدرے غیر سجنیدگی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے وائرس نے اٹلی اور فرانس کو بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا، جب تک ان ممالک کو ہوش آیا، تب تک کافی نقصان ہو چکا تھا، تاہم ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق معاملے کو سنبھال لیا گیا، تاہم امریکا میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے تو اس وائرس کو چین کی ’’ایجاد کردہ کیمیکل‘‘ اور سازش قرار دیا اور ملک میں وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کے بہ جائے ’عالمی ادارۂ صحت‘ کو نہ صرف چین کا سہولت کار کہا، بلکہ اِس ادارے کے لیے امریکی فنڈ بھی روک دیے۔ صدر ٹرمپ نے صرف اس پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ اپنے مشیر صحت ڈاکٹر انتھونی فیوچی کی ہدایتوں کو بھی نظر انداز کیا اور گویا ماسک نہ پہننے کی قسم کی کھائی، تاہم میڈیا کے دباؤ پر ایک بار ماسک پہننے پر مجبور ہوئے، لیکن دوبارہ ترک کر دیا۔

امریکی صدر کی بے احتیاطی سے عوام نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا، یہی وجہ ہے کہ 50 دن سے کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی کے بعد امریکا میں دوبارہ اس لہر نے سر اْٹھا لیا ہے اور اب یومیہ ایک ہزار نئے مریض سامنے آرہے ہیں، جب کہ دیگر ممالک میں نئے مریضوں کی تعداد کا گراف تنزلی کی جانب رواں ہے۔ اس وقت امریکا میں 78 لاکھ 11 ہزار اور 127 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ 3 لاکھ 13 ہزار اور 809 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک وقت تھا جب امریکا کے بعد سب سے متاثر ہونے والے ممالک اٹلی اور اسپین تھے، لیکن ان دونوں ممالک نے سخت حفاظتی اقدامات نافذ کیے اور سنجیدگی سے عمل بھی کر کے دکھایا، جس کے بعد ان ممالک میں صورت حال اب کافی بہتر ہے اور صورت حال کنٹرول میں ہے۔

اس برعکس بداحتیاطی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والا برازیل اب اٹلی کی جگہ دوسرے نمبر پر ہے، جہاں اب تک 21 لاکھ 18 ہزار اور 646 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ 80 ہزار 120 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور صورت حال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی برازیل میں بڑھتے ہوئے کیسوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جہاں برازیل نے اٹلی کی جگہ لے لی، وہیں مودی سرکار کی ناقص کارکردگی اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں کے باعث بھارت کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے سخت لاک ڈاؤن کا اعلان تو کر دیا اور اندرون ملک ٹرانسپورٹ بھی بند کر دی، جس سے لاکھوں مزدور شہروں میں پھنس گئے۔

کھانے کو اجناس اور رہنے کے لیے کرایہ نہ ہونے پر یہ مزدور پیدل ہی اپنے گاؤں کو چل پڑے، جہاں رات ہوئی وہ پڑ کر سو گئے۔ ایسے ہی 50 کے قریب مزدور دو الگ الگ واقعات میں پٹری پر سونے کی وجہ سے مال بردار ٹرین کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے، جب کہ دیگر ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔

کورونا وائرس سے اب تک بھارت میں متاثر ہونے والوں کی تعداد 11 لاکھ 92 ہزار اور 915 ہے جب کہ اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور اس تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے بھارت میں مودی سرکار کی پالیسیوں کی قلعی کھل گئی ہے۔ بھارت کے بعد نمبر روس کا آتا ہے جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 7 لاکھ 89 ہزار اور 190 ہے جب کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہزار 745 ہے۔

دوسری جانب ’عالمی ادارۂ صحت‘ اور دیگر طبی تحقیقی مقالوں نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اس مہلک وائرس سے محفوظ رہنے والے وہی افراد ہیں جنہوں نے ماسک پہننے کو اپنے اوپر لازم رکھا اور جو ’’ذرا فاصلے سے ملا کرو‘‘ پر عمل کرتے رہے۔ کووڈ-19 کی ویکسین بننے سے پہلے تک اگر کوئی چیز ہمیں اس مہلک وائرس سے بچا سکتی ہے، تو وہ ماسک اور میل جول میں فاصلہ رکھنا ہی ہے۔

’کورونا‘ کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہیں، اب کسی کو ایپل موبائل کے نئے ماڈل یا لگژری و جدید گاڑی کے ماڈل کے انتظار سے زیادہ کورونا ویکسین کی دست یابی کا انتظار ہے۔ اس وقت چین، امریکا، جرمنی، اسرائیل اور جرمنی سمیت کئی ممالک میں ویکیسن کی تیاری کا کام جاری ہے، جن میں 8 سے 10 ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین مختلف اقسام کی ہوتی ہیں، جیسے لائیو ویکسین، جس کی تیاری میں کم مقدار میں زندہ جراثیم کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ ان ایکٹیو ویکسین میں مردہ جراثیم استعمال کیا جاتا ہے۔

انہیں جینیاتی طرز پر تیار ہونے والی ویکسین بھی کہا جاتا ہے، جو مخصوص ’کوڈ‘ پر مشتمل ہوتی ہیں، یہ کوڈز جراثیم سے لڑنے کے لیے اینٹی جین تیار کرنے میں مدد دے گا۔ ان اینٹی جینز کی وجہ سے مدافعتی نظام مضبوط ہوگا اور مستقبل میں ایسے کسی جرثومے کو شکست دینے کے لیے مدافعتی نظام پہلے سے ہی تیار ہوگا۔

دنیا کو پولیو سے پاک دیکھنے کے لیے مختلف ممالک میں ویکسین کی مفت فراہمی کو یقینی بنانے والے دنیا کے امیر ترین شہری اور مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس بھی جینیاتی طرز پر تیار شدہ ویکسین کی تیاری میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کووڈ-19‘ کے لیے پہلی ’آر این اے‘ ویکسین ہو سکتی ہے اور یہ دیگر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوگی۔ جینیاتی طرز پر ویکسین کی تیاری پر بل گیٹس کے فلاحی ادارے ’بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘ میں 10 سال سے تحقیق جاری ہے، تاہم اب تک اس پر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود بل گیٹس اس قسم کی ویکسین کے لیے پُرجوش نظر آتے ہیں۔

’عالمی ادارۂ صحت‘ کی طرح بل گیٹس کے ساتھ ساتھ دیگر طبی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ بلا خوف و خطر دنیا بھر میں معاشی سماجی اور دیگر سرگرمیاں ویکسین کی دست یابی کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین کی سب سے پہلے تیاری اور اپنے ملک میں دست یابی کے لیے دوڑ کا آغاز ہو گیا ہے، جس کے لیے کچھ عالمی قوتیں دھونس و دھمکی پر اتر آئی ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک جرمنی کمپنی پر سب سے پہلے ویکسین امریکا کو فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، جب کہ چین نے بھی ویکسین کی تیاری میں امریکا کی جانب سے مداخلت پر احتجاج کیا ہے اور ابھی حال ہی میں برطانیہ، جرمنی اور امریکا نے روس پر کورونا ویکسین سے متعلق اہم معلومات سائبر حملے میں چرانے کا الزام عائد کیا ہے، تاہم روس نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔

ادویہ ساز کمپنیوں کو بھی کورونا ویکسین کی تیاری میں عالمی قوتوں کے دباؤ کا سامنا ہے، جس پر ان کمپنیوں نے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ پروٹوکول کا خیال رکھے بغیر جلد بازی میں ویکسین کی تیاری خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، جب کہ ویکسین کی تیاری کے بعد سب سے بڑا امتحان درکار تعداد میں اس کی تیاری ہوگی، جس کے لیے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں، تاہم ویکسین کی قیمت نہایت مناسب اور سب کو یک ساں طور پر ملنے کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانا ہوگا۔

دنیا میں اس وقت کہیں تیل کے لیے تو کہیں پانی کے لیے کھینچا تانی جاری ہے اور چند ممالک کے بے صبری اور بے تابی ایسا ظاہر کر رہی ہے کہ اب ویکسین کے حصول کے لیے بھی طاقت کا استعمال کیا جائے گا، بقول منیر نیازی ؎

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔