دل خوش فہم کی فہمیاں

سعد اللہ جان برق  بدھ 12 اگست 2020
barq@email.com

[email protected]

کسی بزرگ نے کیا خوب کہاہے کہ

دکھاتا ہے رنگ یہ جہاں کیسے کیسے

زمیں ہوگئے آسماں کیسے کیسے

ایسے بہت سارے آسمان ہم نے خود بھی دیکھے ہیں لیکن ہم سیاسی اور سماجی عروج وزوال کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ وہاں تومعاملہ ہی الٹاہے، مروجہ اور نصابی دانش میں جس چیز کو عروج کہتے ہیں، انسانی نقطہ نظر سے وہ زوال ہوتاہے لیکن کیا کیاجائے کہ اشرافیہ کے منظور شدہ علوم میں خونریزی کو بہادری اور قتل وقتال کو عروج کہاجاتاہے اور صحیح معنی میں ’’آدم‘‘بن جانے کو زوال کانام دیاجاتاہے مثلاً چنگیز وہلاکو اور بابر وتیمور مغلوں کا عروج تھے اور شاہ جہاں وبہادرشاہ ظفر زوال تھے۔ دارا ایرانیوں،سکندر یونانیوں کاعروج تھا اور بعد میں زوال۔لیکن آج ہم صرف انسان کی ظاہری شکل وصورت کی بات کررہے ہیں۔

کتنی حسینائیں اورگبھرو جوان تھے جودلوں کی دھڑکن ہوا کرتے تھے لیکن پھر واہ سے آہ ہوگئے۔ہم اپنی چشم دید اور چشمہ دید دور کی بات کریں گے۔ ہمارے جوانی کے دور میں پشاور کے ایک بزرگ صحافی اپنے ساتھ اپنے نوخیز فرزند کوبھی منظرعام پرلانے کے لیے ساتھ پھرایا کرتے تھے۔ صحافتی حلقوں میں کون تھا جو اس کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا اور اسے دیدہ ور کا پروٹوکول نہیں دیتے تھے۔

ایک بزرگ صحافی توہمیں جب بھی ملتے تھے ، اس لڑکے کانام لے کر’’ہمیں‘‘ خوشامدی کا طعنہ دیتے تھے حالانکہ وہ اس ’’چھیڑ‘‘میں اپنی ’’ٹیڑھ‘‘چھپاتے تھے۔’’ہم توعاشق ہیں تمہارے نام کے‘‘والا معاملہ تھا لیکن وہ اپنے ساتھ کچھ بزرگی و زہد کا دم چھلا بلکہ دم کے ساتھ چھاج بھی باندھے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے یہ طریقہ نکالا تھا حالانکہ ہمارا اس لڑکے کی خوشامد سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور انھوں نے محض ’’اپنی دل لگی‘‘ کی یہ سبیل ڈھونڈھی تھی۔لیکن کچھ عرصہ پہلے ہم نے اس آدمی کودیکھا جو کبھی لڑکا تھا، پہچان ہی نہیں پائے، وہ کٹار کی سی نگاہیں پژمردہ ہوکر ویران آنکھوں کے نہ جانے کس گوشے میں اپنا ماتم خودکررہی تھیں۔

وہ تیکھے نقوش چہرے کی جھریوں اور دراڑوں میں کہیں دب دباگئے تھے۔اس پر ہمیں ایک بہت پرانے پڑھے ہوئے افسانے کی یاد آئی۔ اس افسانے میں ایک مصور کسی شہر میں آتاہے اور وہ ایک انتہائی خوبرو شخصیت کے بچپن کو پینٹ کرنے کے لیے کوئی خوبصورت سا لڑکا ڈھونڈ رہاتھا۔ آخر اسے ایک ایسا لڑکا مل جاتا ہے جو خوبصورتی، معصومیت اور پاکیزگی کا جیتا جاگتا نمونہ تھا چنانچہ اس نے اس لڑکے کو پینٹ کر لیا اور چلا گیا۔

اس کی یہ تصویر بڑی مقبول ہوئی، پھر وہ اپنا کام کرتا رہا یہاں تک کہ بوڑھا ہوگیا۔ بڑھاپے میں اسے شیطان کو پینٹ کرنے کا خیال آگیا اور وہ ایک مرتبہ پھر اسی علاقے میں آگیا۔ ماڈل ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخرکار اسے ایک مفلسی کا مارا ہوا مزدور مل گیا جس کے نقوش بری طرح بگڑے ہوئے تھے۔ ناک لمبی ہوکر ٹھوڑی کے مقابل آگئی تھی۔ منہ بگڑ کر ایک سوراخ بن گیاتھا۔ آنکھیں دور کہیں کسی کنوئیں میں جابیٹھی تھیں اور چہرے کی جھریوں اور نشیب وفراز میں گرسنگی، خودغرضی اور حرص وطمع کی سلوٹیں پیداہوگئی تھیں، اسے اپنے پروجیکٹ کے لیے پرفیکٹ ماڈل مل گیاتھا۔

تصویر بناتے بناتے ان کے درمیان بات چیت بھی چل رہی تھی۔تب اس پر انکشاف ہوگیا کہ یہ تو وہی آدمی تھا جس کو اس نے ایک حسین وجمیل شخصیت کے لیے پینٹ کیا تھا جو اب شیطان کی تصویر کے لیے اس کا پرفیکٹ ماڈل تھا۔ہم نے اس بیل کی کہانی بھی آپ کو سنائی تھی جسے کسان نے بیچ دیاتھا اور کچھ دنوں بعد اس نے ایک نیا نویلا بیل خریدا۔ لیکن بیل کوتھان پر باندھنے کے بعد آہستہ آہستہ اس پر کھلا کہ یہ وہی بیل ہے لیکن سوداگروں نے اس کے سینگ تراش کر اور رنگ روغن کرکے نیا بنادیاتھا لیکن یہ بات آپ نے شاید ہی سنی ہو کہ امریکا کی ہائی سوسائٹی میں ایک جوڑے نے ایک دوسرے کو پسند کرکے معلوم نہیں کونسی ویں،شادی کرلی۔

لیکن خلوت میں ان کو پتہ چلا کہ دونوں نے پلاسٹک اور کاسمٹک سرجری کرا رکھی تھی،دونوں نے اس سے پہلے بھی ’’کسی اور مصنوعی جنم‘‘ میں شادی اور طلاق کا کھیل کھیلا تھا۔ خود ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ایک ماجرا ہوگیا تھا۔ ریڈیو میں اچانک ایک ایمرجنسی آپڑی تھی۔ ایک خصوصی گانا ریکارڈ کرنا تھا اور جو گلوکارہ دستیاب تھی اس سے ہماری کچھ جان پہچان تھی، اس لیے اسے لانے کے لیے قرعہ فال ہمارے نام پڑا۔ہم نے ریڈیو کی گاڑی لی۔

ڈرائیور کواس کا پتہ معلوم تھا،ہم نے گھر کی گھنٹی بجائی تو دروازہ جس خاتون نے کھولا ، وہ نقوش وخطوط سے اس کی ماں لگی۔خاتون نے خندہ پیشانی سے ہمارا نام لے کرخیرمقدم کیا اور گھر کے اندر لے گئی۔چائے وغیرہ کا مرحلہ ختم ہوا توہم نے اس سے پوچھا، شیلا کہاں ہے؟وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی۔ کیا؟ ہم نے پھر عرض کیا، شیلا؟ وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی، آپ مذاق بہت کرتے ہیں، آپ کے سامنے ہی تو بیٹھی ہوں اور ہمارا دل پہلے بیٹھا اور لیٹ اور لیٹ لطیف ہوگیا۔یا الہیٰ یہ ماجرا کیا ہے۔ اور ماجرا یہ تھا کہ جب وہ ایک گھنٹے کے بعد ’’تیار‘‘ ہوکر آگئی تو حیرت انگیز طور پر ’’اپنی بیٹی‘‘بن چکی تھی۔ایک طرح سے خوشی بھی ہوئی کہ چلو کسی نہ کسی طرح انسان نے وقت کو شکست دے ہی دی۔  عارضی ہی سہی، جھوٹی ہی سہی لیکن خود اور کچھ لوگوں کی تسلی اور تفریح کا سامان توکرلیا گیا۔

دم بھر کے لیے کوئی ہم سے پیار کرلے

جھوٹا ہی سہی

کیاکیاجائے، انسان کی یہی تو خوبی ہے کہ دل کو خوش رکھنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ ہی لیتاہے اور کوئی نہ کوئی’’فہمی‘‘پال لیتاہے جیسے ہم ’’پرانے بیلوں‘‘کو خرید خرید کر’’نیا‘‘سمجھنے کی فہمی پالتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔