عدالتوں کوملزمان کے لیے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے

مزمل سہروردی  بدھ 12 اگست 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں ماتحت عدالتوں میں ملزمان کے قتل کے واقعات کے سامنے آرہے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، ہر تھوڑے عرصے بعد ایسا ایک نہ ایک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ اسی طرح ہم عدالتوں میں فریقین کے درمیان لڑائی کے واقعات بھی روز دیکھتے ہیں۔ وکلا گردی بھی ماتحت عدالتوں میں دیکھی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک کی عدالتیں ہی ملزمان کے لیے غیر محفوظ ہو جائیں گی تو انصاف کیسے ہوگا؟

پشاور میں ایک ملزم کو ایک شہری نے عدالت میں گولی مار دی۔ گزشتہ روز لاہور میں قتل کا ایک ملزم جب ضمانت کے لیے عدالت پہنچا تومخالف فریق نے اسے گولی مار دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری ماتحت عدالتوں میں مقدمات کو نبٹانے کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

محترم چیف جسٹس پاکستان کراچی گئے ہیں اور انھوں نے کراچی کی عوام کو درپیش مسائل پر حکومت اور متعلقہ حلقوں کی سخت سرزنش کی ہے۔ کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والوں کے مقدمات درج کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ لیکن میری مودبانہ درخواست ہو گی کہ اگر جناب چیف جسٹس پاکستان تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے  تعاون سے  پاکستان کی ماتحت عدلیہ کو درپیش مسائل حل کرنے پر فوکس شروع کر دیں تو ملک میں نہ صرف انصاف کا بول بالا ہو جائے گا بلکہ نظام حکومت میں بھی از خود بہتری آجائے گی۔

کیا ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ عدالتوں میں ملزمان کو قتل کیوں کر رہے ہیں؟ کیا یہ ان کی جانب سے نظام انصاف پر عدم اعتماد نہیں ہے اور کیا یہ بات ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ اگر عدالتیں ملزمان کے لیے غیر محفوظ ہو گئیں تو ملزم اور مجرم میں بنیادی فرق ختم ہو جائے گا۔ جب لوگ اپنے ملزم کو ہی مجرم قرار دینے لگ جائیں گے اور انصاف کرنے کا حق اپنے ہاتھ میں لے لیں گے تو نظام انصاف کا بنیادی فلسفہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اگر پاکستان میں نظام انصاف کو بچانا ہے تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھانا ہوںگے جس سے عوام میں نظام انصاف کے لیے احترام اور اعتماد برقرار رہے۔

میری درخواست ہے کہ تاریخ پر تاریخ کا فرسودہ کلچر بدلنے کے لیے کوئی اصلاحات کا اعلان کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ایک جج کے پاس ایک دن میں دو سو سے زائد مقدمات لگے ہوتے ہیں۔ ایک جج کے لیے عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دو سو مقدمات کی سماعت کر سکے۔ اس لیے معزز جج صاحب کے پاس تاریخ پر تاریخ دینے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ اس لیے جب تک ماتحت عدلیہ کے معزز جج صاحبان سے مقدمات کا بوجھ کم نہیں کیا جائے گا تب تک نظام انصاف میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ یہ بات طے کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک دن میں ایک جج صاحب کتنے مقدمات کی سماعت کر سکتے ہیں۔ اس طرح سیکڑوں مقدمات ایک دن کے لیے کاز لسٹ میں فکس کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ بلکہ یہ فریقین کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔

میں سمجھتا ہوں چند بنیادی نوعیت کی اصلاحات سے بھی کافی بہتری ممکن ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ فوجداری مقدمات میں ضمانت کے مقدمات نے عدلیہ کو مفلوج کیا ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ماتحت عدلیہ کے فوجداری مقدمات کے ججز کا زیادہ وقت ضمانت کے مقدمات سننے میں ضایع ہو جاتا ہے۔ ہم نے معمولی نوعیت کے ضمانت کے مسئلہ کو اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا ہے کہ ہم نے ضمانت کو ہی اصل مقدمہ بنا دیا ہے۔ ملزم کو ضمانت مل گئی تو مدعی سمجھتے ہیں کہ ان کا مقدمہ ختم ہو گیا ہے اور اگر ملزم کو ضمانت نہیں ملتی تو ملزم سمجھتا ہے کہ اسے سزا ہو گئی ہے۔

ساری ہار اور جیت کا فیصلہ ضمانت پر ہی ہونے لگا ہے۔ یہ انصاف کے بنیادی فلسفہ کی نفی ہے۔ لاہور میں قتل کے جس ملزم کو عدالت میں قتل کیا گیا ہے وہ بھی ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے ہی آیا ہوا تھا۔ اس لیے ضمانت کے معاملے کو سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ میں تو  حیران ہوں کہ ضمانت کا معاملہ بھی سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ا یک انتظامی معاملہ ہونا چاہیے۔ ضمانت کے قواعد میں ایسی اصلاحات کرنی چاہیے کہ اگر ملزم ایک دفعہ ضمانت لے کر فرار نہ ہوسکے۔اب ضمانت کے قواعد میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

عدالتوں کے احاطے میں وکلا کے دفاتر اور فوٹو کاپی کی دکانیں بھی ختم ہونی چاہیے۔ عدالتوں کے احاطے میں وکلا کے چیمبر نہیں ہو سکتے۔ اس طرح عدالت میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع کیا جائے۔ جب تک عدالتوں کے احاطوں کو وکلا سے آزاد نہیں کرایا جائے گا تب تک نظام انصاف میںبہتری ممکن نہیں ہے۔ عدالتوں کو ملزمان کے لیے محفوظ بنانے سے ہی نظام انصاف آگے چلے گا۔ پاکستان بھر کی ماتحت عدالتوں سے تجاوزات اور غیر ضروری املاک ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کا عمل فوری شروع کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔